شعبۂ صحت سے وابستہ مختلف این جی اوز اور فاؤنڈیشنز کے زیرِاہتمام ہر سال دُنیا بَھر میں 17نومبر کا دِن’’ورلڈ پِری میچوریٹی ڈے‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے، تاکہ قبل ازوقت پیدایش سے متعلق احتیاطی تدابیر اور دیگر معلومات عام کرکے ایسے بچّوں کی پیدایش کی شرح میں کمی لائی جاسکے۔ اِمسا ل اس یوم کا تھیم "Zero Separation Act now!
Keep parents and babies born too soon together"
ہے۔ مطلب ’’دُوری کی مجبوری سے نجات مل کر، بہتر نگہداشت ہی کے ساتھ ممکن ہے۔‘‘ یاد رہے، دُنیا بَھر میں ہر دس میں سے ایک بچّہ قبل از وقت پیدا ہوتا ہے اور المیہ یہ ہے کہ اس پِری میچور پیدایش کی شرح مسلسل بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اکثر پِری میچور بچّوں کو پیدایش کے فوراً بعد نرسری یا انکیوبیٹر میں رکھا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں یہ بچّےماں کا لمس محسوس نہیں کرپاتے۔ تاہم، مناسب دیکھ بھال اور بَھرپور توجّہ کی بدولت ان بچّوں کی نہ صرف ماں کی ابتدائی قربت ملنے پر صحت بہتر ہوسکتی ہے، بلکہ یہ مقررہ وقت پر پیدا ہونے والے بچّوں کی طرح نشوونمابھی پا سکتے ہیں۔
واضح رہے، نارمل حمل کا دورانیہ 40ہفتوں پر محیط ہوتا ہے،لہٰذا37ہفتوں کے دوران تولّد ہونے والے بچّوں کو طبّی اصطلاح میں Preterm کہا جاتا ہے،جب کہ 32ہفتے سے قبل کی پیدایش کوvery preterm سے موسوم کیا جاتا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال لاکھوں بچّے 5سال سے کم عُمر میں وفات پا جاتے ہیں اور ان میں بڑی تعداد پری میچور بچّوں کی ہے۔تاہم، ان میں سے تین چوتھائی اموات کو بنیادی احتیاطی تدابیر سے روکا جاسکتا ہے۔
عمومی طور پر قبل از وقت پیدایش کا سبب بننے والے عوامل میں بیک وقت دو یا دو سے زائد بچّوں کا حمل ٹھہرنا، وجائنل انفیکشن، ذیابطیس، بلڈ پریشر یا دائمی بیماریوں کے ساتھ حمل، بچّہ دانی کی ساخت میں تبدیلی، بچّہ دانی کے منہ یعنی Carvixکا قبل از وقت کھلنا، دورانِ حمل بچّے کی نشوونما میں رکاوٹ، حاملہ کے دیگر بچّوں میں سے کسی کا قبل از وقت پیدا ہونا، ایک بچّے کی پیدایش کے بعد دوسرا حمل ٹھہرنے میں چھے ماہ سے کم کا وقفہ، ٹیسٹ ٹیوب بے بی، تمباکو نوشی یا نشہ آور ادویہ کا استعمال، ماں کا زائد یا بہت کم وزن، زندگی میں پیش آنے والے حادثات اور ذہنی دبائو، اس حمل سے قبل ٹھہرنے والے دیگر حمل ضایع ہو جانا، جسمانی چوٹ، وقت سے پہلے پانی کی تھیلی پھٹ جانا اور بہت دیر تک کھڑے رہ کر کام کرنا یا آرام بالکل نہ کرنا غیرہ شامل ہیں۔
قبل از وقت زچگی کی چند خاص علامات بھی ہیں، جن کے ظاہر ہونے پر فوری طور پر گائناکالوجسٹ سے رابطہ کیا جائے۔ مثلاً پانی، خون یا گاڑھے مواد کا اخراج،پیٹ کے نچلے حصّے میں درد یا دبائو محسوس ہونا،کمر کے نچلے حصّے میں مستقل درد، پیٹ میں بار بار اینٹھن۔ یاد رکھیے، 40 ہفتے مکمل ہونے سے قبل جتنا پہلے بچّے کی پیدایش ہوگی، پیچیدگیاں اُتنی ہی زیادہ بڑھنے کے امکانات ہیں۔
جن میں سے بعض پیچیدگیاں تو پیدایش کے وقت تشخیص ہوجاتی ہیں، لیکن بعض تاخیر سے ظاہر ہوتی ہیں۔ فوری طور پر ظاہر ہونے والی پیچیدگیوں میں نومولود کو سانس لینے میں دشواری، دِل کے کچھ افعال کی خرابی، دماغ کے اندرونی حصّے میں خون جمع ہونا، جسمانی درجۂ حرارت میں کمی، آنتوں کی سوزش (ماں کا دودھ پینے والے بچّوں میں اس کی شرح کم ہے)،خون کی کمی، پیلیا، خون میں شکر کی مقدار کم ہوجانا، مدافعتی نظام کی کم زوری اور بار بار انفیکشن وغیرہ شامل ہیں۔بعض پِری میچور بچّے ذہنی معذوری(Cerebral Palsy) اور سیکھنے کی صلاحیت کی کمی کا بھی شکار ہوتے ہیں۔
