• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایم ایف (IMF)کا جن پاکستان کے لئے دہشت گردی سے زیادہ خطرناک ہے۔اس وقت ملک کی معیشت مضبوط نظر نہیں آ رہی، اگرچہ عمران خان کی سرکار کوشش تو بہت کر رہی ہے کہ معیشت اور سماج کی حالت تبدیل کی جا سکےمگر ناکام نظر آ رہی ہے اور اِس ناکامی کی بڑی وجہ سیاسی نظام اور جمہوریت ہے۔ ہمارا سیاسی نظام بھی فرنگی کے دور کا چربہ ہے جس نے عوام کے لئے انصاف اور قانون کے معاملات طے کرنے کے لئے عدالتی نظام ترتیب دیا مگر اس کے پاس انصاف کرنے کا مکمل اختیار نہیں تھا۔ اس وقت بھی قانون ہے اور قانون بنائے بھی جا رہے ہیں مگر اس سے سماج کی حالت بدلتی نظر نہیں آ رہی۔ آئین پر عمل نہیں ہو رہا کہ آئین پر عمل کرنے والے ادارے تو نوکر شاہی کے کنٹرول میں ہیں اور ان کے اپنے مفادات ہیں اور اسی وجہ سے معیشت اور سیاست پر سیاسی اشرافیہ کا ناجائز قبضہ ہے۔

مبصرین کے مطابق مہنگائی نے عوام کو شدید مشکلات سےدوچار کر رکھا ہے، ملک کا سیاسی نظام مہنگائی کے فروغ میں حصہ دار ہے اور لوٹ مار کرنے والے حکومت سے زیادہ طاقتور نظر آتے ہیں۔ پھر عالمی ادارے، جن میں خاص طور پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نمایاں ہیں، اس وقت بھی ہم پاکستانی ان کے محتاج ہیں۔ ہماری معیشت کا بڑا حصہ قرضوں پر چل رہا ہے اور قرضے بھی ایسے کہ ہر روز ان کے سود میں اضافہ ہوتا ہے۔ اصلی رقم کی واپسی بھی ایک مشکل مرحلہ ہے۔ اتنی بڑی آبادی والے ملک کی معیشت قابل اعتبار نہیں ہے پھر دوبارہ یہ بتانا پڑتا ہے کہ اس ناقابل اعتبار معیشت کی نگرانی ملکی نوکر شاہی اور عالمی ادارے کر رہے ہیں۔

ملک کا سرکاری بینک جو عرفِ عام میں اسٹیٹ بینک کہلاتا ہے وہ ملکی معیشت کے لئے غیر ملکی اہم اداروں کا ہمنوا دکھائی دے رہا ہےکہ قومی سرکاری بینک کے ملازم تنخواہ تو حکومت ِپاکستان سے وصول کرتے ہیں مگر ان کے اقدامات اور پالیسی غیر ملکی عالمی اداروں کے حوالہ سے ہوتی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر بھی ملک کے نہیں بلکہ ان کو باہر سے لایا گیا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں مہنگائی ہے اور لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے مگر وہاں ہمارے جیسی صورتحال نہیں۔ ہمارے تمام قرضے ڈالر میں ہیں اور ڈالر کی قدر و قیمت ناقابلِ اعتبار ہوتی ہے اور پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر ہونے کے باوجود ڈالر کی قیمت پر کنٹرول مشکل لگ رہا ہے اور اس میں اہم کردارا سٹیٹ بینک کا ہے۔ تارکین وطن کی رقوم بھی ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہیں اور تارکین وطن پریشان ہیں کہ پاکستان کو کیسے مشکلات سے بچایا جائے۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر کا کردار بھی ہمارے سیاست دانوں کی طرح سے مشکوک نظر آ رہا ہے۔

