پرندہ خشک جھیلوں سے یہی اب کہہ گیا آخر
مجھے مجبور ہجرت پر میرے حالات کرتے ہیں
کوئی بھی شخص اپنا گھر بار خوشی خوشی نہیں چھوڑتا۔ بے رحم حالات مگرکبھی ایسا کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ملک کی تقسیم، خانہ جنگی، قحط اورغیر ملکی فوجوں کا قبضہ جیسے حالات لوگوں کی بڑے پیمانے پر ہجرت کا باعث ہیں۔ میرے والدین بھی 1947 میں اس ناخوشگوار تجربے سے گزرے۔ ساری زندگی پاکستان میں گزارنے کے باوجود وہ اپنے بچپن کے محلے اور دوستوں کو بھلا نہ سکے۔ ہجرت کا تکلیف دہ سفر اور اس سے منسلک ہولناک یادیں ایک بھیانک خواب کی طرح ان کا پیچھا کرتی رہیں۔ آہستہ آہستہ یہ یادیں اس وقت دھندلکوں میں گم ہوئیں جب ہم یعنی مہاجرین کے بچے ترقی کی راہ پر گامزن ہوئے۔
برطانوی حکومت کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لئے برصغیر میں آباد مقامی باسیوں نے مل کر تحریک آزادی کا آغاز کیا اور برطانوی راج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ نتیجتاً ہند کی تقسیم کا مرحلہ آیا۔بجائے انگریز کونقصان پہنچانے کے وہ آپس میں لڑ پڑے۔ یوں برطانو ی حکمران آرام سے ہمارے درمیان فساد کی جنگ کا طبل بجا کر اپنے ملک واپس چلے گئے۔ تقسیمِ ہند کے نتیجے میں لاکھوں افراد نے اپنے سجے سجائے گھر چھوڑے اور ایک انجانی منزل کی طرف روانہ ہوئے لیکن اس دوران جو خون کی ہولی کھیلی گئی وہ ناقابلِ فراموش اور ناقابلِ معافی ہے۔ یہ افسوسناک واقعات سرحد کی دونوں جانب ہوئے اورانسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے۔ 1947کی ہجرت اور اس سے منسلک خونچکاں داستانوں پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں اور کچھ فلمیں بھی بنیں۔ لیکن اگر ہم دریا کو کوزے میں بند کرنا چاہیں تو سعادت حسن منٹو کے دو افسانے ’’کھول دو‘‘ اور ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ رونگٹے کھڑے کر دینے کے لئے کافی ہیں۔
ہمارے خطے میں تقسیم ہند کے بعد 1971 میں سقوط ڈھاکہ اور 1978 میں افغانستان پر روسی یلغار کے بعد لاکھوں لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے چونکہ اس قسم کی ہجرت میں پہلے سے کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی شامل نہیں ہوتی اس لئے بے پناہ سماجی اور معاشی مسائل پیدا ہوئے۔ جو لوگ کل تک لکھ پتی تھے پلک جھپکتے کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے، گھر بار اجڑ گئے اور وہ سڑکوں پر آگئے۔ ان حالات میں جرائم پیشہ افراد کو اپنا ہنر دکھانے کا بھرپور موقع ملتا ہے۔یہ لوگ اچھے بھلے شریف آدمی کو جرم کی راہ پر لگا دیتے ہیں اور شریف گھرانوں کے افراد ان کے سبز باغ دکھانے پر بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ ظالم معصوم بچوں کو بھی نہیں چھوڑتے اور انہیں بردہ فروشوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔
اس وقت افغانستان سے غیر ملکی افواج اپنا بوریا بستر باندھ کر اپنے اپنے ملکوں کو جا چکی ہیں لیکن افغانستان میں مستقبل قریب میں امن قائم ہوتا دکھائی نہیں دیتا اور ہمیں ایک بار پھر مہاجرین کی آمد کا خدشہ ہے جس سے ہم شدید متاثر ہو سکتے ہیں۔ ہمار ا ملک پہلے ہی 1.44 ملین رجسٹرڈ مہاجرین کی دیکھ بھال کر رہا ہے اور ان میں سے صرف 31 فیصد کیمپوں میں رہ رہے ہیں غیر رجسٹرڈ افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ افغان مہاجرین کی نقل وحرکت پر کڑی نگاہ رکھی جائے۔
کورونا کی وبا نے وسیع تعداد میں لوگوں کو سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے وطن واپس آنے پر بھی مجبور کر دیا ہے کیونکہ ہمارے دیہی علاقوں میں روزگار کے مواقع ناکافی ہیں اور اس کے علاوہ بنیادی ضروریات مثلاً اچھے اسپتالوں اور اچھے اسکولوں کی بھی کمی ہے، اس لئے اندرونِ ملک سے بھی ہنرمند اور غیر ہنر مند افراد جوق در جوق شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ یہ بے ہنگم ہجرت بھی شہروں کی آبادی اور مسائل میں اضافے کا باعث ہے۔نتیجتاً شہروں میں کچی آبادیوں میں ہوش ربا اضافہ، گداگری میں فروغ اور جرائم میں تیزی دیکھنے کو ملی ہے۔ ایک سیدھا سادہ دیہاتی جو سہانے مستقبل کے خواب دیکھتا ہوا شہر آتا ہے وہ بھی بے رحم مجرموں کے ہتھے چڑھ کے ایک پیشہ ور مجرم کا روپ دھار لیتا ہے۔
حکومت اور ریاستی اداروں پر لازم ہے کہ وہ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری منصوبہ بندی کریں۔ کوئی شخص چاہےسرحد پار سے آئے یا اندرون ملک سے، اس کی رجسٹریشن اور اس کی نقل وحمل کا شفاف نظام بنایا جائے۔یقیناً ایسا کرتے وقت اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ کسی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔ چھوٹے شہروں میں اگر اسکول، کالج، اچھے ہسپتال اور روزگار کے بہتر مواقع فراہم ہو جائیں تو لوگوں کے شہروں کی طرف بڑھتے قدموں کو روکا جا سکتا ہے۔ رئیل اسٹیٹ سے وابستہ کاروبار کو بھی ایک نظم و ضبط میں لانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر کرایہ دار اور مکانات کی خرید و فروخت کرنے والے کا صحیح ریکارڈ رکھا جا سکے۔محلے کی سطح پر چوکیداری نظام اور علاقے کے معززین اور کونسلر حضرات وغیرہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں Hotel Eye پروجیکٹ کا تجربہ نہایت کامیاب رہا اور اس کے ذریعے بڑی تعداد میں مطلوب افراد حکومتی گرفت میں آئے۔ سرحدوں پر کڑی چیکنگ کے ساتھ ساتھ ان کالی بھیڑوں کے خلاف قدم اٹھانے کی ضرورت ہے جو غیر قانونی تارکین وطن کو جعلی شناختی کارڈ وغیرہ بناکر دیتے ہیں۔ مہاجرین کو اگرمنظم طریقہ کار اور منصوبہ بندی سے آباد کیا جائے تو یہ لوگ ملک کی معیشت پر بوجھ بننے کی بجائے ملک کی ترقی میں خاطر خواہ حصہ ڈال سکتے ہیں۔ہمیں شاید دیر ہو گئی ہے لیکن یہ کام آج سے بھی شروع کیا جا سکتا ہے۔