ویسے تو ہمارا قومی کھیل آج بھی ’’ہاکی‘‘ ہے مگر اس کا حال قوم سے زیادہ مختلف نہیں۔ کرکٹ ہمارا جنون بھی ہے اور غرور بھی، ورنہ شاید عمران خان نہ سیاست میں آتے، نہ وزیراعظم بنتے۔
اس کی کہانی میں آگے چل کر سناتا ہوں ابھی تو دعا ہے کہ پاکستان کل T-20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں آسٹریلیا کو شکست دے اور اتوار کو فائنل جیت کر واپس آئے تاکہ ہم بابر اعظم کے آئندہ کبھی وزیراعظم بننے کا سوچیں۔
کرکٹ کو بھی ہم نے سیاست کی طرح بس استعمال کیا۔ ہمارے یہاں پچھلے پچاس برسوں میں جو حکمران آئے، انہیں عمران جیسا کرکٹ کے لیجنڈ کا خطاب نہیں ملا مگر ان کو کرکٹ کا شوق بھی رہا اور کسی نہ کسی سطح پر کھیلی بھی! چاہے وہ ذوالفقار علی بھٹو ہوں، نواز شریف ہوں مگر جو سیاست جنرل ضیاء الحق نے کھیلی خاص طور پر ’’کرکٹ ڈپلومیسی‘‘ کے نام پر بھارت سے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔
وہ عمران کو بھی اس وقت سیاست میں لانا چاہتے تھے جب وہ اپنے کھیل کی بلندیوں پر تھے اور اگر میں غلط نہیں تو پہلی بار 1988 میں جب محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کی گئی تو ضیاء کے چھوٹے بیٹے انوارالحق نے عمران کو فون کرکے عبوری کابینہ میں وزارت کی پیشکش کی۔ اس وقت عمران برطانیہ میں کائونٹی کھیل رہے تھے چنانچہ اس وقت انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ یہ میرا کام نہیں، نہ مجھے شوق ہے۔
پاکستان کی طرح بھارت میں بھی کرکٹ ایک جنون ہے اور اگر مقابلہ دونوں ٹیموں کے درمیان ہو تو بس سمجھ لیں کہ کراچی سے ممبئی تک سڑکوں پر سناٹا نظر آئے گا۔ نتیجے کے بعد ایک طرف خوشی کا جلوس ہوگا تو دوسری طرف غم و غصہ، توڑپھوڑ اور اب تو بھارت میں مودی سرکار میں مسلمان کرکٹر خاص نشانے پر ہوتے ہیں۔
یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے تو کھلاڑیوں کے خاندانوں تک کو نہیں بخشا جاتا۔ایک زمانہ تھا جب لوگ کرکٹ کو دو ملکوں میں محض کھیل کی طرح دیکھتے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ اس کھیل کو دونوں طرف کے عوام کے درمیان رابطے کا پل قرار دیاجاتا تھا۔
ایک حلقے کی طرف سے جو کرکٹ کے بھی خلاف تھا، اس نے اسے دوسرا ہی رنگ دینے کی کوشش کی اور کہا گیا کہ پہلے بنیادی مسائل حل کئے جائیں پھر کھیل و ثقافت کو دیکھیں گے۔ بعد میں یہی بات بھارت کی طرف سے کی گئی کہ کرکٹ اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک ان کے بقول کراس بارڈر ٹیررزم ختم نہیں ہوتا۔
ہمارا موقف اصولی رہا کہ ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ کا مسئلہ واحد ایشو ہے جس کا پائیدار حل کشمیریوں کی خواہش اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا ضروری ہے۔ بات جمہوری بھی ہے اور اصولی بھی!
