• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایڈون ہبل نے 1929 میں یہ دریافت کیا تھا کہ یہ کائنات بہت تیزی کے ساتھ پھیلتی چلی جا رہی ہے ۔اُس نے یہ بات محض دور بین سے کہکشاؤں کو دیکھ کر اخذ نہیں کی تھی بلکہ علم فلکیات کے کلیے ’ریڈ شفٹ ‘سے ثابت بھی کیا تھا ۔ریڈ شفٹ کی مدد سے کسی دور افتادہ سیارے یا کہکشاں کا فاصلہ ماپنا فیتا پکڑ کر ماپنے جیسا تو نہیں مگر کافی حد تک درست ہی ہوتا ہے ۔جب سائنس دانوں کو یہ پتا چلا ’کہ آرہی ہے دما دم صدائے ’کُنْ فَیَکُوںْ‘ تو انہو ں نے کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ماضی کے کسی لمحے میں یہ کائنات سکڑ کر ایک’ ذرے‘ کی مانند ہوگی اور یوں انہوں نے اِس کی عمر کا تعین کیا اور پھر وہیں سے بگ بینگ تھیوری کی بنیاد رکھی جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ کائنات ایک عظیم الشان دھماکے سے وجود میں آئی ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا ؟وقت کی شروعات کیسے ہوئی ؟ کیا یہ جہان رنگ و بو محض ایک ’پروٹون‘ کے دھماکے سے وجود میں آ گیا ؟ اور اگر یہ کائنات ’Nothing‘ سے وجود میں آ سکتی ہے تو پھر خدا کے وجود پر سوال کیوں کر اٹھایا جاتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا؟

سائنس دانوں کے بقول بگ بینگ سے پہلے وقت کا وجود نہیں تھا کیونکہ آج سے13.7ارب سال پہلے کائنات کا حجم نہ ہونے کے برابر تھا اور اُس کی حالت ایک کثیف بلیک ہول کی مانند تھی جہاں وقت اپنا وجود نہیں رکھتا اور چونکہ وقت کا وجود نہیں تھا اِس لیے کسی علت کا وجود بھی ممکن نہیں تھا کیونکہ علت کے لیے وقت کا ہونا ضروری ہے ۔یہ ایٹم کی وہ دنیا ہے جہاں پروٹون ، کوانٹم میکینکس کے قوانین کے تحت ، یکدم ’وجود‘ میں آتے ہیں اور پھر کچھ دیر’ ظاہر‘ رہنے کے بعد’ غائب‘ ہو جاتے ہیں اور پھر کسی اور مقام پر دوبارہ’ ظاہر‘ ہوتے ہیں ۔ آج سے 13.7ارب سال پہلے کائنات اسی sub-atomic-levelپر تھی جب وہ عظیم الشان دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں ایک سکینڈ کے 1/1035ویں حصے میں لا متناہی توانائی کے اخراج سے لاکھوں کروڑوں ستارے ، سیارے اور کہکشائیں وجود میں آ گئیں۔لیکن ایسا ہونے کے لیے ضروری تھا کہ کائنات کی رفتار روشنی سے بھی کہیں زیادہ ہوتی جبکہ آئن سٹائن کا خصوصی نظریہ اضافیت ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کوئی بھی شے روشنی کی رفتار سے سفر نہیں کر سکتی کیونکہ جونہی ہم روشنی کی رفتار کے قریب پہنچیں گےتو دو باتیں ہوں گی، ایک، وقت تھم جائےگا،دوسرے، ہمیں لامتناہی توانائی درکار ہوگی ۔ سو یہ نا ممکن ہے کہ بگ بینگ کے بعد کائنات روشنی کی رفتار سے بھی کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلی ہو۔مگر ظاہر ہے کہ دونوں میں سے ایک بات تو ممکن ہوئی ۔کون سی بات ، یہ تا حال ایک معمہ ہے جس کا جواب سائنس کے پاس نہیں ۔ دوسرا معمہ یہ ہے کہ اگر ہم یہ مفروضہ مان لیں کہ کائنات ’صفر ‘سے وجود میں آئی ہے تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ اِس کائنات کی کُل توانائی بھی صفر ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ’جاؤلز‘ کے نظریے کے تحت نہ توانائی کو تخلیق کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے ختم کیا جا سکتا ہے ۔آئن سٹائن بھی یہی کہتا ہے کہ کائنات میں مادے اور توانائی کی مقدار کم یا زیادہ نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا یہ بات کیسے ممکن ہے کہ بگ بینگ کے وقت توانائی صفر تھی؟ سٹیفن اکنگ کہتا ہے کہ اگر ہم آسمان پر نظر دوڑائیں تو رات کو ہمیں آسمان تاریک نظر آتا ہے۔ اگر ہم یہ تصور مان لیں کہ کروڑوں اربوں ستارے ازل سے روشن ہیں تو ہمیں رات کو بھی آسمان صبح کی طرح روشن دکھائی دینا چاہیے جبکہ ایسا نہیں ہے ۔اِس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات ازل سے وجود نہیں رکھتی ، ماضی میں ضرور کچھ ایساہوا ہوگا جس کی وجہ سے یہ ستارے کسی مخصوص وقت میں روشن ہوئے ہوں گے، یہی وجہ ہے کہ دور افتادہ ستاروں کی روشنی اب تک زمین پر نہیں پہنچی ، اگر یہ ستارے ازل سے روشن ہوتے تو اُن کی روشنی اب تک ہر سو پھیل کر پورے آسمان کو دن اور رات روشن رکھتی ۔ان معموں کی ایک توجیہہ یہ ہو سکتی ہے کہ جس طرح نیوٹن کے قوانین روشنی کی رفتار کے آگے ’باطل ‘ہو جاتے ہیں اسی طرح آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت بھی اُس مرحلے پر بے جان ہو جاتا ہے جس ایک لمحے میں کائنات وجود میں آئی تھی ۔ سٹیفن ہاکنگ کا کہنا ہے کہ چونکہ آئن سٹائن کا نظریہ ایک کلاسیکی نظریہ ہے جس میں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ کسی مخصوص وقت میں اشیا کی رفتار اور اُن کا مقام کیا ہوگا اِس لیے ہم اِن معلومات کی روشنی میں ماضی یا مستقبل کا تعین کر سکتے ہیں ۔ مثلاً اگر ہمیں یہ معلوم ہو کہ ایک خلائی جہاز کسی مخصوص وقت میں مدار میں چھوڑا گیا او ر اس کی رفتار ’ایکس‘ تھی تو ہم باآسانی بتا سکیں گے کہ وہ مدار کا چکر کاٹ کر کب زمین پر پہنچے گا۔لیکن ایٹم کی دنیا میں یہ ترتیب، معنویت اور قطعیت نہیں ہوتی ، وہاں قوانین یکسر مختلف ہوتے ہیں اور کلاسیکی نظریا ت کا اطلاق ’sub-atomic level ‘ پر نہیں ہوتا۔اسی لیے جب ہائزن برگ کہتا ہے کہ ہم ایٹمی ذرات کے مقام اور رفتار کا بیک وقت تعین نہیں کر سکتے تو وہ بظاہر ہمیں ایک ایسی ما بعد الطبیعاتی دنیا کی کہانی لگتی ہے جہاں پہنچ کر صوفی اور سائنس دان ایک طرح سوچنے لگتے ہیں۔ سائنس دان اِس دنیا کی بے ترتیبی اور بے یقینی کی فضا میں غوطے لگا کر ایک ایسی کائنات کے ماضی اور مستقبل کے بارے میں جاننا چاہتا ہے جس کے بارے میں جاننا شاید اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک کلاسیکی نظریات اور کوانٹم مکینکس میں تال میل نہ ہو جائے ۔ دوسری طرف صوفی اِس بے ہنگم کائنات میں ’انا الحق ‘ کا نعرہ لگا کر مطمئن ہو جاتاہے اور پھر مستی اور سرشاری کے عالم میں اپنے سالک کو اِس معمے کا حل سمجھانے کی کوشش کرتا ہے جو خود صوفی کی زبان میں ’unknowable‘ ہے۔

آج اگر انسان کوئی ایسا خلائی جہاز بنا لے جس میں روشنی کی رفتار سے سفر کیا جا سکے تو بھی اِس پوری کائنات کی سیر کرنا ممکن نہیں ہوگا ۔ ہماری پہنچ زیادہ سے زیادہ اٹھارہ ارب نوری سال کے فاصلے تک ہے ، اِس سے آگے کی تمام کہکشائیں ابدتک ہماری پہنچ سے باہر ہیں ، گویا کُل کائنات کا فقط چھ فیصد ایسا ہے جو ہم کسی صورت میں دیکھ سکتے ہیں ، باقی قیامت تک ممکن نہیں۔شاید اسی کوصوفی ’unknowable‘ کہتے ہیں ، ایسی دنیائیں جن کا بیان ممکن نہیں ۔بقول غالب’قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن، ہم کو تقلید تنک ظرفیِ منصور نہیں ۔‘

تازہ ترین