• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ڈی ایم کو عوام سے پیار ہو گیا

مہنگائی عوام کیلئے عذاب اور پی ڈی ایم کیلئے کارِ ثواب، اچھا ہوا کہ مہنگائی کا شور سڑکوں پر اور اس کا جن بوتل سے باہر، نرخوں کی اڑان مسلسل بند، ادھر حکومت کے مشیر وزیر ریلیف کا طوفان برپا کر رہے ہیں، مگر تکلیف جس کا نشانہ صرف غریب آدمی ہے، حکومت عملاً ناکام اور اس کے دعوے جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں، اپوزیشن اپنا کام جاری رکھے کیونکہ اسی طرح عوام کا کام ہو گا، ملک کا سیاسی، معاشی موسم ایک ہو چکا ہے اب ضرور کوئی کٹا، کٹی جنم لے گی۔ ہماری نظر میں حکومتی رٹ کاغذی ہے، گرفت ڈھیلی کجا سرے سے موجود ہی نہیں، ایک فلمی ڈائیلاگ یاد آ رہا ہے کہ ہیرو ہیروئن سر جوڑ کر کہہ رہے ہیں قصور کچھ تیرا تھا کچھ میرا اور کچھ ہم دونوں کا، اور یہ بھی نہ جانے کیوں سجھائی دیتا ہے کہ وزیراعظم نے سعودی شہزادے کو پھر کہہ دیا ہے میری دعوت کرو، اور وہ جا رہے ہیں شاید دانہ دنکا لے آئیں ،آئی ایم ایف شاید مصر جیسا حال کرنے کیلئے پاکستان میں اپنا بیڑا اتار چکا ہے یوں بھی لگتا ہے کہ عوام کو حکومت پیس رہی ہے اور اپوزیشن استعمال میں لا رہی ہے، شاید یہ کالعدم تنظیم ہی کچھ کر دکھائے ، کیونکہ اس نے اسلام آباد کا رخ کرنے کا اعلان کر دیا ہے ، ریلیف کیلئے جو اجلاس ہوا تھا اس کے بعد گرانی اور بڑھ گئی ، کنٹرول نام کی چیز نظر نہیں آتی ،ملک میں سب کچھ موجود ہے حکومت کو نکلوانے کا ڈھب نہیں آتا، حکومت کے پاس خلوص ہے اور ارزائی نہیں کام چل نہیں رہا شاید ایک نمبر عوام تاحال سڑکوں پر نہیں نکلے، ورنہ اب تک پٹاری کا سانپ باہر آ چکا ہوتا، مہنگائی ناگن کو سپیرا نچا رہا ہے ۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

آبادی اور بربادی

ہماری بربادیوں میں ایک تگڑا ہاتھ کثرتِ آبادی کا بھی ہے، حالانکہ ابتدا سے اسے کنٹرول کرنے کا محکمہ موجود ہے، 22کروڑ افراد اگر امریکہ میں بھی ہوتے تو وہ آئی ایم ایف کے در پر پڑا ہوتا، کثرتِ آبادی روکنے کے ہزار جائز طریقے ہیں مگر ہم تو محکمے بناتے ہیں بندے کھپانے کیلئے، اب تو ملاوٹ سے پاک بیوروکریسی بھی دستیاب نہیں ایک غیر حکومت کہاں سے لائیں، آج تمام خوشحالی معاشروں کی آبادی کم ہے ہمارے حکمرانوں کو 22کروڑ افراد سے ’’کام‘‘ لینا تو آتا ہے کام دینا نہیں آتا ورنہ ہمارے ہاں بھی چین کی طرح خوشحالی ہوتی، جس خلوص کےساتھ ’’سونامی‘‘ آیا تھا اتنے ہی خلوص سے چاروں شانے چت ہے، شادی تو سنادو ہے،در حقیقت آبادی بڑھانے کا سامان کیا جاتا ہے خواتین سے امتیازی سلوک کی ابتدا یہیں سے ہوتی ہے، غریب آدمی کے پاس خوشی کا اور تو کوئی راستہ نہیں ہوتا اس لئے وہ بچے پیدا کرنے پر ہی توجہ مرکوز رکھتا ہے دو بچے پیدا کرنے کی حد مقرر کر دی جائے تیسرے پر ٹیکس لگا دیا جائے، شاید یہ ہجوم کم ہو، ٹریفک کا حال دیکھ لیں گاڑی سے گاڑی جڑی ہوئی ہے آبادی کو اپنے وسائل سے ہم آہنگ رکھنا ضروری ہے ورنہ اتنی بڑی تعداد کو اناج تو کجا پانی بھی فراہم کرنا دشوار۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

