• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ گیت کار کہیں، ڈائیلاگ رائٹر،کہانی کاریا فلم ڈائریکٹر۔۔ہر زاویئے کا ایک ہی حوالہ ہیں۔۔۔ سمپورن سنگھ کالرا جنہیں دنیا ’گلزار‘ کے نام سے جانتی ہے۔ یہ نام لکھنے اور پڑھنے میں بے شک بہت چھوٹا ہے لیکن شخصیت نہایت قد آور ہے۔ کون سا ایوارڈ ایسا ہے جو انہیں نہ ملا ہواور کون سی وہ ادبی محفل ہے جہاں کے لوگ اس نام سے واقف نہ ہوں۔

گلزار جیسی بڑی شخصیت کو جب ممبئی میں بسنے کا مسئلہ درپیش ہوا تو انہیں کئی چھوٹی موٹی نوکریاں اور کام کرنا پڑے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے اس دور میں موٹر گیراج میں بھی کام کیاحالانکہ انہیں ادب پڑھنے کا دیوانگی کی حد تک شوق تھا اور ہے۔

کتابیں پڑھنے کے شوق کے حوالے سے ہی وہ ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہوئے کہتے ہیں ’میرے زمانے کی ایک لائبریری نے زیادہ آمدنی کی غرض سے چارآنے دے کر ایک ہفتے کے دوران انگنت کتابیں پڑھنے کی پیشکش کی ۔

یہ بھی پڑھیے:موسیقار اوپی نیرجنہیں لتا منگیشکر کبھی پسند نہیں آئیں

لائبریری والوں کا خیال تھا کہ کوئی بھی اتنی کتابیں نہیں پڑھ سکے گا کہ انہیں مالی نقصان ہو لیکن میرا حال یہ تھا کہ کتابیں کی کتابیں پڑھ ڈالیں ۔یہاں تک کہ لائبریری والوں کو نقصان کا احساس ہونے لگا ۔ میں جاسوسی کتابیں کافی پسند کرتا تھا اور ایک کتاب ایک دن میں ختم کردیا کرتا تھا اور روز کتاب لینے پہنچ جایا کرتا تھا جب دکان دار کو لگاکہ اس کا بزنس گھاٹے میں جا رہا ہے تو اس نے مجھے کتابیں دینے سے انکا ر کردیا۔‘

ان کے اس شوق کو دیکھتے ہوئے ان کے والد اکثر کہا کرتے تھے ’’ کہ بیٹا مصنف مت بن،اس میں کمائی نہیں ۔ بہتر ہے تو اپنے بڑے بھائیوں سے بنا کر رکھنا ہاں اگر قسمت اچھی ہوئی تو شاید تیرا یہ خواب پورا ہوجائے‘

یہ بھی پڑھیے:دنیا کونئے رخ سے دیکھنے والےسعادت حسن منٹو

اور کچھ یوں ہی ہوا ۔ گلزارصاحب کا ایک دوست انھیں فلم میکر بمل رائے کے پاس لے گیا ۔ بمل روئے کو ایک نئے گیت کار کی ضرورت تھی ۔انہوں نےگلزار کو دیکھا ، ان کی تحریریں دیکھیں اورفوراً ہی آفر کردی۔

کچھ ہی دن گزرے تھے کہ بمل رائے نے انہیں اپنا اسسٹنٹ بنالیا جو گلزار کے لئے کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔ ساتھ ہی انہوں نے گلزار سے بھی کہا کہ اب وہ کبھی گیراج جانے کا سوچیں بھی نہیں ۔ یہ سننا تھا کر گلزار کی آنکھوں سے آنسو چھلک گئے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔

یہ بھی پڑھیے:ہنسی کےپردے میں چھپے قادر خان کی زندگی کےدکھ، درد

بمل روئے کے ساتھ کام کرکے گلزار صاحب کی دوستی آرڈی برمن سے ہوئی۔ پھر ان کا تعارف رشی کیش مکھرجی سے ہوا۔رشی کیش مکھرجی اس دور کے نامور ایڈیٹرز میں سے ایک تھے۔بعد میں وہ ڈائریکٹر بن گئے۔گلزار سے ملنے کے بعد رشی کیش بھی گلزار کے غرویدہ ہوگئے اور ان کو اپنی فلموں میں بطور ڈائیلاگ رائٹرکام لیااورترقی کا دہ دور شروع کیا جو آج تک جاری ہے ۔



بطور گیت کار گلزار صاحب نے ہر دور کے بڑے سے بڑے میوزک ڈائیریکٹر کے ساتھ کام کیا ہے چاہے وہ ، ایس ڈی بر من ہو یا پھر سلیل چوہدری ، آر ڈی برمن ہو یا پھرلکشمی کانت پیارے لال۔ اور تو اور نئے دور کے اے آر رحمن اور ویشال بھاردواج تک سب ہی کے ساتھ گلزار کا کام بہت سراہا گیا۔

یہ بھی پڑھیے:سدھیر، 30سال تک فلموں میں نام کمانے والے ’لالہ‘

گلزار صاحب کا کہناتھا کہ میں ہمیشہ ایک جوان کا شکریہ ادا کرتا ہو جس کا نا م ویشال ہے کیونکہ اس نے میر ے گانوں کو جوان رکھنے میں میری کافی مدد کی ہے۔

مگر گلزار صاحب کی دوستی آر ڈی برمن سے کافی زبردست رہی اور یہی وجہ یہ بنی کہ جب گلزار نے فلم میکنگ شروع کی تو تقریباً ہر فلم آر ڈی برمن کی دھنوں پر ہی گانے بنا ئے اب چا ہےوہ پریچے رہی ہو، اندھی رہی ہو یا پھر کنارہ ہو۔

گلزار صاحب اور سنجیو کمارکی دوستی اتنی بہترین تھی کہ ہر فلم کے اندر ان کی جوڑی نے کمال کیا اب چاہے وہ میاں بیوی کے رشتے پر بنی فلم ’’آندھی ‘‘رہی ہو یا ہنستی گدگداتی فلم ’’انگور‘‘یا پھر گونگے اور بہرے میاں بیوی کی کہانی ’’کوشش‘‘ہو۔

گلزار صاحب کی شادی راکھی سے ہوئی تھی ۔ان دونوں کی ملاقات فلم ’راہ گیر‘ کی شوٹنگ پرہوئی تھی ،راکھی کہتی ہیں کہ گلزار کی حسِ مزاح نے ان کو گلزار صاحب کی طرف کھینچا مگر یہ رشتہ زیادہ عرصے نہ چل سکا اور ٹوٹ گیا ۔

 

تازہ ترین