پدر شاہی معاشرے میں یوں تو خواتین پر تشدد کرنا، نئی بات نہیں، مگر اس حالیہ چند واقعات کی سنگینی نے ذرائع ابلاغ میں تبصروں اور افواہوں کا ایک بازار گرم کردیا ہے۔ وہ ایک متوازی بیانیہ ہے ،جس میں ہدف تنقید ملزم نہیں بلکہ اس تشدد سے متاثرہ خاتون ہے۔ اس احتسابی بیانیہ میں بہتان تراشی کے ساتھ متاثرہ خاتون کے طور طریقے، لباس، ماحول، پرورش پر سوال اُٹھایا جاتا ہے۔ یہ الزام بھی لگایاجاتا ہے کہ یہ سوانگ سوشل میڈیا پر سستی شہرت کے لالچ میں ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ متاثرہ خاتون پر مقبولیت کا الزام لگانے والے، بہتان اور الزامات کا طوفان بھی سوشل میڈیا پر لگا کر اپنی دکان چمکا رہے ہیں۔ ایسے واقعات میں اصل جرم پر سرسری تنقید کے بعد متاثرہ خاتون کا اخلاقی احتساب کرنے کی روش ایک مخصوص مکتب فکر کا کام ہے، جو طبقاتی تقسیم میں بٹے معاشرے کا پروردہ ہے ،جہاں طاقتور کا کیا گیا فیصلہ آخری ہوتاہے۔
جہاں طاقتور اور کمزور کے مابین ایک خاموش سمجھوتہ ہے ،جو معاشرے کی جڑوں میں اس قدر پیوست ہے کہ اکثر ریاستی رٹ بھی اپنا منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔ کمزور اور طاقتور کی یہ تفریق سب سے زیادہ آسانی سے صنف کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اس طبقاتی نظام میں عورت کمزور اور محکوم ہوکر بھی فساد کی جڑ ہے اور مرد محض مرد ہونے کے ناطے اخلاقی طور پر ایک اونچی سطح پر براجمان ہے۔ مرد و عورت کی اس غیر منصفانہ سماجی تفریق کے نتیجے میں جس معاشرے کا تصور ابھرتا ہے، وہ کسی بھی معتبر تعریف میں مہذب نہیں کہلا سکتا۔
ہم اپنے لئے ریاست مدینہ یا جدید، مہذب اور جمہوری معاشرے کی مثالیں ضرور استعمال کرتے ہیں، مگر ایسے واقعات ہماری خود فریبی کا پول کھول کر ایک ایسے جنگل کی شبیہ دکھاتے ہیں ۔جہاں وحشیوں کے غول آزاد گھوم رہے ہیں، جنہیں سدھایا نہیں جاسکتا اور جن کے جذبات کبھی بھی اور کسی بھی شے سے برانگیختہ ہوسکتے ہیں۔ اس ماحول میں فرد کی جان، مال اور آبرو پر ضمانت کی مہر نہیں بلکہ اس پر سوالیہ نشان ہے۔ معاشرے کی اس تصویر سے اگر آپ کے جذبات مجروح ہوتے ہیں، آپ کے وطن اور معاشرے کے مثالیہ پر آنچ آتی ہے تو پھر ایسے بیانیہ پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
اس وقت یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ بیانیہ بے وقت، گمراہ کن اور انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ اگر ہم ریاستی قوانین کو دیکھیں تو ظاہر ہے کہ ریاست صنف کی بنیاد پر ظالم اور مظلوم میں تفریق نہیں کرتی۔ ریاستی قوانین ایک تنہا اور کمزور خاتون کو آزادی کے ساتھ گھر سے باہر نکلنے اور اظہار رائے کا وہی حق دیتے ہیں جو کسی مرد کو حاصل ہے ،لہٰذا ایسا بیانیہ جو صنف کی تفریق کے ساتھ ظالم سے زیادہ مظلوم کو ہونے والے سانحے کا ذمہ دار ٹھہرانے، قانون اور انصاف کی روح کے قطعی منافی ہے۔
اگر ہم ایک لمحے کو یہ انوکھا استدلال تسلیم کرلیں کہ متاثرہ خاتون کا طرزعمل غیر ذمہ دارانہ تھا تو بھی اس کے بعد اس پر ہونے والا جبر و تشدد کہیں زیادہ سنگین، غیر متوازن اور بے ربط ہے ،لہٰذا اس پر عمل اور ردعمل کی منطق لاگو نہیں ہوتی۔ بدقسمتی سے جو کچھ بھی ہورہا ہے، اسے عمل کا ردعمل بنا کر ایک پامال روح کو اور پامال کیا جارہا ہے۔
اس کی سنگینی اور بڑھ جاتی ہے جب یہ ایسے وقت میں سامنے آئے جب ملزمان کے خلاف عدالتی کارروائی ہورہی ہو۔ ان غیر محتاط بیانات سے نہ صرف سادہ لوح عوام گمراہ ہورہے ہیں بلکہ جرم اور ملزم کی بھی غیر اعلانیہ معاونت ہورہی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا کہ متاثرہ خاتون کا میڈیا ٹرائل کرنے والے اپنے گمراہ کن بیانات کے ممکنہ نتائج سے واقف اور مطمئن ہیں؟ ایک لڑکی مینار پاکستان جیسے عوامی مقام پر ایک ویڈیو ریکارڈ کرکے ہیجان خیزی کا سبب بن سکتی ہے تو شخصی آزادی کی حدیں کیا ہیں؟
عمل اور کردار پر یہ جرح اس وقت بھی ہوتی جب متاثرہ خاتون خود ان کی بیٹی ہوتی۔اگر اس بیانیہ کا دفاع اظہار رائے کے زمرے میں رکھ کر کیا جائے تو عرض ہے کہ اظہار رائے اگر شعور کے بغیر ہے تو یہ محض شور ہے۔ دکھ کی بات ہے کہ یہ شور آج کل ہر آواز پر غالب ہے۔
بہتر ہوگا کہ اپنے جہل انگیز بیانئے کو کسی نظریئے کا جامہ پہنانے کی بجائے اپنے شعور کا قبلہ درست کیا جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ اصلاح کی توقع کس سے کی جائے۔ یہ بیانیہ کسی فرد کی ذاتی سوچ نہیں بلکہ رجعت پسند حلقوں کے منافقانہ طرز فکر اور دہرے معیار کا عکاس ہے۔ ایسے منفی اور گمراہ کن طرزفکر کا ردعمل، مثبت اور مدلل مکالمہ ہے۔ ایسا مکالمہ جس میں مخالفت برائے مخالفت کی بجائے، نیک نیتی کے ساتھ مہذب اقدار اور مساوی حقوق پر مبنی معاشرے کی بات کی جائے۔ ایسے سانحوں پر گفتگو صرف وہ ہونی چاہئے جو مظلوم کی دادرسی اور جرم کی مذمت پر مبنی ہو اس کے علاوہ کوئی بھی بیانیہ نرم سے نرم الفاظ میں بے مقصد کیا جائے گا۔