• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی و صوبائی سول سروسز میں جس تیزی سے انحطاط پذیری ہو رہی ہے ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں وطن عزیز کوسول سروسز کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے بھی کوئی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دینا پڑے گا۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں امن عامہ کے چیلنجزسے نمٹنے کیلئے حکومت، بیورو کریسی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں اور کوشش میں ہیں کہ مسائل کا جلد اور پائیدار حل نکل سکے۔ چیف سیکرٹری پنجاب کامران افضل کو عہدہ سنبھالتے ہی انتظامی، گڈ گورننس اور سروس ڈلیوری کیلئے ابھی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہوا ہی تھا کہ کالعدم تنظیم کے احتجاج نے انہیں تمام مذکورہ ترجیحات کو چھوڑ کر امن عامہ کی صورتحال پر توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کردیا۔ خیر یہ معاملہ بھی اللہ نے چاہا تو حل ہو ہی جائے گا کیونکہ جہاں بھی حکومت اور اداروں کی کسی کام کوٹھیک کرنے کی نیت ہوتی ہے وہ صحیح ہو ہی جاتاہے۔ریاست ماں ضرور ہوتی ہے لیکن اس سے طاقتور کوئی بھی نہیں ہو سکتا۔ پنجاب میں بیورو کریسی کو درپیش مسائل میں ایک اہم مسئلہ کیریئر پلاننگ کے فقدان کا ہے۔ عام عوام کو شاید اس مسئلے کا ادراک نہ ہو لیکن وہ اس کی وجہ سے انگریزی اور اردو دونوں میں ’’سفر‘‘ کرتے ہیں۔ صوبائی سول سروسز میں پہلے پی ایس ایس (صوبائی سیکرٹریٹ سروس) اور پی سی ایس (صوبائی سول سروس) ہوا کرتی تھیں۔ صوبائی سیکرٹریٹ سروس کے لوگ ڈرافٹنگ، نوٹنگ اور پالیسی میکنگ جیسے اہم امور سرانجام دیتے تھے جبکہ (PCS) صوبائی سول سروس کے لوگ ایگزیکٹو پوسٹوں پر مجسٹریٹ اور اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوتے تھے۔ صوبائی سیکرٹری سروس کی پالیسی میکنگ کے حوالے سے ایک (INSTITUTIONAL LEGACY)تھی۔ ایک سیکشن افسر 3 سے 4 سال تک ایک ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتا تھا جس کی وجہ سے کوالٹی اور تعداد دونوں ہی بہت اچھی تھیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے پی ایس ایس اور پی سی ایس کے ضم ہونے کے بعد پی ایم ایس (صوبائی مینجمنٹ سروس) وجود میں آ چکی ہے۔ پی ایم ایس سروس میں بھرتی ہونے والے افسران کی نوکری ملتے ہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ 6 ماہ بعد ہی فیلڈ میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوں۔ وفاقی سول سروس اور صوبائی سول سروس میں شاید یہ (COMPULSORY) ہے کہ وہ کم از کم ایک سال تک سیکرٹریٹ میں فرائض سرانجام دیں گے۔ پنجاب سول سیکرٹریٹ کو دیکھیں تو وہاں اکثر محکموں میں سیکشن افسر جونیئر پوسٹوں سے ترقی کرکے بنے ہیں۔ پاکستان ایڈمنسٹرٹیو سروس کا افسر پنجاب میں سیکشن افسر اس لئے نہیں لگ سکتا کیونکہ وفاق میں گریڈ 17 کا یہ افسر جب پنجاب میں تعینات ہوتا ہے تو وہ گریڈ 18 میں بطور ڈپٹی سیکرٹری تعینات ہوتا ہے۔ محکمہ داخلہ پنجاب جو کہ انتہائی حساس محکمہ ہے میں اب جا کر کچھ پی ایم ایس سروس کے سیکشن افسر تعینات کئے گئے ہیں لیکن تاحال انتہائی حساس سیکشنوں میں سٹینو، کلرک اور پرزن سروس کے لوگوں کو اپ گریڈ سیٹوں پر تعینات کیا گیا ہے۔ ڈائریکٹ افسران کا بطور سیکشن انچارج فقدان ہونے کی وجہ سے کوالٹی آف ورک متاثر ہو رہی ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ پاکستان ایڈمنسٹرٹیو سروس کی ایک انتہائی ایماندار اور قابل افسر عارفہ صبوحی سمیت اس سروس کے دیگر کئی افسر ماضی میں پنجاب سول سیکرٹریٹ میں بطور سیکشن افسر تعینات رہ چکے ہیں۔ عارفہ صبوحی بطور سیکشن افسر سروسز (ون) میں تعینات رہیں۔ اب ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ وفاقی سیکرٹریٹ سروس (او ایم جی) کے افسر جب پنجاب میں تعینات ہوتے ہیں تو اکثر وہ سول سیکرٹریٹ اور وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں تعینات ہوتے ہیں۔ کوئی دو چار ایسے بھی ہوتے ہیں جوسفارشیں کروا کے ڈپٹی کمشنر لگنے کی کوشش کرتے ہیں اور لگ بھی جاتے ہیں۔ صوبائی سول سروس ان کے درپے بھی ہے کہ یہ وفاقی حکومت میں جا کر کام کریں۔ بھئی اگر پی ایم ایس سروس نے اے سی اور ڈی سی لگنے کی کوشش میں رہنا ہے تو سیکرٹریٹ جہاں کی پالیسیاں ضلعوں میںڈپٹی کمشنروں نے عملدرآمد کروانی ہوتی ہیں کون بنائے گا؟ سٹینو اور کلرک سے ترقی پانے والے کو سیکشن افسر لگانے میں حرج نہیں لیکن یہاں ٹیکنیکل پوائنٹ یہ ہے کہ اگر ایک سٹینو گرافر محکمہ خزانہ میں برسوں کام کرکے ترقی پا کر محکمہ خزانہ میں ہی سیکشن افسر لگتا ہے تو بات سمجھ آتی ہے کہ اس کا اچھا خاصا تجربہ ہوگیا ہے اور وہ پالیسی میکنگ، نوٹنگ اور ڈرافٹنگ وغیرہ کر لے گا لیکن جب آپ اسے محکمہ خزانہ سے اٹھا کر محکمہ داخلہ، ایکسائز، تعلیم یا کسی اور اہم محکمے میں بطور سیکشن افسر تعینات کرتے ہیں تو انہیں کچھ پتہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ صرف اسی محکمے کے افیئرز کو بہتر سمجھتے ہیں جہاں انہوں نے سا لہا سال کام کیا ہوتا ہے۔ پنجاب سول سیکرٹریٹ میں اس وقت حال یہ ہے کہ پی ایم ایس افسران کی تعداد بطور سیکشن افسر کم ہونے سے سیکشن افسر کا کام ڈپٹی سیکرٹری اور ایڈیشنل سیکرٹری ڈپٹی سیکرٹریوں کے کام کر رہے ہیں۔ پاکستان ایڈمنسٹرٹیو سروس ہو یا پی ایم ایس، سیکرٹریٹ میں کوئی کام ہی نہیں کرنا چاہتا۔ پنجاب حکومت فیلڈ میں لگنے والے اے سی اور ڈی سی کی طرح سیکرٹریٹ میں کام کرنے والوں کو بھی ایگزیکٹو الائونس دے رہی ہے جس کے بعد اب ایڈیشنل سیکرٹری کے عہدے کی سول سیکرٹریٹ میں شاید کوئی بھی سیٹ خالی نہیں۔ چیف سیکرٹری پنجاب کوئی ایسا ماڈل بنائیں جس میں 5 برسوں کی تعیناتی میں ایک سے دو سال سیکشن افسر کے طور پر بھی لوگ کام کریں۔ اس اہم ترین مسئلے پر حکومت کو فوری پلاننگ کرنے اور ایس او پیز بنانے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین