دو گانا یا ڈوئیٹ سونگ ہماری فلمی موسیقی کا لازمی جزو رہا ہے،جو عمومی طور پر دو مختلف آوازوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس ضمن میں پہلا ڈوئیٹ فلم ’’صابرہ‘‘ تھا۔ جسے گایا تھا سلیم رضا اور کوثر پروین نے ۔ موسیقار تھے صفدر حسین ڈوئیٹ کے بول تھے ’’رات ہو گئی جوں … نغمہ بن کر آئی لب پر دل کی داستاں‘‘ نغمہ نگار طفیل ہوشیار پوری نے اس خُوب صورت دو گانے کے لیے جس قدر عمدہ شاعری کی، موسیقار صفدر حسین نے اسی قدر دل کش اور میٹھی دُھن سے اسے سنوارا۔
سلیم رضا اور کوثر پروین کی مدھر گائیکی نے اس دو گانے کو امر روپ دیا۔ آج بھی یہ ڈوئیٹ گیت بہت ذوق و شوق سے سُنا جاتا ہے۔1957 کی ریلز ’’عشق لیلیٰ ‘‘ اور ’’وعدہ‘‘ 1958 کی ریلیز ’’حسرت‘‘ میں بھی خُوب صورت اور سپرہٹ ڈوئیٹ گیت شامل تھے، لیکن 1959کی ریلیز مسعود پرویز کی ’’کوئل‘‘ کا ڈوئیٹ ’’رِم جِھم رِم جِھم پڑے پھوار۔ تیرا میرا نِت کا پیار‘‘ خواجہ خورشید انور کی لازوال کمپوزیشن، تنویر نقوی کی دل کش شاعری، منیر حسین اور میڈم نور جہاں کی امر گائیکی سے مزین ایک ایسے ڈوئیٹ گیت کے قالب میں بند کیا کہ اس کی نغمگی کا طلسم آج بھی سُننے والے کو سحر زدہ کر دیتا ہے۔
کوئل کی ریلیز کو 62سال گزر چکے ہیں، لیکن اس ڈوئیٹ گیت کی مٹھاس آج بھی سماعتوں میں رس گھولتی ہے۔ 1960کی ریلیز ہدایت کار ایس ایم یوسف کی سوشل ڈراما مووی ’’سہیلی‘‘ کے لیے فیاض ہاشمی نے ایک ہجر کی کیفیت میں ڈوبا ڈوئیٹ گیت لکھا، جس کے بول تھے ’’کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا‘‘ اے حمید کی پُر سوز دُھن پر سلیم رضا اور نسیم بیگم نے یہ ڈوئیٹ گیت اس رچاؤ سے گایا کہ یہ ایک یاد گار ڈوئیٹ گیت کا درجہ پا گیا۔
1961کی ریلیز ہدایت کار اقبال یوسف کی جاسوسی تصویر ’’زمانہ کیا کہے گا‘‘ کے لیے مصلح الدین کی کمپوزینش اور فیاض ہاشمی کی شاعری پر مشتمل احمد رشدی اور ناصر نیازی نے ایک دل کش ڈوئیٹ گیت گایا ’’رات سلونی آئی بات انوکھی لائی‘‘ جداگانہ طرز پر بنایا گیا یہ ڈوئیٹ گیت کو اپنی منفرد کمپوزیشن کے سبب خاص مقام حاصل ہے۔ ہدایت انجم نقوی کی نغمہ بار سوشل مووی ’’قیدی‘‘ کے لیے رشید عطرے کا مرتب کردہ ملکہ ترنم نور جہاں اور شہنشاہ غزل مہدی حسن کا پہلا مشترکہ ڈوئیٹ گیت ’’اک دیوانے کا اس دل نے کیا مان لیا پیار نے پیار کی آواز کو پہچان لیا‘‘ یہ گیت اپنی گائیکی ترتیب اور تشکیل کے اعتباز سے بہت اعلیٰ معیار کا حامل ڈوئیٹ تھا۔
جس نے عوامی سطح پر مقبولیت اور پسندیدیگی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ فلم ’’قیدی‘‘ میں یہ گیت درپن اور شمیم آرا پر پکچرائزڈ کیا گیا تھا۔ 1962 میں منظر عام پر آنے والی ہدایت کار نجم نقوی کی فلم ’’اک تیرا سہارا‘‘ کے لیے قتیل شفائی نے ایک دل کش ڈوئیٹ گیت لکھا، جس کی دُھن ماسٹر عنایت حسین نے مرتب کی۔ پکچرائز ہوا شمیم آرا اور درپن پر اس دو گانے کے بول تھے ’’بادلوں میں چھپ جائے چاند کیوں‘‘ اس کی پاکستان بھر میں پسندیدگی اور مقبولیت اپنی جگہ تاہم بھارتی نغمہ نگار اور موسیقار نے مل کر اس گیت کو کاپی کیا اور اسے بھارتی فلم کی زینت بنایا۔
یوں پڑوسی ملک سے بھی قتیل شفائی کے لکھے اس گیت کو خراج تحسین ملا۔ مغربی پاکستان ساختہ پہلی رنگین فلم ’’ایک دل دو دیوانے‘‘ کے لیے منیر کاظمی کے لکھے دو گانے کو دل کش دُھن سے آراستہ کیا تصدق حسین نے اور گایا احمد رشدی و آئرین پروین نے، اس دو گانے کے بول تھے ’’اجنبی راستے اجنبی ہم سفر شوق آوارگی لے چلا ہے کدھر‘‘ یہ مدھر ڈوئیٹ جب بھی سماعتوں سے ٹکراتا ہے، سامع کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
ہدایت کار رحمٰن کی زیر ہدایت بننے والی فلم ’’ملن‘‘ کے لیے بی اے دیپ نے ایک عمدہ شاعری سے سجا دو گانا لکھا، جس کے بول تھے ’’تم جو ملے پیار ملا دل کو قرار آگیا‘‘ خان عطا الرحمٰن کی دل کش و طبع زاد دُھن پر میڈم نور جہاں اور بشیر احمد نے اس دو گانے کو اس قدر رچائو اور انہماک سے گایا کہ اس گیت نے موسیقی کی دُنیا میں ایک جداگانہ میوزک سےشائقین کو روشناس کروایا۔ آج بھی اس گیت کا حسن، تازگی، دل کشی زندہ و تابندہ ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی موسیقی نے اعلیٰ ترین ڈوئٹس میں سے یہ ایک ہے۔
1966کی ریلیز پاکستانی سینما کی مائل اسٹون مووی ’’ارمان‘‘ کا ڈوئیٹ زندگی اپنی تھی اب تک اڑتے بادل کی طرح مسرور انور کی شاعری سہیل رعنا کی دلکش اوریجنل دُھن احمد رشدی اور خورشید شیرازی کی عمدہ گائیکی کا سنگم یہ ڈوئیٹ گیت جس پر شہزادہ رومانس وحید مراد اور ملکہ سلور اسکرین زیبا علی نے شان دار پرفارمنس دی۔ یُوں یہ دو گانا اپنی تخلیق تشکیل اور پکچرائزیشن کے اسلیب سے آراستہ شاہ کار گیت کے درجے پر فائز ہوا۔ مسعود پرویز کی سرحد شیخ حسن کی ’’جاگ اٹھا انسان‘‘ اقبال شہزاد کی ’’بدنام‘‘ اور نجم نقوی کی پائل کی جھنکار یہ 1966کی وہ فلمیں تھیں، جس میں خوب صورت اور معیاری دو گانے شامل تھے۔
لیکن 1967ء کی ریلز رضا میر کی معرکۃ الارا فلم ’’لاکھوں میں ایک‘‘ کا دو گانا ’’ساتھی کہاں ہو آواز تو دو پل پل میرا پیار پکارے‘‘ مجیب عالم اور ملکہ ترنم نور جہاں نے نثار بزمی کی بہت اعلی اور طبع زاد دھن پر گا کر اور سنگیت کا حصہ بنا دیا۔ اس دو گانے کا شمار پاکستان کے اعلیٰ و منفرد ڈوئٹس میں ہوتا ہے۔ 1967ہی کی ریلیز ہدایت کار قمر زیدی کی فلم ’’رشتہ ہے پیارکا ‘‘ کے لیے بھی ایک ایسا دل کش سُریلا اور سدا بہار دو گانا تخلیق ہوا کہ آج بھی وہ سماعتوں کو بہت بھلا اور سہانا لگتا ہے ۔
فیاض ہاشمی کے لکھے اس ڈوئیٹ کی طرز ناشاد نے بنائی تھی، اپنی ترنم گائیکی سے ایسے آراستہ کیا تھا احمد رشدی اور رونا لیلیٰ نے، جب کہ ڈوئیٹ گیت کے بول تھے ’’معصوم سا چہرہ ہے ہم جس کے ہیں دیوانے‘‘ نظروں سے ملی نظریں۔ کیا ہوگا خدا جانے بلاترد کہا جا سکتا ہے کہ احمد رشدی اور رونا لیلیٰ نے جتنے بھی ڈوئیٹ گائے، یہ انہیں اس ڈوئیٹ کا ممتاز تر مقام ہے۔ یہ گیت وحید مراد اور زیبا پر پکچرائزڈ کیا گیا تھا ۔
ہدایت کار ایس سلیمان کی فلم ’’آگ‘‘ 1967 لئیق اختر کی ’’صاعقہ‘‘ 1968 پرویز ملک کی ’’جہاں تم وہاں ہم‘‘ (1968اقبال یوسف کی ’’تم ملے پیار ملا‘‘ 1969رضا میر کی ’’انیلا‘‘ 1969 وغیرہ میں بہت ہی دل کش اور یاد گار ڈوئٹس گیت کو ان فلموں کا حصہ بنایا گیا۔ لیکن ہدایت کار نوید احمد کی یاد گار تخلیق ’’عندلیب‘‘ 1969 کا ڈوئیٹ اپنی دلکش دھن کلیم عثمانی کی عمدہ شاعری احمد رشدی اور نور جہاں کی گائیکی کے اعتبار سے خاص اہمیت کا حاصل تھا۔ 1970 کی ریلیز ہدایت کار شباب کیرانوی کی اعلیٰ گھریلو تصویر ’’انسان اور آدمی ‘‘ کے لیے شباب کیرانوی کی شاعری۔
ایم اشرف کی عمدہ موسیقی اور نور جہاں و مہدی حسن کی سُریلی گائیکی سے سجا دو گانا ’’تو جہاں کہیں بھی جائے میرا پیار یاد رکھنا‘‘ کو عوامی سطح پر شہرت جاوداں ملی۔ اسی سال پنجابی سینما کی غیر معمولی یاد گار شاہ کار تصویر ’’ہیر رانجھا‘‘ منظر عام پر آئی، جس کا میوزیک پنجابی سینما کی تاریخ کا سب سے زیادہ میٹھا اوریجنل لازوال میلوڈی سے بھر پور تھا۔ ہیر رانجھا کے لیے منیر حسین اور میڈم نور جہاں نے ایک ڈوئیٹ ’’وے ونچلی والڑیا‘‘ گایا تھا، جو اپنی اوریجنلٹی اور میلوڈی کے ضمن میں کبھی فراموش نہ کیا جا سکے گا۔
اس ڈوئیٹ میں ونجلی (بانسری) کا استعمال بھی کمال مہارت سے کیا گیا۔ 1970ہی کی ریلیز فلم ’’روڈ ٹو سوات‘‘ کا ڈوئیٹ ’’یہ ادا یہ ناز یہ انداز آپ کا‘‘ اس اعتبار سے منفرد ڈوئیٹ تھا کہ اس گیت کی گلوکارہ مالا کی آواز گیت میں تین خواتین فنکاروں کے لیے پلے بیک تھی۔ اسی طرح احمد رشدی کی آواز بھی تین مرد اداکاروں کے لیے پلے بیک تھی۔ یعنی کہنے کو دو گانا تھا ، مگر اس پر لپسینگ چھ فن کاروں نے کی تھی۔