• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے ساتھ ایک عجیب مسئلہ ہے جب گلے میں خراش سی ہوتی ہے بلکہ قدرے زیادہ خراش اور اس کے ساتھ کھانسی بھی آتی ہےتو مجھے چھینکیں آنا شروع ہو جاتی ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک دو نہیں پوری سولہ چھینکیں ! دوست احباب کو میری اس چھینک سیریز کا پتہ چل چکا ہے چنانچہ پہلی چھینک کے آنے کے بعد وہ بآواز بلند گنتی شروع کر دیتے ہیں ایک دو تین چار پانچ اور جب سولہ کے ہندسے پر پہنچتے ہیں تو خاموش ہو جاتے ہیں کہ جانتے ہیں میری اوقات اس سے زیادہ نہیں ہے، خود چھینکوں کو ہی اس کا علم ہوتا ہے، میں ان کے علم کا غرور توڑنے کے لئے مزید چھینکنے کی کوشش کرتا ہوں مگر مجال ہے کوئی نیم مردہ سی چھینک ہی آ جائے مگر یہ تو ان دنوں کی بات ہے جب ابھی کورونا کا ظہور نہیں ہوا تھا اس کے بعد تو ایک چھینک کے ساتھ ہی دوستوں کی محفل خالی ہو جاتی تھی ’’تو کون اور میں کون‘‘ سب کو یقین ہو جاتا تھا کہ یہ چھینک کوئی عام چھینک نہیں بلکہ بہت عالی مرتبت قسم کی چیز ہے جو بڑے بڑوں کو بالآخر ’’لم لیٹ‘‘ کر دیتی ہے ۔ان دنوں یہی صورتحال کھانسی کے حوالےسے تھی ذرا سا کھوں کھاں کیا بس اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہتی تھی آپ یقین کریں میں نے تو ان دنوں بڑے بڑے پھنے خانوں کو چشم زدن میں سرنڈر کرنے پر مجبور کر دیا کسی بات پر اختلاف اگر زور پکڑتا اور مخاطب بدتمیزی پر اترتا تو میں صرف ایک کھنگورا مارتا اور اس کے بعد پتہ نہ چلتا کہ مخاطب کو زمین کھا گئی یا آسمان ! وہ جائے واردات سے اس طرح غائب ہوتا جیسے گدھے کے سر سے سینگ، افسوس اب وہ دن ہی نہیں رہے میرے سمیت سب دوست ویکسی نیٹڈ ہو چکے ہیں اب میں ان کے سامنے لاکھ چھینکوں یا کھنگورے ماروں ان کے رعب میں ہی نہیں آتے۔میر تقی میر نے کہا تھا :

چھینکنا کھانسنا کہونہ گیا

مگر اس زمانے میں کورونا نہیں ہوتا اگر ہوتا تو میں دیکھتا کہ میر کیسے چھینکتے ہیں، کیسے کھانستے ہیں !