قحطِ قیادت

زن، زر، زمین کمانے کی صلاحیت عام اور قائدانہ صلاحیت کا فقدان،یہ ہے وہ بیماری جس نے ہمارے لئے سیاست میں سارے آپشنز تمام کر دیئے ہیں موجودہ حکومت کی مخلصانہ نااہلیوں کوگھر بھیج کر ہم کیا کوئی نعم البدل لا سکیں گے؟جس ملک میں موروثیت کا وائرس پل رہا ہو وہاں چند امیر کبیر گھرانوں ہی کے گرد اسمبلیاں گھومتی نظر آ ئیں گی ، صدق دل سے بتائیےکیا قائد اعظم کے بعد کوئی کھری قیادت منظر پر نظر آئی، چند خاندانوں کا سیاست پر موروثی قبضہ ہے، وہ بھی خوش ، ان کے حواری بھی خوشحال ہو گئے کہ ان کو لانے والے عوام تو وہ جن کوکاندھوں پر لادتے ہیں انہیں اتار نہیں سکتے، صوبائیت، قومیت پرستی، ذات پات برادری ازم، لسانی تعصب یہ ہیں وہ جرثومے جو ہمیں کچھ اور جرثوموں کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔ہمارے ہاں باصلاحیت فلاحی قیادت کا قحط کیوں پون صدی سے جاری ہے، تو اس کے ذمہ دار معذرت کے ساتھ ہمارے جملہ اقسام کے تعلیمی ادارے ہیں جو ماہرین پیدا کرتے ہیں، قائدین پیدا نہیں کرتے، کردار سازی کے یہ کارخانے بادی النظر میں ٹھپ پڑے ہیں ہر معلم اور ہر طالب علم کے ذہن میں دوسروں کو زیر کرنے اور دولت و غلبہ حاصل کرنے کا زہر اتارا جاتا ہے، مردم سازی کہیں بھی نہیں ہو رہی، ہم خود کو پاکستانی کہتے ہوئے بھی اپنی شناخت پاکستانیت سے عبارت نہیں سمجھتے ورنہ ہم بھی امریکیوں کی طرح خود کو صرف امریکی کہتے والدین بھی اولاد کو حرص و لالچ کی طرف لے جاتے ہیں اقبال نے کہا توتھا مگر سنتا کون ہے؎

یوں توسیدبھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو

مگر یہ تو بتائو کہ مسلمان بھی ہو

٭٭ ٭ ٭ ٭

سو گلاں دی اکو ای گل

٭پی ڈی ایم کیلئے مہنگائی اور عوام کی بدحالی نے سنہری موقع پیدا کر دیا ہے مگر وہ پھر بھی مکمل نہیں کہ ایک بڑی پارٹی اس میں شامل نہیں ، اگر بغور دیکھیں تو اس میں مولانا ہی مدار المہام دکھائی دیتے ہیں اور وہ بھی سونامی ہیں کہ چلتی ہے درخت گرا کر تھم جاتی ہے، اور ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ کیا اس حکومت گرائو تحریک میں وہ غریب آدمی بھی شامل ہے جو براہ راست مہنگائی سے متاثر ہو رہا ہے، نہ جانے ہماری ہر بات جامع ہوتی ہے مگر عمل سے خالی۔

٭٭٭٭٭

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین