واجدہ تبسم
ممتازافسانہ نگار واجدہ تبسم 16مارچ 1935کو امراوتی (مہارشٹرا) میں پیداہوئیں ۔7دسمبر 2010کو ممبئی میں وفات پائی۔ ان کے زیادہ تر افسانوں میں مشرقی سماج میں عورت کے، نفسیاتی اور سماجی مسائل اُجاگر کیے گئے۔ انہوں نے ادب اطفال کے تحت بھی بےشمار کہانیاں لکھیں ۔1979 میں بچوں کی کہانیوں کی ایک کتاب "بند دروازے" شائع کی۔ جس میں بچوں کے لیے 25 کہانیاں شامل ہیں۔ ذیل میں بند دروازے سے اُن کی ایک کہانی ’’پکی دوستی‘‘ کا انتخاب آپ کے لیے کیا ہے۔
میری اور نیلو کی دوستی سب کے لئے قابل حیرت تھی۔ بات تھی بھی حیرت کی۔ وہ لمبی سی چمکتی ہوئی کار میں اسکول آتی تھی، اس کے جوتےاور فراک کیا، اس کی تو ہر چیز ایسی چم چماتی ہوئی ہوتی جیسے وہ کوئی شہزادی ہو اور میں ایک غریب لڑکی، جس کے پاس لے دے کے ایک ہی فراک تھی۔ یہ دوستی کیسے ہوئی، اس کا علم نہ مجھے تھا، نہ کسی اور کو، نہ خود نیلو کو۔ بس پہلی بار ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، وہ مسکرائی تو میں بھی ہنس دی۔
ننھی منی معصوم کلیوں کی سی پاکیزہ ہنسی نے جیسے ہم دنوں کو پیار کے دھاگے میں باندھ دیا۔ نہ میں نے کبھی اس کی کسی اچھی چیز کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا، نہ کبھی یہ ظاہر کیا کہ میں نے دوستی کا ہاتھ اس کی دولت سے مرعوب ہو کر بڑھایا تھا۔ نہ کبھی نیلو ہی نے اپنی امارت کا رعب مجھ پر ڈالا۔ ہم دونوں ایک ہی سطح پر رکھ کر سوچتی تھیں بس ہم دونوں سہیلیاں ہیں نیلو کی دوستی نے کبھی مجھے احساس کمتری میں مبتلا نہیں کیا۔
ہماری دوستی اتنی بڑھی کہ سب ہمیں ایک دوسرے کا سایہ کہنے لگے۔ ہمیں لڑانے کی بہت کوشش کی گئی، لیکن ہماری محبت اتنی گہری تھی کہ ہم کبھی لڑنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ دوستی ہوئے کوئی سال بھر ہوا تھا کہ نیلو کی سالگرہ کا دن آ پہنچا۔ اس سالگرہ کی تفصیل میں کیا بیان کروں؟ میری ننھی سی عمر کا وہ پہلا ایسا ہنگامہ تھا ،جسے میں نے خوابوں اور پریوں کے دیس کا سا کوئی واقعہ سمجھا۔ یہاں سے وہاں تک رنگین بلب، پس منظر میں ہلکی ہلکی موسیقی۔ بہت سارے خوبصورت بچے، بچیاں، بے حد حسین چمکدار بھڑکیلے کپڑے پہنے ہوئے۔
ایک طرف بینڈ بج رہا تھا۔ میں وہاں کیسے پہنچ گئی تھی۔ ظاہر ہے میری سہیلی کی سالگرہ جو تھی اور عید پر جو میری فراک بنی تھی وہی اس دن کام آئی۔ بس ایک غم تھا کہ میں ساتھ کوئی تحفہ نہ لے جا سکی میں بھلا کیا لے جاتی؟ میرے پاس پیسے ہی کہاں تھے؟ لیکن نیلو نے اس قدر اصرار سے بلایا تھا کہ ناچاہتے ہوئے بھی جانا پڑا۔ ایک بڑی سی میز پر کھانے پینے کا اتنا سامان رکھا تھا کہ حد نہیں اور دوسری میز جو اس سے کہیں بڑی تھی، تحفوں سے لدی ہوئی تھی۔
شرم کے مارے میرا برا حال تھاکہ سب ہی سوچیں گے کہ میں نے کیا دیا۔ابھی میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ نیلو ایک چھوٹی سی تپائی پر چڑھ کر کھڑی ہوگئی اور ہر ایک کے تحفے کھولنا شروع کر دیئے۔ میرا سر چکرا رہا تھا کانوں میں سائیں سائیں سی ہو رہی تھی، دل دھڑ دھڑ کر رہا تھا۔ جی چاہ رہا تھا کہ اس محفل سے نکل بھاگوں۔ کوئی سوچے نہ سوچے، میں خود اس قدر نادم تھی ۔ اسی لمحے نیلو نے بڑے پیار سے اعلان کیا۔’’ آج کا سب سے پیارا تحفہ میری سب سے پیاری سہیلی نے دیا ہے۔ اس نے ہاتھوں میں اوپر اٹھا کر سب کو ایک تاج محل دکھایا، جس میں چھوٹے چھوٹے بلب لگے ہوئے تھے،سنگ مرمر کا حسین و جمیل تاج محل مارے جگمگاہٹ کے کسی کی اُس پر نظر نہیں ٹھہر رہی تھی۔
میں نے گھبرا کر نیلو کو دیکھا۔ اُس نے بھی مجھے دیکھا اور پیار سے ہنس دی لیکن میں پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ جب ایک ایک کر کے سب مہمان چلے گئے تو نیلو میرے پاس آئی بے حد محبت سے مجھے لگے لگا کر بولی’’میری اچھی سبّومیں سب کے سامنے تمہیں شرمندہ ہونے کا موقع کیسے دے سکتی تھی؟تم نے بُرا تو نہیں مانا؟‘‘
میں بس روئے گئی اور اب اتنے سال گزرنے پر میں سوچتی ہوں کہ میں بھی کیسی پاگل تھی جو اُس دن رونے بیٹھ گئی تھی۔ یہ تو خوشی کی بات تھی ۔سچی دوستی وہی تو ہوتی ہے کہ ایک دوست دوسرے دوست کا درد سمجھے۔