گورنر ہائوس لاہور کے تاریخی دربار ہال میں حال ہی میں گورنر پنجاب چودھری محمد سرور سے ایک پروگرام میں ملاقات کا اتفاق ہوا۔ چودھری صاحب کے ساتھ اس وقت سے روابط ہیں جب وہ برطانوی رکن پارلیمینٹ تھے۔ پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے وہ اس وقت بھی ایسے ہی سوچتے تھے جیساکہ وہ اب بطور گورنر پنجاب سوچتے ہیں۔ برطانیہ رہتے ہوئے بھی ان کو فکر ہوتی تھی کہ پاکستانی قوم کے لئے تعلیم کے بہترین مواقع ہونے چاہئیں۔ گورنر چودھری سرور سے حالیہ ملاقات ہوئی تو اس فنکشن میں انہوں نے کہا کہ پنجاب میں بیورو کریسی کے سرخ فیتے کی وجہ سے عوامی مفاد کے کئی کام یا تو ہونے سے رہ جاتے ہیں یا پھر بلاوجہ تاخیر کا شکار ہوتے ہیں اس لئے ریفارمز کی ضرورت ہے۔ گورنر پنجاب نے یہ بھی کہا کہ صوبے کے عوام کو صاف پانی کی فراہمی جیسے بنیادی حق کے لئے بنائی جانے والی آب پاک اتھارٹی کی فائل ڈیڑھ سال تک بیورو کریسی نے روکے رکھی جس کے بعد انہیں ایک بڑی سخت پریس کانفرنس کرکے تنبیہ کرنا پڑی اور اتھارٹی کی منظوری ہوئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میںشخصیات طاقتور اور ادارے کمزور ہیں۔ ساری طاقت وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے پاس ہے۔ بدقسمتی سے کوئی چاہے بھی تو کچھ نہیں کرسکتا۔ مجھے گورنر صاحب کی باتوں سے کچھ ایسا لگا کہ وہ بیورو کریسی کے سرخ فیتے کی وجہ سے کچھ نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان اور خاص طور پر پنجاب کے لئے ان کے جذبات کی قدر کرنی چاہیے لیکن بیورو کریسی کا شاید ان کی امیدوں پرپورا نہ اترنے میں اتنا قصور نہیں۔ وہ بلاشبہ صوبے کی بہتری کے لئے اتھارٹی ایکسر سائز کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ کر نہیں سکتے کیونکہ ہمارے آئینی سٹرکچر میں گورنر کی ایک (SYMBOLIC) حیثیت ہے۔ ایگزیکٹو اتھارٹی وزیراعلیٰ کے پاس ہے اور بیورو کریٹ اتنے جاہل تو ہیں نہیں کہ وہ یہ بات نہ جانتے ہوں کہ اصل اتھارٹی کس کے پاس ہے۔ ہاں البتہ گورنر صوبے کی تمام یونیورسٹیوں کے چانسلر ہیں اور اس بات کا بیورو کریسی کو خوب علم بھی ہے کہ بطور چانسلر وہ تعلیمی اداروں کے حوالے سے کتنے وسیع اختیارات رکھتے ہیں۔ ایگزیکٹو اتھارٹی دینا بیورو کریسی کے بس میں تو بالکل بھی نہیں کیونکہ آئین میں ڈویژن آف پاور ہے۔ لگتا ہے کہ نشانہ کہیں اور ہے اور گلہ کہیں اور ہے۔ ویسے تو بیورو کریسی نے سیاستدانوں کی باتیں مان کر جیلیں بھی بھگتی ہیں لیکن اس کے باوجود ہر جگہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ بیورو کریسی ہی ہر مسئلے کی جڑہے۔ صوبے میں بیورو کریسی وزیراعلیٰ کے ماتحت ہوتی ہے۔ اصل ایشو بیورو کریسی کا نہیں بلکہ آئین میں دیئے گئے اختیارات کا ہے۔ گورنر صرف ایمرجنسی کے نفاذ کے دوران ہی چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے۔ اس وقت بیورو کریسی ان کے ماتحت ہوتی ہے لیکن عام حالات میں وزیر اعلیٰ کی بیورو کریسی ان کےاشاروں پر چلتی ہے۔ اب ذرا پنجاب میں چینی کے بحران اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے جیسے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے کئے جانے والے اقدامات پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔ چیف سیکرٹری پنجاب ڈاکٹر کامران افضل نے FIA کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ اب آپ حیران ہوں گے کہ ایف آئی اے کہاں سے آگئی ؟ پنجاب میں اس وقت ایف آئی اے، محکمہ فوڈ،انڈسٹریز اور ایگلریکلچر کو کہا جا رہا ہے جن سے اس وقت تمام اہم مسائل جڑے ہوئے ہیں۔ہر روز ان 3محکموں سے چینی اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات کی بریفنگ لی جاتی ہے اور حالات میں بہتری کے لئے ٹاسک دیئے جاتے ہیں۔ مہنگائی کا ایشو اس وقت ہر ایک کی زبان پر ہونے کی وجہ سے حکمرانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس کے متعلق کچھ یوں کہنا بھی مناسب ہوگا کہ مہنگائی نہ صرف رٹ آف سٹیٹ بلکہ موجودہ حکومت کی قانونی حیثیت کے لئے ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے۔ ریاست کی رٹ قائم کرنا ایک بڑا سوال ہے۔ یہ رول آف لاء کا اور قومی مسئلہ ہے۔ حکومت اگر مافیاز اور ایلیٹ کو ہاتھ ڈالنا چاہتی ہے تو اس کے لئے (POLITICAL WILL)کی ضرورت ہے۔ حکومت کی مرضی کے بغیر بیورو کریسی کیا کر سکتی ہے۔ مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے بیورو کریسی ایک (INSTRUMENT)کے طور پر تو کام کر سکتی ہے لیکن اس مسئلے کے لئے احکامات تو حکومت نے ہی صادر کرنا ہوتے ہیں۔ دنیابھر میں جہاں بھی چیلنجز آئے ان ملکوں کی لیڈر شپ نے خود فیصلے کرکے بیورو کریسی کے ذریعے عملدرآمد کروایا۔ سنگاپور کے وزیراعظم لی کوآن یو نے اپنی یادداشتوں پر لکھی گئی کتابوں (THE SINGAPORE STORY) اور دیگر میں تذکرہ کیا ہے کہ انہوں نے سنگا پور کو دنیا کے بہترین ملکوں کی صف میں کھڑا کرنے کے لئے اس کی کس طرح (TRANSFORMATOIN) کی۔ لی کوآن یو نےبتایا کہ انہوں نے جب سنگا پور کی ترقی کا بیڑا اٹھایا تو انہوں نے 50 ہم خیال سیاستدانوں کو اکٹھا کیا اور ایک پالیسی بنائی۔ بیورو کریسی کوتگڑا کیااور پھر اس کے ذریعے تمام پالیسیوں پر عملدرآمد کروالیا۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں بھی 50 ایسے ہم خیال سیاستدان ہونے چاہئیں جو پاکستان کو سنگا پوربنانا چاہتے ہوں۔ لی کوآن یو کی کہانی بڑی مزیدار ہے لیکن بات پھر وہی ہے کہ بیورو کریسی بطور (INSTRUMENT) تو کام کرسکتی ہے لیکن فیصلے اور سیاسی سوچ حکومت کی ہی ہونی ہوتی ہے۔ پنجاب میں مافیاز سے نمٹنے کے لئے بیورو کریسی اس وقت برسرپیکار تو ہے لیکن کئی موقعوں پر ان کے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں۔ بیورو کریسی کو مسائل کی جڑ سمجھنے کی بجائے اس سے کام لینے کے لئے حوصلہ اور طاقت فراہم کریں تاکہ رٹ آف سٹیٹ کو کوئی چیلنج کرنے کی جرأ ت نہ کرسکے۔