عمران خان نے قانون کی حکمرانی کو مطلوبہ اہمیت نہ دی جس کی وجہ سے قانون اور ادارے بے توقیر ہوئے۔ عدالتوں میں مقدمات کی اس قدر بھرمار ہے کہ لگتا ہے ان مقدمات کے لئے بھی سرکار کو معافی تلافی کا سوچنا پڑے گا۔ مقدمات کی تاخیر نے نوکر شاہی کے کردار کو مزید مضبوط کر دیا ہے۔ پولیس مقدمات کے لئے کوئی کردار ادا نہیں کرتی اور نہ ہی پولیس سے پوچھ پڑتال ہو سکتی ہے اور وہ داخلی خودمختاری سے اس لوٹ مار کے نظام کو مضبوط بناتی جا رہی ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک کا نظام دیکھ لیں پولیس کی بے بسی نمایاں نظرآتی ہے۔ لوگوں کے ہجوم کو کنٹرول کرنا اس پولیس کے بس میں نہیں اور عمران خان کی ٹیم ابھی تک صرف اور صرف سیاست کرتی نظر آ رہی ہے اور بدقسمتی سے ملکی ادارے اس صورتحال میں نوکر شاہی کے یرغمال بنے دکھائی دیتے ہیں۔

عمران خان وزیر اعظم کی حیثیت میں دو حصوں میں تقسیم رہے۔ ایک طرف وہ جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم تھے اور ان کی سرکار خود ساختہ نہ تھی ان کے اتحادی بھی تھے اور ان کے ساتھ طاقتور حلقے بھی تھے بلکہ کچھ حلقوں کا الزام ہے کہ طاقتور حلقے ان کے مشیر بھی تھے۔ اس صورتحال میں جب جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں اضافہ کا سوچا گیا تو عسکری انتظامیہ اور بیرونی دوستوں نے ان کو قائل کیا اور اس کے بعد اپوزیشن بھی ان کی ہمنوا نظر آئی مگربقول ایک دوست کے جو عمران خان اور ان کی بیگم کے قریب ہے کہ یہ قدم ان کی ریاست اور سیاست کے لئے ضروری تھا اور اس قدم کے بعد اپوزیشن عسکری حلقوں پر زیادہ تنقید کرنے لگی۔اس ساری صورتحال میں چین جو پاکستان کا دوست ہے کچھ کچھ مایوس بھی نظر آیا اور اس نے کوشش تو کی مگر ہماری انتظامیہ پر امریکی غلبہ زیادہ ہے اور اسی وجہ سے مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک چلا رہے ہیں،جن کی خواہش کے اس خطہ کی معیشت عالمی مالی اداروں کے قوانین کے مطابق چلے۔ ان کا زور بھارت پر نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت چین کو روک سکتا ہے چین پاکستان کی مدد کر سکتا ہے مگر ابھی تک چین پریشان ہے کہ پاکستان اپنے معاملات میں تبدیلی کیوں نہیں چاہتا؟ اس وقت امریکہ صرف عمران خان کے کردار کی وجہ سے خوش نہیں ہے۔ عمران کو بدلنا آسان ہے مگر کون ان کے بعد آئے گا؟ طاقتور حلقے چاہتے ہیں کہ امریکہ مہربان رہے اور چین دوست رہے مگر کوئی پاکستان کے مفاد کو نہیں دیکھتا ایسے میں روحانی قوتیں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہیں مگر وہ سب کچھ وقتی ہو رہا ہے۔ عمران ایک دفعہ وزیر اعظم بن گئے ہیں ان کو یاد رکھا جائے گا اور کہا جائے گا کہ شاید وہ کچھ کر جاتا اور کر سکتا مگر پاکستان محکوم رہے گا، عوام کی نیت صاف نہیں اور پھر عوام بدنصیب بھی ہیں، سو پاکستان کی قسمت خراب، وطن میں لوٹ مار ایسے ہی رہے گی۔ اس وقت سوچ بدلنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے کئی سال انتظار کرنا ہو گا۔

تازہ ترین