• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات ہے زرداری دور کی، جب یہی ڈالر بےاعتنائی و بےوفائی کی حد تک بدتمیز و بدلحاظ ہو چکا تھا، پٹرول اپنے نزدیک نہیں آنے دیتا تھا، کوکنگ آئل آسمان سے باتیں کرتا اور غریب کا منہ چڑاتا۔ بجلی کی آنکھ مچولی پاکستان کا قومی کھیل تھا اور مہنگائی نے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ اس اقتدار کے حصول سے قبل یعنی 1999سے مسلسل جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں مسخ شدہ نون لیگ جس کیلئے پیپلزپارٹی نے عمل انگیز کا کام سر انجام دیا اور دیوار سے لگی اس کی سیاست کو پنجاب کے کوچہ و بازار میں لاکھڑا کیا۔ پہلے میثاقِ جمہوریت کے جمال سے اور بعد ازاں میاں نواز شریف کا الیکشن 2008کے بائیکاٹ کا ارادہ ختم کرانے کے کمال سے مگر جب پیپلز پارٹی کو مرکز و سندھ و بلوچستان میں عنانِ اقتدار مل گئی اور پنجاب کی پگ میاں شہباز شریف کے سر سج گئی تو مشکل معاشی ایام میں نون لیگ نے سب کچھ فراموش کرتے ہوئے اور وعدے و معاہدے بالائے طاق رکھتے ہوئے زرداری صاحب سے علیحدگی اختیار کرلی، پیپلزپارٹی کے 7وزراء کو پنجاب میں مسلسل بےعزت کرنے کے بعد مکھن سے بال کی طرح مخلوط حکومت سے نکال پھینکا کیونکہ اس سے قبل نون لیگ یونی فکیشن گروپ اور قاف لیگ کی توڑ پھوڑ سے اپنے اقتدار کے لئے نمبر گیم پوری کر چکی تھی اور تاریخ نے ثابت کر دکھایا کہ جب برا وقت ہو تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے کیا نون لیگ اور کیا اقتدار پسند الیکٹ ایبل۔

2008کے بعد وہ مہنگائی جو عالمی منڈی میں دھندناتی پھرتی تھی اس کا اژدھا پاکستان میں جمہوری فکر اور معاشی حکمتِ عملی کو بھی نگل گیا۔ شہباز شریف مخلوط حکومت کا وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود زرداری صاحب کو گھسیٹنے کا شور و غل کرتے اور زرداری صاحب کے خلاف مینار پاکستان پر دستی پنکھا پکڑ کر دھرنا بھی دیا گویا مفاہمت کی سیاست کا نون لیگ شبانہ روز جنازہ نکالتی۔ اصل میں یہ پیپلزپارٹی کے زوال کا آغاز اور نون لیگ کے عروج کا ٹرانزیشن پیریڈ چل رہا تھا، پھر پیپلز پارٹی مسلسل زوال پذیر اور نون لیگ عروج آشنا ہوتی چلی گئی۔

جیسے ’’روٹی بندہ کھا جاندی اے‘‘ ایسے ہی مہنگائی سیاست کھا جاتی ہے، پھر لوگ اگر مگر کی دلیل اور زیر و زبر کی تحقیق کو نہیں دیکھتے، لوگ 18ویں ترمیم کی اہمیت، صوبہ سرحد کو خیبر پختونخوا کا نام دینے، این ایف سی ایوارڈ کی تاریخی تقسیم، دہشت گردی کنٹرول نہ کر پانے کی پاداش میں اپنی ہی حکومت کو ختم کرکے بلوچستان میں گورنر راج لگانے، ایران سے سوئی گیس معاہدہ تک پہنچنے، چین کے کامیاب دوروں کی سیریز کی بنیاد پر سی پیک کی خشتِ اول رکھنے، سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں تاریخی اضافہ کرنے، بےنظیر انکم سپورٹ جیسے بین الاقوامی تسلیم کردہ پروگراموں، عالمی منڈی کی مہنگائی کے باوجود بجلی اور تیل کو حددرجہ کنٹرول میں رکھنے اور نوکریوں پر بحال کرنے یا مستقل کئے جانے والے ملازموں تک کے سب کام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں!اب کیا ہوگا؟ تحریک انصاف کی حکومت لاکھ الزامات لگائے کہ یہ سب 70برسوں کا معاملہ ہے، وہ ستر سال سے زائد عرصہ جس میں آمر بھی رہے اور ان کی موجودہ حکومت کے متعدد وزرا بھی، ماضی میں تو ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے نام پر جمہوریت سبوتاژ ہوئی اور انجینئرڈ حکومتوں کی بنیادیں بھی رکھی جاتی رہیں اور معاملہ آج بھی ڈیجیٹلی انجینئرڈ حکومت کا ہے۔ مگر نگاہیں اس پر کہ مقتدر کی جانب سے اب ’’ریلیف‘‘ کیا ہوگا؟ لاڈلا لاڈلا کھیلنا کب تک چلے گا؟ کب تک ع غ اور ہندسوں پر مشتمل علمِ جفر یا عِلم الاعداد کا موسم چلے گا؟

