• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طورخم سرحد پاکستان اور افغانستان کے درمیان آمدورفت کا اہم ترین ذریعہ ہے کیوں کہ سرحد پر اب خاردار تاریں لگائی جا چکی ہیں اور وہ تمام راستے بند کیے جا چکے ہیں جو کبھی اسمگلنگ کے علاوہ دونوں ملکوں کے شہریوں کی غیرقانونی آمدورفت کے لئے استعمال ہوتے تھے، سرحد پر خاردار تاریں لگانے کا عمل آسان ثابت نہیں ہوا تھا کیوں کہ پاکستانی سیکورٹی فورسز پر سرحد کے اس پار سے متعدد بار مختلف شدت پسند گروہوں نے حملے کیے اور یہ اہم منصوبہ بہت زیادہ قربانیوں کے بعد 2018 میں مکمل ہوا جس میں 233 سرحدی چوکیاں بھی بنائی گئی ہیں۔ منصوبے کی تکمیل کے بعد بھی سیکورٹی فورسز پر حملے جاری رہے تاہم اسمگلنگ اور غیرقانونی نقل و حمل بڑی حد تک رُک گئی ہے جس کے بعد طورخم سرحد کے ذریعے دونوں ملکوں کے شہری باقاعدہ قانونی دستاویزات کے ساتھ ہی پاکستان سے افغانستان اور افغانستان سے پاکستان آتے جاتے ہیں۔ طورخم سرحد 15 اگست کو فتح کابل کے بعد ستمبر میں اس وقت مکمل طور پر بند کر دی گئی جب سرحد پرقائم نادرا مرکز پر پاکستانی شہریوں کی آن لائن تصدیق کا عمل اچانک تعطل کا شکار ہو گیا۔ طالبان نے اسی ماہ پیدل مسافروں کے لئے طورخم سرحد بند کر دی جبکہ پاکستان کی جانب سے یہ مئی میں کورونا کی وبا کے پھیلائو کے پیش نظر پہلے سے ہی بند تھی جو اگلے روز پاکستان نے پانچ ماہ کی بندش کے بعد کھول دی ہے جس کے بعد 240 افغان شہری آن لائن ویزے کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان اور 108 پاکستانی اسی سہولت سے مستفید ہوتے ہوئےواپس پاکستان آئے۔ سرحدی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان میں داخل ہونے والے افغان شہریوں کو وفاقی حکومت کی ہدایت پر آن لائن ویزا جاری کیا گیا۔ امید ہے کہ طورخم سرحد کے کھلنے سے دونوں ملکوں کے درمیان آمدورفت بحال ہوگی تاہم سرحد کو محفوظ بنانا دونوں ملکوں کی ذمہ داری ہے تاکہ کوئی ملک بھی ایک دوسرے پر دراندازی کا الزام نہ لگائے۔

تازہ ترین