• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوئی بھی شخص جو منتخب پارلیمنٹ کی عظمت و بالا دستی پر ایمان رکھتا ہو، آئین، جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادیوں کے لئے جدوجہد کر رہا ہو، اُس پر لازم ہے کہ وہ ہر نوع کے جبر و استبداد کے بالمقابل منتخب وزیراعظم کی حمایت میں رطب اللسان ہی نہ ہو،ان کے ساتھ کھڑا بھی ہو جائے۔ ہمارے ملک میں سب حلقوں سے اچھے تعلقات کا دعویٰ خاصا پرانا ہے، ہر وزیراعظم یہی کہتا ہے کہ ہر طبقے کے ساتھ اس کے تعلقات بہت اچھے ہیں لیکن کب تک؟ محترمہ بےنظیر اور میاں نواز شریف جیسے ہر دلعزیز وزرائے اعظم تو رہے ایک طرف، دیگر جو محض بیساکھیوں کے سہارے وزیراعظم بنتے ہیں، آخر کار وہ بھی کیوں اپنا ایک صفحہ سالم نہیں رکھ پاتے۔ لیاقت علی، خواجہ ناظم الدین یا حسین شہید سہروردی کےمابعد آنے والے وزرائے اعظم کی ایک کھیپ ہے جن کی حیثیت سوائے کٹھ پتلیوں کے اور کچھ نہ تھی۔جونیجو جیسا مرنجاں مرنج شخص بھی طاقتور کے سامنے اپنا ایک صفحہ قائم نہ رکھ پایا۔ یہاں تو قائدِ عوام بھی محض اپنا بھرم ہی رکھ گیا۔ اس شخص سے حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ تو پبلک کروائی نہ جا سکی، عوام مزید توقع کیا رکھ سکتے تھے؟ صرف دو نام بچتے ہیں جنہیں قد آور کہا جا سکتا ہے، نواز شریف اور محترمہ بےنظیر مگر ان دونوں نے بھی کمپروماز کیلئے کوئی کم قربانیاں نہ دیںلیکن ایک وقت کے بعد وہ مہرے نہ رہے اور انہوں نے قومی رہنما ہونے کا لوہا منوایا اور اس کی سزا بھی بھگتی۔ میاں صاحب تو ہنوز بھگت رہے ہیں۔اب آتے ہیں قومی قیادت کی کرسی پر براجمان کھلاڑی کی طرف تو سوال سامنے آتا ہے کہ اس کے لئے جمہور کی آواز پر یقین رکھنے والوں کی وہ بھاونائیں کیوں نہیں ہیں جو جونیجو اور جمالی جیسے کمزور ترین وزرائے اعظم کیلئے بھی تھیں، اس کی اولین وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کسی کی خوشنودی کیلئے اپنے مخالف سیاستدانوں کے ساتھ وہ کچھ نہیں کیا تھا جس کے بدترین مظاہر ہم نے ستر کے بعد یا اب دیکھے ہیں۔

دوستی کی بات الگ ہے، انسان کو دشمنی میں بھی ان حدود تک نہیں جانا چاہئے جسے دیکھ کر آس پاس والوں کو بھیشرم آئے۔ اس شخص کے خلاف جس نے آپ پر ایک وقت میں نوازشات کی ہوں، سلیم الفطرت انسان تو کسی کی نیکی سات پشتوں تک نہیں بھولتے لیکن اگر مفاد پرستی نے بصیرت چھین لی ہو تو پھر کہاں کی نیکی اورکہاں کا تعلق واسطہ۔۔۔ وعدے وہ کرے جس کے کھیسے میں کچھ کارکردگی بھی ہو۔ سول سپر میسی کی بات وہ کرے جس نے اس کے لئے کبھی سوچا بھی ہو، جس کی پہچان ہی اس کا دھڑن تختہ ہو وہ اس کا واویلا کیسے کر سکتا ہے۔دوسری طرف ذرا اپنی کارکردگی کا اعمال نامہ تو پیش کریں۔ عوام کے لئے تو گڈیا بیڈ گورننس سے بڑھ کر اصل چیز بنیادی ضروریاتِ زندگی ہوتی ہیں، مہنگائی کے طوفان میں اگر کوئی شخص اپنے بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا اہتمام نہیں کر پا رہا تو وہ کیا کرے آپ کے بلند بانگ دعوؤں کا؟ تقاریر سے پیٹ نہیں بھرتا جبکہ وہ جانتا ہے کہ ڈالر مہنگا ہونے سے روپے کی ویلیو ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ جن کو چور کہتے نہیں تھکتے وہ تو ڈالر ایک سو پانچ کا چھوڑ کر گئے تھے جن نے پرواز کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ تیرنا نہیں آتا تو گہرے پانی میں چھلانگ کیوں لگائی؟ چلیں وہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے لیکن ڈرائیونگ نہ آتے ہوئے، آپ نے کس خوشی میں موٹروے پر قومی گاڑی کا اسٹیرنگ تھام لیا؟ آج قومی معیشت کی بربادی تو عام آدمی بھگت رہا ہے احتساب کا کتنا واویلا تھا مگر ہوا کیا؟لندن کی عدالتوں کے فیصلوں سے بھی نہ سیکھا گیا۔داخلہ و خارجہ تمام پالیسیاں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں، ملک کے اندر ہی دشمنیاں اور منافرتیں نہیں بھڑکی ہیں۔ بیرون ملک بھی کوئی کسر نہیں چھوڑ ی جا رہی۔ جس کی بدترین قیمت اس بد قسمت قوم کو برسوں چکاناپڑے گی۔ اپوزیشن ملک گیر احتجاج کیلئے اس سے بڑھ کر سازگار ماحول کب پائے گی جبکہ اسے یہ بھی معلوم ہو کہ صفحہ پھٹنے کے بعد مہربان غیر جانبدار ہو چکے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین