دنیا کا شاید ہی کوئی شہر یا خطہ ایسا ہو جس کا گوادر کے معاشی،سماجی اور ثقافتی امکانات سے موازنہ کیا جا سکے۔ کورونا کے بعد بڑی معیشتوں کی بحالی کے ساتھ ہی، گوادر دوبارہ عروج کی جانب گامزن ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے یہ ایک ایسے مقام پر واقع ہے جو 2030 تک بین الاقوامی تجارت میں بسرکردہ حیثیت کا حامل ہو گا۔ اس تجارت کا ایک بڑا حصہ چین سے آنے والی اہم سپلائیوں پر مشتمل ہوگا۔ مغربی ترقی یافتہ قومیں گوادر کے متبادل کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ امریکہ کا اثر و رسوخ کم ہوتا جا رہا ہے، یورپ اقتصادی کساد بازاری سے نبرد آزما ہے،جبکہ دوسری جانب ژی جن پنگ کی قیادت میں’’ ایشیائی ڈریگن‘‘ کا عروج جاری ہے۔ 70، 80 اور 90 کی دہائی کا امریکی غلبہ مفقود ہو رہا ہے۔ چینی ترقی اب امریکی ترقی کو پیچھے چھوڑ رہی ہے، سی پیک اور بی آرآئی کی ترقی اور توسیع کی بدولت چین تیزی سے گوادر کے ذریعے دنیا بھر کی تجارتی منڈیوں میں سبقت حاصل کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
گوادر صرف مستقبل کا تجارتی مرکز نہیں بلکہ ایک مثالی تبدیلی کا بیّن ثبوت بھی ہے۔ برطانوی اور امریکی سپر پاورز نے تقریباً ہمیشہ طاقت اور جارحیت کا سہارا لیا ہے۔ امریکیوں نے سرد جنگ اور اس وقت کے طاقتور سوویت یونین کی تحلیل کے بعد سے، طاقت کا بے دریغ غلط استعمال کیا جس کی تازہ مثالیں لیبیا، مصر، سوڈان، یمن اور عراق ہیں۔ دوسری طرف امریکیوں نے بے گناہ فلسطینیوں کے خلاف اپنی خونی مہم میں اسرائیلیوں کی بھرپور حمایت کی ۔ واشنگٹن نے ایران کے جوہری پروگرام کے باعث سخت پابندیاں عائد کیں جب کہ اسرائیل کے جوہری پروگرام پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی۔
چین اس کے برعکس باہمی ترقی اور کامیابیوں کے یکساں ماڈل تشکیل دے رہا ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے، چین نے چند دہائیوں کے قلیل عرصے میں کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں شرحِ غربت پر تیزی سے قابو پایا۔ صنعت اور تجارت میں ترقی کی ، چین اب یورپ کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک سے بہت آگے ہے یہاں تک کہ بہت سے ترقی یافتہ مغربی ممالک اب اپنی اقتصادی سلامتی اور استحکام کے لیے چین پر انحصار کر رہے ہیں۔ بیجنگ نے علاقائی اور بین الاقوامی ترقی کا ماڈل اپنایا ہے۔ بیرونی ممالک میں فوجی مہمات شروع کرنے اور استحکام کو سبوتاژ کرنے کی بجائے، چین نے سرمایہ کاری، صنعت، مشترکہ منصوبوں اور باہمی ترقی کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ۔ آج تک، چین نے دنیا کے تقریباً تمام براعظموں، مشرق وسطیٰ، ایشیا اور بالخصوص افریقہ کے امیر اور غریب ممالک کے ساتھ یکساں روابط قائم کیے ہیں۔ پاکستان، چین کی اس حکمت عملی کی بہترین مثال ہے۔
چین نے پاکستان کوہر طرح کے حالات میں برادر ملک کہا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری اور ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ اس کی واضح دلیل ہیں۔ چین اپنے مغربی علاقے سنکیانگ کو بحیرہ عرب سے جوڑنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ CPEC پاکستان کی جیو اسٹرٹیجک پوزیشن اور کرہ ارض پر اگلی طاقتور ترین قوم کے طور پر چین کی مستقبل کی ترقی کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ OBOR تجارت کے روایتی سلک روٹ کو بحال کرتا ہے جو پچھلے دو ہزار سال سے استعمال ہو رہا ہے۔ چین اب مینوفیکچرنگ اور برآمدات کا مرکز ہے۔ گوادر کے ذریعے وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے چینی تجارتی روابط میں پاکستان اور چین دونوں کے لیے دو گنا فوائد ہیں۔ پاکستان کے لیے، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے بے پناہ امکانات پیدا ہوں گے جو گرتی ہوئی معیشت میں نئی روح پھونک دیں گے، گوادر OBOR اور CPEC کے دیگر منصوبوں کے تحت پاکستان کو خطے میں مرکزی ٹرانزٹ ٹریڈ ہب بنا دے گا،تجارت دونوں سمتوں میں چلے گی۔ توانائی کی سپلائی، خام مال اور نیم تیار شدہ اشیا پاکستان اور چین کی معیشتوں کے لیے اہم ہوں گی جبکہ چین سے برآمدات کی صورت میں تیار مصنوعات چین اور پاکستان سے نکل کر مشرق وسطیٰ کے تیل سے مالا مال ممالک تک رسائی پائیں گی۔یہی صورتحال وسطی ایشیا کے لیے بھی ہوگی ۔ اس روٹ سے چینی برآمدات کی لاگت کم ہو جائے گی جس سے وہ یورپی اور امریکی مصنوعات کی مسابقتی قیمتوں میں زیادہ پرکشش ہو جائیں گی۔ بہت سی امریکی فرمیں پہلے ہی چین میں اپنی مینوفیکچرنگ منتقل کر چکی ہیں، جو واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تجارتی جنگ کی ایک بنیادی وجہ بنیں۔ گوادر اس معاشی پلان کا مرکز ہے جو چین نے اپنی تجارتی وسعت کے لیے بنا رکھا ہے۔ گوادر کا کوئی موازنہ نہیں جو اہم ٹرانزٹ پورٹ اور مستقبل کااہم ترین تجارتی شہر ہوگا۔
طویل عرصے سے، امریکیوں نے چین کے خلاف دشمنی کا محاذ کھول رکھا ہے۔ ساؤتھ چائنا سمندری تنازعہ، تائیوان اور ہانگ کانگ میں غیر ریاستی عناصر کی بے جا مداخلت وہ چند مسائل ہیں جو چین کو دفاعی پوزیشن پر دھکیلنے کے لیے پیدا کیے گئے۔ امریکہ نے چین کے خلاف اتحاد بنایا جس میں آسٹریلیا، بھارت، جاپان اور برطانیہ شامل ہیں۔ چین کے ساتھ اتحادی بلاک میں چین، پاکستان، ایران، ترکی اور روس اقوام متحدہ سمیت عالمی سفارتکاری میں غلبہ حاصل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ جیسا کہ امریکہ افغانستان، شام اور یورپ میں مسلسل ناکام ہو اہے، یہ چین ہی ہے جو وقت کادرست انتخاب ہے۔ چینی اتحاد باہمی فائدے اور مشترکہ پیش رفت سے تشکیل دیا گیا ہے۔
گوادر نے CPEC کی بدولت ترقی کا پہلا مرحلہ مکمل کر لیا ہے۔ گوادر کی چینی ہولڈنگ کمپنی اب ٹائم لائن کے مطابق گوادر کو عالمی تجارت کے لیے تیار اور فعال کرنے کے لیے آن ٹریک ہے۔ گوادر سے بین الاقوامی درآمدات اور برآمدات کو کلیئر کیا جا رہا ہے۔ بندرگاہ مکمل ہو چکی ہے اور گوادر ایئرپورٹ کو مکمل کرنے کے لیے دن رات کام جاری ہے۔ جدید ترین ہاؤسنگ، پانی اور صنعتی سہولیات دن بہ دن بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان عالمی تجارت کے مستقبل میں سربلند ہوگا اور گوادر ایشیا کا سٹار پورٹ سٹی ہو گا۔ یہ ایک خواب تھاجس کی تعبیر سامنے ہے شاندار مستقبل پاکستان کی دہلیز پر کھڑا ہے۔
(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)