ایک مرتبہ ایک خلاباز کی تصویر وائرل ہوئی تھی۔ اس میں وہ بتارہا تھا کہ یہاں اوپر خلا میں آکر بھی مجھے کوئی خدا نظر نہیں آیا۔ کسی نے اس پر تبصرہ کیا : جیسے ہی تمہارا آکسیجن سلنڈر تمام ہوا، نظر آجائے گا۔ جو لوگ خلا میں رہ کر آتے ہیں، انہیں سب سے زیادہ قدر کششِ ثقل کی ہوتی ہے، جو زمین پر ہمیں مفت میں ملی ہوئی ہے۔ اس قوت کے بغیر معمولی کام، جیسا کہ ہاتھ دھونا، ایک مشن مکمل کرنے کے برابر ہوجاتا ہے۔ کبھی کبھار ایک باپ جب اولاد کو کسی نعمت کی بے قدری کرتا ہوا دیکھتا ہے تو وہ آزردہ ہوجاتا ہے۔ وہ سوچنے لگتاہے کہ کاش! اسے معلوم ہوتا کہ کس قدر محنت سے یہ سب میں نے حاصل کیا ہے۔ خدا بھی یہ کہتا ہے ’’ یااسفیٰ علی العباد‘‘ بندوں پر افسوس...!
اس دنیا میں انسان جن چیزوں کی مدد سے نارمل زندگی گزارتا ہے، لمس کا احساس ان میں شاید سب سے زیادہ اہم ہے۔ لمس کا احساس اگر نہ ہوتا تو کچھ بھی نہ ہوتا۔ انسان اپنی اولاد کو اٹھاتا اور چومتا ہے۔ جلد میں اگر لمس کا احساس نہ ہوتاتو کبھی وہ اسے اٹھانے اور چومنے سے لطف حاصل نہ کر سکتا بلکہ یہ ایک بورکردینے والی مشق بن کے رہ جاتی۔ ماں کے دل میں بچّے کے لیے پیدا ہونے والی محبت میں سب سے اہم کردار بھی لمس کا ہی ہے۔ لمس کا احساس نہ ہوتاتو ماں کے لیے بچّے کو دودھ پلانا بھی ایک بور کر دینے والی مشق ہی ہوتی۔ انسان جب اپنے بچّے کو چھوتا ہے، اسے چومتا ہے تو اس کے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نوزائیدہ اور شیر خوار بچوں کے لمس کا احساس کس قدر فرحت انگیز ہوتاہے۔ اتنی ہی زیادہ حیرت ہوتی ہے،انسان کو اس ذات پہ جس نے یہ لطیف احساس بچے کی جلد میں پیدا کیا۔
انسان ٹھیک طرح سے چل نہ سکتا، اگر لمس کا احساس نہ ہوتا۔ جب ہم اپنا پائوں زمین پر رکھتے ہیں تو لمس کے احساس ہی سے سب کچھ نارمل ہونے کا احساس ہوتاہے، اگر زمین گرم ہو تو پائوں جلنے لگتے ہیں۔ ہومو سیپین کی تین لاکھ سالہ تاریخ میں جوتے تو ابھی حال ہی میں استعمال ہونا شروع ہوئے ہیں۔ اس سے قبل بھی انسان ننگے پائوں جنگلات اور پہاڑوں میں چلتا پھرتا تھا۔ کانٹا چبھ جانے کا احساس، زمین گیلی یا ٹھنڈی ہونے کا احساس، یہ سب جلد کے اس جادوئی کمال، لمس (Touch)کے مرہونِ منت ہے۔
اس لمس تلے چھپے ہوئے،اللہ کے احسانات لا محدود ہیں۔ انسان کھانا نہ کھا سکتا،اگر اس کا ہاتھ چپاتی کو چھو کر محسوس نہ کر سکتا۔ لمس کا یہ جادو زبان تک پہنچ کے اپنے عروج تک چلا جاتا ہے۔ یہاں یہ ذائقے میں بدل جاتا ہے۔ میٹھا ذائقہ،ترش، کڑوا اور نمکین۔ زبان میں لمس اور ذائقے کے احساسات نہ رکھے جاتے تو کھانا کھانا ایک بور کردینے والا دقت آمیز کام بن جاتا‘ جس سے جاندارجان چھڑانے لگتے۔
دوسری حسیات بھی ساتھ ساتھ مدد کرتی ہیں۔دیکھنے کی حس بھی اہم ہے۔ اسی طرح ذائقے کے علاوہ معدے سے بھوک کا احساس دماغ تک لے جانے والی نروز بھی انتہائی اہم ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ‘ لیکن جب انسان ضرورت کے تحت یا شوقیہ طور پر کوئی بھی کام کرتا ہے، تو لمس کے احساس ہی کی مدد سے اسے انجام تک پہنچایا جاتاہے۔ لمس نہ ہوتا تو انسان کبھی ڈرائیونگ نہ کر سکتا۔
آخر انسان بھی اسی نتیجے پر پہنچا کہ اسے Touch والے اسمارٹ موبائل فونز اور Touchوالے روبوٹس بنانا ہوں گے، اگر زیادہ سے زیادہ Featuresرکھنے ہیں۔ یہاں مگر ایک مخمصہ پیدا ہوتاہے۔ جتنے کسی روبوٹ یا موبائل فون میں زیادہ فیچرز رکھے جاتے ہیں، اتنی ہی جلدی وہ اپنی توانائی ختم کر دیتاہے۔ اسمارٹ فونز ایک ہی دن میں اپنی توانائی خرچ کر لیتے ہیں‘ جس کے بعد انہیں دوبارہ چارج کرنا پڑتا ہے۔ اس کے مقابلے میں بٹنوں والے موبائل فون کئی دن نکال جاتے ہیں۔ صدقے جائیے،اس پروردگار کے، جس نے انسان میں اَن گنت Featuresرکھے او ر توانائی؟ناقابلِ یقین حد تک کم توانائی پہ اس کے جسم کو کام کرنے کے قابل بنایا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ انسان کا جسم کام کرنے کے لیے اسی طرح سے کرنٹ کا محتاج ہوتاہےجیسا کہ ایک روبوٹ اور موبائل فون بیٹری کی توانائی کا؟ جہاں تک انسان کی سوچ کام کرتی ہے، جہاں تک وہ زمین کی تہوں اور آسمانوں کی وسعتوں تک غور کر سکتاہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک لمحے میں اس کی ساری توانائی خرچ ہو جاتی۔ ویسے سب مخلوقات میں سے انسان میں ہی دماغ سب سے زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے جو کچھ بھی انسان کھاتا ہے اور جتنی آکسیجن بھی اس کے اندر جا کر توانائی پیدا کرتی ہے،اس کا بیس فیصد دماغ کھاجاتا ہے۔
انسان کے جسم میں آنکھ، کان، لمس اور ذائقے کی مدد سے ڈیٹا دماغ تک جاتا ہے۔ ایک ایک سیکنڈ میں ان گنت معلومات دماغ تک منتقل ہوتی ہیں۔ دماغ ان پر فیصلے کرتاہےتو انسان گاڑی چلانے اور کرکٹ کھیلنے کے قابل ہوتاہے۔ جلد میں لمس کے احساس کی اہمیت ان سے پوچھئے‘ جن کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے۔ لمس کے احساس کے بغیر انسان ایک زندہ لاش بن کے رہ جاتا ہے۔کبھی کبھی انسان سوچتا ہے کہ کیا خدا میری بچگانہ حرکتیں دیکھ کر کہہ رہاہوگا: یاسفیٰ علی العباد۔ بندوں پر افسوس! لمس کا احساس اگر نہ ہوتا تو ہم زندہ لاشوں کی طرح جیتے۔ ہمارے اندر جذبات نہ ہوتے، محبت نہ ہوتی اگر جلد میں لمس کا احساس نہ ہوتا اور تو اور مائیں بچوں کو دودھ نہ پلاتیں، جلد میں اگر لمس کا احساس نہ ہوتا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)