اندر کا موسم بھوک اور ننگ کے سبب خراب ہو تو باہر بہار کا موسم بھی جان لیوا ہی لگتا ہے گر اندر کا موسم اچھا ہو تو چاروں موسم پیار کے اور گلزار کے لگتے ہیں لیکن چاروں موسم پیار کے ہوں بھی تو عوامی فلاح اور فلاح کیلئے پانچواں موسم جمہوریت کا بہت ضروری ہے ورنہ خوشیاں افراد یا وزراء تک شادیانے بجاتی رہیں گی عوام کے ہاں نوحہ گَری ہی چلے گی! اب کے موسم کو دیکھ کر آہ کے سنگ یہی آواز آتی ہے نون لیگ مکافاتِ عمل کی بھینٹ چڑھ گئی تھی ورنہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ اسے عالمی منڈی میں تیل اور ڈالر تاریخی سستا مل گیا تھا، انہوں نے لوڈ شیڈنگ پر کنٹرول پا لیا تھا، ترقیاتی منصوبے بھی خوب مکمل کئے مگر جیسے زرداری حکومت کی مشکلات میں اعلیٰ ظرفی کو قوتوں کی نظر کھا گئی کہ مہنگائی سیاست کھا جاتی ہے ایسے ہی نون لیگ کو ان کی خوش بختیاں و خوش فہمیاں، آسانیاں اور سابق مہربانوں کی ’’مہربانیاں‘‘ کھا گئیں۔ زرداری اور شرفا کی سیاست بالترتیب سندھ اور پنجاب تک محدود ہوگئی، پنجاب میں 2018میں حکومت تو نون لیگ ہی کی بن جاتی مگر ’’فرق‘‘ جہانگیر ترین کا تھا، ترین نون لیگ کو میسر ہوتا تو نون لیگ کا آج بہترین ہوتا۔ جہانگیر ترین نے اس بات کا کھلم کھلا اظہار پچھلے دنوں کر بھی دیا تھا۔

سوال اب یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریکِ انصاف ، نون لیگ اور پیپلزپارٹی کی سوچوں اور اطوار میں جمہوری رویوں کا عمل دخل کہاں تک ہے اور کیسا ہے؟ وقت نے کیا بدلا؟ یہ جو فرشتوں والی باتیں کرتے تھے وہ حکومت میں آکر کچھ ایسے ایکسپوز ہوئے کہ حیلے بہانوں کے باوجود ان کے معیار اور سیاسی دستار پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی نسبت بہت نیچے ثابت ہوئی۔ جو کہا وہ کر نہ پائے، جو امید دی وہ بوگس افسانے ثابت ہوئے کہ ہوم وَرک کہیں نہ تھا، اسمبلی میں اسد عمر فرمایا کرتے تھے کہ تیل مزید سستا اور بجلی مزید سستی ہوسکتی ہے اگر ’’یہ یہ‘‘ فارمولے لگائیں مگر وہ فارمولے اور کلیےاقتدار میں آکر یوں غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ ہاں، وہ مہنگائی ہوتی ہے مصنوعی ہو یا غیرمصنوعی۔ ڈالر کو نیچے رکھنا دانشمندی ہے، چاہے ماضی والے رکھیں اور آپ اسے مصنوعی کہیں۔ اے اہلِ حکومت! ماضی کی مصنوعات کو مصنوعی ثابت کرنے میں وقت ضائع کرنے پر اب آپ حقیقت اور خوابوں میں مصنوعی دکھائی دینے لگے ہیں۔نون لیگ نے پہلی دفعہ ووٹ کو عزت دو کی بات کی ہے تو عزم کو عزت دو کی بھی بات ضروری ہے۔ باقی وہ جو بند گلی میں پہنچ چکے انہیں بھی اب تحقیق، تصدیق اور تسلیم کی خُو اپنا لینی چاہئے!

تازہ ترین