ویسے ایک چیز ڈکار بھی تو ہے بہت پہلے کی بات ہے میرے ہمسائے میں ایک صاحب ڈکار مارنے میں صاحبِ اسلوب ہوتے تھے ان کے ڈکار کو اہل محلہ ڈکار ڈکارنا کا نام دیتے تھے وہ جب ڈکارتے تو ساتویں آسمان تک اس کی گھن گرج سنائی دیتی اگر اس دور میں بھی کورونا ہوتا تو میں دیکھتا یہ اپنے ڈکار کو اپنے حلق سے کیسے باہر آنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ان صاحب کا ڈکار صرف بلند آہنگ نہیں کثیرالاستعمال بھی تھا جب کسی بحث کے دوران یہ صاحب لاجواب ہوتے تو ان کے صرف ایک ڈکار سے مخاطب میدان خالی کرنے پر مجبور ہو جاتا، نافرمان بچوں کو نافرمانی سے باز رکھنے کے لئے انہیں ’’بوو‘‘ یعنی بھوت سے نہیں ڈرایا جاتا تھا بلکہ اس بزرگ سے فرمائش کی جاتی کہ وہ پلیز ایک ڈکار مار دیں بزرگ تو اس فرمائش کے لئے ترسے ہوتے تھے چنانچہ وہ تعمیل کرتے اور اس کے بعد شرارتی بچے موقع واردات سے تتر بتر ہو جاتے ۔ مولانا رمضان کے مہینے میں سحری کے وقت ڈکار مارتے تو اہل محلہ سمجھ جاتے کہ سحری کھانے کا وقت ہو گیا ہے، شام کو افطار بھی ان کا ڈکار سن کر کی جاتی۔ان کے گھر میں کبھی کوئی ڈاکو کوئی چور داخل نہیں ہوا بس ایک دفعہ ایک ڈاکو ان کے گھر میں داخل ہوا تھا جسے دیکھتے ہی ان حضرت نے ڈکار مارا بلکہ اس روز یہ ڈکار، ڈکار نہیں بلکہ لگا کہ توپ سے فائر کیا گیا ہے چنانچہ ڈاکو اپنا اسلحہ وہیں چھوڑ کر فرار ہو گیا اور اس نے وہیں جاکر اپنے ساتھیوں سے کہہ دیا کہ ’’طوطیا من موطیا توں اوس گلی نہ جا ‘‘ چنانچہ اس کے بعد موصوف کے گھر تو کیا کسی ڈاکو نے پورے محلے میں داخل ہونے کی کوشش نہیں کی !

چھینکنے اور کھانسنے کے بعد اگر ڈکار کا ذکر چل ہی پڑا ہے تو چلیں اب یہی سہی، صاحبِ ڈکار کافی کھاتے پیتے انسان تھے چنانچہ ہر وقت کھاتے پیتے ہی ر ہتے تھے ان کا ڈکارنا تو سمجھ میں آتا تھا اگر کھل کر ڈکار نہ مارتے بات بات پر نہ ڈکارتے تو معاشرے میں ان کی خاک عزت ہونا تھی انسان کو دوست کے معیار سے ماپنے والے توا نہیں بھوکا ننگا ہی تصور کرتے اور ان سے وہی سلوک کرتے جیسے بھوکے ننگے لوگوں سے کیا جاتا ہے اور ہاں یاد آیا ان کی سب دوستیاں وزیروں، مشیروں اور ایلیٹ کلاس کے لوگوں کے ساتھ تھیں عمومی طور پر محفل میں ڈکار مارنے کو انتہائی بدتمیزی تصور کیا جاتا ہے چنانچہ ایسے لوگ ڈکارنے پر فوری طور پر معذرت کرتے ہیں مگر انسان اگر تگڑی اسامی ہو تو اس کے ڈکار کو خوشبودار سمجھا جاتا ہے اس کی خوشبو کو بڑی مہنگی پرفیومز سے تشبیہ دی جاتی ہے چنانچہ بہت بڑے لوگ جب ان کے ساتھ کھانے میں شریک ہوتے تو ان سے ڈکار مارنے کی فرمائش کرتے کہ جناب آپ کا دستر خوان آپ کے ڈکار کے بغیر سونا سونا سا لگتا ہے چنانچہ جب وہ ان کی فرمائش پوری کرتے تو اکثر لوگ واش روم کا بہانہ بنا کر کمرے سے باہر جاتے اور اپنی ابکائی روکنے کی کوشش کرتے۔

تاہم اس حوالے سے ایک افسوسناک بات یہ ہے کہ ڈکار مارنا کھاتے پیتے لوگوں ہی کو سجتا ہے مگر آج کل تو ہمارے درمیان بہت بڑی اکثریت نہار منہ ڈکارنے والوں کی ہے دو تین دن سے کچھ نہیں کھایا ہوتا مگر محفل میں ڈکار مار کر اپنی غربت کے تاثر کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ البتہ ان دنوں ایک تبدیلی آئی ہے اور وہ یہ کہ بھوکے ننگے لوگ مہنگائی اور فاقوں سے تنگ آکر سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور احتجاج کے طور پر ڈکار مار رہے ہیں اور اس زور شور سے اس کی آواز اسلام آباد کے ایوانوں تک پہنچ گئی ہے اور یوںافلاک سے نالوں کا جواب اب آیا ہی چاہتا ہے!

تازہ ترین