واضح رہے، آموزش کی کمی کے شکار بچّوں کی ابتدائی 2سال تک ذہنی و جسمانی نشوونما کم رہتی ہے، مگر پھر یہ اپنے ہم عُمر بچوں کے ہم پلّہ ہو جاتے ہیں۔ بلکہ اکثر پِری میچور بچّے زیادہ ذہین ثابت ہوتے ہیں۔جیسا کہ آئن اسٹائن بھی پری میچور بچّہ تھا، لیکن وہ غیر معمولی ذہین ہونے کے ساتھ بے پناہ صلاحیتوں کا حامل تھا۔
اس کے علاوہ پِری میچور بچّے آنکھ کے پردے کی خرابی، اندھے پَن، قوتِ سماعت متاثر ہونے، دانتوں کے تاخیر سے یا بے ترتیب نکلنے، ان کی رنگت خراب ہونے، سُست نشوونما، نفسیاتی مسائل، اکثر بیمار رہنے اور بچپن میں فربہی جیسے مسائل سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ترقّی یافتہ مُمالک میں90 فی صد پری میچور بچّے بچ جاتے ہیں، جب کہ ترقی پذیر مُمالک میں صرف10فی صد بچّے ہی زندہ بچ پاتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ صحت کے معاملات سے عدم آگہی اور طبّی سہولتوں کا فقدان ہے۔
یادرکھیے، صحت مندی کے ساتھ حمل کی مدّت پوری کرنے کے لیے باقاعدہ چیک اپ ناگزیرہے۔اس کے علاوہ لڑکیاں متوازن غذا کا استعمال،خصوصاً شادی کے بعد لازماً کریں۔ ورزش کا بھی روزانہ اہتمام کیا جائے، جب کہ وزن پر بھی کنٹرول رہے۔ نیز، پہلے سے موجود بیماریوں کا حمل ٹھہرنے سے قبل علاج کروالیا جائے،تو بہتر ہے۔ اگر تمباکو نوشی کی لت کا شکار ہیں، فوری ترک کردیں۔ حمل سے پہلے گائناکالوجسٹ سے مشورے کے بعد اپنی ویکسی نیشن کروالیں، تاکہ دورانِ حمل انفیکشنز سے محفوظ رہا جاسکے۔ دو بچّوں کی پیدایش میں کم از کم ڈیڑھ سال کا وقفہ رکھیں۔
دورانِ حمل ذہنی تنائو سے بچیں، خود کو متحرک رکھیں، پانی زیادہ پئیں، مناسب آرام کریں، زیادہ دیر کھڑے رہنے والے یا مشقّت والے کاموں سے گریز کیا جائے۔گائناکالوجسٹ کے مشورے سے آئرن اور کیلشیم استعمال کرسکتی ہیں۔ اگر خدانخواستہ قبل از وقت پیدایش کی علامات ظاہر ہوں،تو فوراً اپنی گائناکالوجسٹ سے رجوع کریں کہ اگر بچّے کے پھیپھڑے مضبوط کرنے والے اسٹرائیڈز انجیکشنز لگوانا ناگزیر ہوں، تو بروقت لگائے جاسکیں۔ پھر32ہفتے سے قبل زچگی کی صُورت میں بچّے کے دماغ کی حفاظت کے لیے میگنیشم سلفیٹ کا انجیکشن لگایا جا سکتا ہے۔
دردوں کے لیے بھی مخصوص ادویہ تجویز کی جاسکتی ہیں،جب کہ بچّے دانی کا منہ قبل از وقت کُھلنے پر ٹانکے لگا کر اُسے بند کرسکتے ہیں۔نیز، اگر بچّے کی قبل از وقت پیدایش ہو ہی جائے، تو ماں، نومولود کو اپنے جسم کے ساتھ مستقل لگا کر گرمی دے۔ اس طریقۂ کار کو عرف عام میں "Kangaroo Care" کہتے ہیں۔ کم وقفے سے بار بار دودھ پلایا جائے،تاکہ بچّے کو ماں کا لمس ملتا رہے۔ اس کے علاوہ نوزائیدہ کو انفیکشن سے محفوظ رکھنے کے لیے اینٹی بایو ٹکس بھی دی جاسکتی ہیں۔ (مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ نسواں ہیں۔کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر وابستہ ہیں ،جب کہ عباسی شہید اسپتال ، میمن میڈیکل انسٹی ٹیوٹ اسپتال، صفورا گوٹھ اور ابنِ سینا اسپتال، گلشنِ اقبال، کراچی میں بطور کنسلٹنٹ فرائض انجام دے رہی ہیں)