کراچی سے لے کر پشاور تک عوام کو گیس کی دستیابی کے مسائل نے پریشانی میں مبتلا کردیا۔
ملک کے مختلف شہروں کراچی، حیدرآباد، سکھر، کوئٹہ، زیارت، پشاور، راولپنڈی، فیصل آباد، سرگودھا، ملتان، گوجرانوالا میں گیس کی قلت سامنے آئی ہے۔
شہریوں کی گیس کی تلاش جاری ہے، ملک کے متعدد علاقوں میں عوام کو ناشتے سے لے کر دوپہر اور رات کے کھانے تک گیس کی دستیابی کے مسائل کا سامنا رہا۔
ناشتہ اور کھانا تیار نہ ہونے سے خواتین پریشان ہوگئیں، گھر کا بجٹ بڑھ گیا، غریب شہریوں کے لیے بازار سے روٹی روز خریدنا مشکل ہوگیا۔
ملک بھر کے کئی شہروں میں چولہے ٹھنڈے پڑگئے، اس پر پی ٹی آئی رہنما صداقت علی عباسی نے عوام کو مزید ڈرا دیا۔
انہوں نے کہا ہے کہ عوام کو ایک ڈیڑھ ماہ تک گیس بحران کا سامنا کرنا ہوگا، کوشش کی جارہی ہے کہ کھانا پکانے کے وقت گیس فراہمی یقینی بنائی جائے۔
کراچی میں گیس کی کمی سے ہوٹل مالکان بھی پریشان ہیں جبکہ بلوچستان کے کئی شہروں میں سردی بڑھتے ہی گیس پریشر انتہائی کم ہوگیا ہے۔
کوئٹہ، زیارت اور قلات سمیت بلوچستان کے کئی شہروں میں سردی بڑھنے کے ساتھ گیس پریشر انتہائی کم ہوگیا، گیزر اور ہیٹر تو دور چولہا ہی نہیں جل رہا۔
کراچی میں کہیں گیس بالکل غائب ہے تو کہیں پریشر انتہائی کم ہے، گھریلو صارفین، پکوان سینٹرز اور ہوٹل مالکان سب ہی گیس کی قلت سے پریشان ہیں، پیداواری صنعتیں بھی گیس بحران کی زد میں آگئیں۔
سیلنڈر میں گیس بھروائیں تو جیب پر بوجھ، اگر باہر سے کھانا منگوائیں تو بھی بجٹ آؤٹ، کیا کریں، کیا نہ کریں، کراچی والے اس وقت عجیب کشمکش میں مبتلا ہیں۔
اورنگی ٹاؤن، کورنگی، کیماڑی، سرجانی ٹاؤن، نارتھ کراچی، گلشن اور ڈیفنس سمیت شہر کا کوئی ایسا ضلع نہیں، جہاں شہری گیس کی بندش یا قلت کے باعث اذیت میں مبتلا نہ ہوں۔
شہر کے کچھ حصوں میں 14 سے 15 گھنٹے گیس کی لوڈشیڈنگ ہے تو کہیں 12 سے 18 گھنٹے گیس کا پریشر کم رہتا ہے۔
گیس نہ ہو تو خاتون خانہ انتظار میں بیٹھی رہتی ہیں اور اگر کم پریشر ہو تو صبح کا ناشتہ، دوپہر کا کھانا، شام کی چائے سب کچا پکا بنتا ہے۔
سوئی سدرن نے کہا ہے کہ ہزاروں گیزر کے چلنے سے گیس کی طلب میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے جبکہ بلوچستان میں بھی گیس کی اضافی مانگ ہے۔
سوئی ناردرن کے مطابق لاہور میں گیس فراہمی بلاتعطل جاری ہے۔