ایک بار بھارت کے انتہا پسندوں نے پاکستانی ٹیم کے دورئہ بھارت سے پہلے پچ اکھاڑ دی اور بال ٹھاکرے نے دھمکی دی کہ ٹیم کو بھارت کی سرزمین پر قدم نہیں رکھنے دیا جائے گا۔
اس وقت اٹل بہاری واجپائی وزیراعظم تھے اور نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم! میں اس وقت اے ایف پی کراچی کا بیورو چیف تھا۔ پاکستان میں اور بھارت میں بھی بحث چل رہی تھی کہ ہم وہاں جائیں گے کہ نہیں۔
ایک دن میں نے مشاہد حسین سید، جو اس وقت وزیر کھیل بھی تھے، کوفون کیا اور پوچھا۔ ’’سید صاحب! ٹیم جارہی ہے یا نہیں؟‘‘ انہوں نے جب یہ کہا ’’جارہی ہے اور ہم امن کا پیغام دے رہے ہیں‘‘ تو میں نے فون رکھا اور عمران خان جو ان دنوں کراچی آئے ہوئے تھے، بات کی اور ان کا ردعمل لیا۔
انہوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ پھر کیا تھا یہاں میں نے اسٹوری بھیجی، وہاں فوراً واجپائی صاحب کا خیرمقدمی ردعمل آگیا اور انہوں نے بھارتی انتہا پسندوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’کرکٹ اور سیاست کو الگ رکھو۔‘‘
میں نے مشاہد صاحب کو بتایا تو انہوں نے کہاکہ فیصلہ اسی شام ہوا مگر تمہیں میں نے میٹنگ سے پہلے خبر دے دی تھی۔یہ وہ زمانہ تھا جب عمران بھارت میں اتنے ہی مقبول تھے جتنے پاکستان میں۔ اسی مقبولیت کو دیکھ کر ہمارے کچھ ’’بھائی لوگوں‘‘ نے اس پر نظریں جما لیں کہ اسے سیاست میں لانا ہے۔
ہمارے اداروں کا ہمیشہ سے مسئلہ یہ رہا ہے کہ وہ سیاست میں غیر سیاسی لوگوں کو لانے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسے تجربے کرتے رہتے ہیں۔ کبھی ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی کاروباری لوگوں کو آگے لایا جاتا ہے۔
میاں صاحب سیاست میں جنرل جیلانی کی وجہ سے لائے گئے اور بڑے میاں صاحب سے کہا گیا بھٹو نے آپ کی انڈسٹری قومیا لی تھی، ہم آپ کو وہ واپس کرتے ہیں۔ آپ ان دونوں بچوں (نواز شریف اور شہباز شریف) کو سیاسی طور پر ہمارے حوالے کردیں۔ پھر جو ہوا، وہ تاریخ ہے۔
عمران خان نے غصہ میں اور ردعمل کے طور پر سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا، جب 1995 میں پی ٹی وی نے شوکت خانم کینسر اسپتال کیلئے فنڈ جمع کرنے کی اجازت نہ دی۔ خان صاحب جب وزیراعظم بے نظیر سے ملنے گئے تو آصف زرداری سے ملاقات ہوگئی اور انہوں نے ان کو پی پی پی میں شمولیت کی دعوت دی۔
عمران خان کی پارٹی میں 1996 میں زیادہ تر غیر سیاسی لوگ تھے بعد میں یہ پارٹی ملک کی بڑی جماعت بھی بنی اور اس کو 2011کے بعد کچھ سپورٹ بھی ملی جو 2018کے الیکشن کے بعد تک جاری رہی۔
اب خان صاحب سیاست کے بڑے کھلاڑیوں میں سے ہیں مگر ان کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ٹیم اپنی ہی سلیکٹ کرتے ہیں اور کرکٹ کے مقابلے میں سیاست کے امپائر، میاں صاحب کی طرح اپنے ہی چاہتے ہیں۔
اب یہ ورلڈ کپ تو ویسے بھی T-20 ہے مگر 2023میں ون ڈے کا ورلڈ کپ ہے اور پاکستان میں سیاست کا بھی پاکستانی کپ ہے۔ 1992میں ٹیم اچھی نہیں تھی پر کچھ قسمت نے بھی ساتھ دیا اور جاوید میانداد نے بھی!
ٹیم تو موجودہ T-20 کی بھی بہت اچھی نہیں تھی مگر ہم اب سیمی فائنل کھیل رہے ہیں وہ بھی بھارت اور نیوزی لینڈ جیسی ٹیموں کو ہرا کر…!سیاسی میدان میں اس وقت کپتان کا مقابلہ میاں نواز شریف سے ہے۔ خان صاحب کو ’’مہنگائی کے سونامی‘‘ کا سامنا ہے۔
اب بجائے اس کے کہ وہ اس کا مقابلہ کرتے، انہوں نے ’’امپائر‘‘ پر سوال اٹھا دیئے۔ اسی تنازع کی گرمی اب کچھ کو دسمبر جیسے سرد موسم میں بھی محسوس ہونے جا رہی ہے۔ دیکھتے ہیں میچ ملتوی ہوگا یا فیصلہ…!