میری نصف بہتر ٹی وی کو دیکھ کر مسلسل مسکرا رہی تھی، میں کچھ کچھ حیران سا تھا، کوئی خاص پروگرام بھی نہ تھا۔ ہمارے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی بیٹی مریم نواز میڈیا سے مخاطب تھی اور ہمارے سب ہی چینل اس کو بہت اہمیت دے رہے تھے۔ میں نے ہمت کرکے اپنی نصف بہتر سے پوچھ ہی لیا کہ تم مریم نواز پر مسکرا کیوں رہی تھی؟ پہلے تو اُس نے حسبِ سابق مجھے گھورا اور پھر غور سے دیکھا اور محسوس کیا کہ میں سنجیدہ ہوں تو فرمانے لگیں کہ مریم نواز ایک منجھی ہوئی سیاست دان بنتی نظر آ رہی ہے، میں نے کہا اِس میں مسکرانے والی کون سی بات ہے؟ اب کی بار وہ ہنسی اور بولی ہماری سیاست میں ایک عرصہ سے پیر ، فقیر اور مشیر نظر آ رہے تھے مگر اب تو ان سیاست دانوں کو یقین ہو گیا ہے کہ تعویز اور پھونکوں سے بھی اپنی مرضی اور خواہشات کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ جادو ٹونے سے ملک کی حالت بدلی جا سکتی ہے اور ان کا وزیراعظم عمران خان کو مخلصانہ مشورہ تھا کہ وہ اپنی نصف بہتر سے ملک کی خوشحالی اور ترقی کے لئے بھی کوئی عمل کروائیں۔
میں اپنی نصف بہتر کے بیانیے سے بہت متاثر ہوا، بات تو سچ تھی مگر ڈر ہے رسوائی کا کہ وہ بھی روحانی معاملات اور کشف پر یقین کرنے لگی تھی۔ میں اب مخمصے کا شکار تھا، میں نے اب کی بار پہلے اپنا گلا صاف کیا اور اس کی طرف دیکھا وہ کتاب پڑھنے میں مصروف تھی۔ کتاب کا نام تھا ’’بابو نگر‘‘ اور لکھنے والے ہمارے دوست اور مہربان جناب حسین احمد شیرازی، ہماری نصف بہتر بھی پاکستان سرکار کی ایک اعلیٰ افسر رہ چکی ہے اور ملازمت کے معاملات کو خوب جانتی ہے، میں نے اس کو ٹوکا، اس نے کتاب کو بند نہیں کیا اور سوالیہ انداز میں مجھے دیکھا، میں گھبرایا اور جلدی سے پوچھا ’’بابو نگر‘‘ کیسی ہے؟ وہ بولی تم نے پڑھی نہیں؟ میں نے جواب دیا کہ دو تین دفعہ پڑھ چکا ہوں، شکر ہے میری پسلیاں سلامت ہیں، وہ اب ہنسی، کمال کی کتاب ہے، پڑھتے جائو اور سوچتے جائو اور مجھے کتاب پوری پڑھنے دو پھر مل کر ’’بائو جی‘‘ کی باتیں کریں گے۔ بائو جی کون، میاں نواز؟ وہ بولی بائو جی کی نہیں ’’بابو صاحب‘‘ کی باتیں کریں گے۔
اب اس نے کتاب بند کی اور پوچھنے لگی یہ آج کل ہماری عسکری اور ملکی انتظامیہ میں کیا چل رہا ہے؟ میں نے پوچھا آپ کو کیا لگ رہا ہے، وہ اب سنجیدہ تھی کچھ معاملات غیر شفاف سے ہیں پھر بولی ہماری سیاست نے جمہوریت کو بےبس کر دیا ہے۔ مجھے تو شک ہے کہ امریکہ بہادر جسے تم اپنے کالموں میں مہربان دوست لکھتے ہو، وہ اب پوری طرح ہماری ریاست کے خلاف سازش کر رہا ہے۔ میں فوراً بولا کیا تم بھی سازشی نظریات پر یقین رکھتی ہو؟ وہ بولی مجھے نہیں معلوم مگر لگ ایسا رہا ہے۔ افغانستان میں امریکہ کا کردار اب اور بھی پُراسرار سا ہو گیا ہے۔ پاکستان نے طالبان سے بات کروانے میں اہم کردار ادا کیا اور یہ کردار ہماری فوج کا تھا، اِس میں کوئی سیاست دان شریک نہ تھا۔ میں نے کہا اُس کی وجہ ہمارا دفتر خارجہ بھی ہو سکتا ہے۔ نہیں بالکل نہیں، وہ بولی، ہماری عسکری انتظامیہ سفارتی معاملات کو بھی دیکھتی ہے پھر وزیراعظم عمران خان نے حالیہ دنوں میں امریکی میڈیا سے جو بات کی ہے، اس میں کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔ پھر آئی ایم ایف نے جس طرح اس سرکار میں اپنے نمائندے نامزد کرائے ہیں وہ بھی قابلِ تشویش ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک سرکار کے تابع نظر نہیں آتا، ڈالر کی اڑان غیرمتوقع نہیں مگر جب ذخیرہ زیادہ ہو تو قیمت بھی ساکن رہتی ہے۔ زرِمبادلہ کی فراوانی کے باوجود ڈالر کی قیمت کنٹرول نہیں ہو رہی اور قرضوں پر سود کا دبائو بڑھ رہا ہے۔ امریکی صدر پاکستان پر بات کرتا شرماتا ہے، ہمارے ایک سابق وزیر داخلہ نے بیان دیا ہے کہ اس دفعہ کے امریکی انتخابات میں سابق صدر ٹرمپ کی مدد پاکستانی سفارتخانے نے کی، یہ خطرناک بیان ہے، سب کچھ خراب ہوتا نظر آ رہا ہے۔میں نے اس سے پھر پوچھا کہ ’’بابو نگر‘‘ پر کب تک بات کریں گے، کہنے لگی بس ذرا ختم کر لینے دو، ’’بابو نگر‘‘ پر سب سے اچھا تبصرہ ڈاکٹر قدیر خان مرحوم نے کیا تھا، مجھے تو حسین احمد شیرازی بھی اندر کے آدمی لگتے ہیں، کیا مطلب ہے اندر کا آدمی، میں بولا دیکھو ڈاکٹر قدیر خان کو میڈیا اور تمہاری زبان جتنا فخرِ پاکستان کہتی ہے انہوں نے اُتنا ہی مرتے دم تک قیدوبند کی صعوبتیں جھیلیں، خیر اب تو امریکہ کی ایک فکر ختم ہو گئی تم بتائو تم تو ڈاکٹر قدیر سے ملتے بھی رہے ہو۔ ہاں کچھ ادھوری سی ملاقاتیں تھیں، وہ بہت سادہ منش بھی نہیں تھے، ایک دفعہ میں نے پوچھا تھا ایٹم بم ایک حقیقت ہے؟ تو ان کا جواب تھا حقیقت تو اس کی چلانے پر معلوم ہو سکتی ہے پھر امریکی آپ پر الزام کیوں لگاتے ہیں کہ آپ نے کمائی کی؟ وہ اُس روز ذرا دیر غصہ میں بھی آئے پھر بولے امریکی فوج کے کتنے جنرل کرپشن میں ملوث ہیں مگر ایسا کرنا قابلِ فکر نہیں، اس لئے کہ وہ سب کچھ نظام کے تابع اصولوں سے کرتے آئے ہیں۔
اب پڑھنے والے فیصلہ کریں کہ آج کی صورتحال میں جو کچھ گردوپیش میں ہو رہا ہے وہ پاکستان کے لئے کتنا مفید ہے، آئے روز کی بدلتی صورتحال میں عمران خان اگر تخت سے دستبردار بھی ہوتا ہے تو کون ہے جو اس تختے پر بیٹھنے کو تیار ہو گا ہاں کل کے دشمن آج اس کے ہمدرد ہوں گے اگر ان کو حصہ نہ ملا اور پھر جادو ٹونے کی حقیقت بھی کھل جائے گی کہ وہ عمران کے کام آتے ہیں یا پاکستان کے۔بظاہر تو روحانی طور پر عمران خان مقابلہ کرتا نظر آتا ہے مگر قسمت اس پر اکثر مہربان رہی ہے اب اس عمر میں قسمت کیا فیصلہ کرتی ہے، عوام امید کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں کہ اس خلفشار اور پریشانی کے بعد سکھ ضرور آئے گا یہ نہیں معلوم کب؟
رنج والم رہا نہ کسی کی خوشی رہی
کب زندگی میں کوئی گھڑی دائمی رہی