’’گرین بلڈنگ‘‘ محض ایک اچھے تصور سے زیادہ ہے۔ اگر ہم عالمی درجہ حرارت کو 2 سینٹی گریڈ سے کم تک محدود کرنے کے پیرس معاہدے کے ہدف کو پورا کرنے جا رہے ہیں تو عمارتوں اور تعمیرات سے کاربن کی پیداوار اور اخراج کو کم کرنا ناگزیر ہے ۔
یہ نتیجہ اقوام متحدہ کی زیر قیادت ایک نئی رپورٹ میں اخذ کیا گیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ 2020ء میں عمارتوں کی تعمیر اور آپریشنز میں استعمال ہونے والی توانائی کے نتیجے میں عالمی کاربن اخراج میں اس شعبہ کا حصہ 37فی صد تھا۔ ہرچندکہ یہ اعدادوشمار اس سے گزشتہ سال کے مقابلے میں کاربن اخراج میں کمی کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن اس کی وجہ وبائی مرض کے دوران لاک ڈاؤن اور معاشی سکڑاؤ تھا۔
رپورٹ کے اجراء کے موقع پر اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن کا کہنا تھا کہ، ’’عمارتوں اور تعمیراتی شعبے کو، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے ایک بڑے ذریعہ کے طور پر، توانائی کی طلب کو کم کرنے، بجلی کی سپلائی کو ڈی کاربنائز کرنے اور تعمیراتی مواد کے کاربن فوٹ پرنٹ کو حل کرنے کی سہ رُخی حکمت عملی کے ذریعے فوری طور پر ڈی کاربنائز کیا جانا چاہیے‘‘۔
کاربن اخراج میں تیز تر کٹوتی
اقوام متحدہ کے مطابق عمارتوں سے کاربن کی پیداوار کو کم کرنے میں پیش رفت ہوئی ہے۔ مزید ممالک بلڈنگ انرجی کوڈ لاگو کر رہے ہیں، گرین بلڈنگ سرٹیفیکیشن بڑھ رہی ہے، اور توانائی کی کارکردگی بڑھانے میں سرمایہ کاری میں بھی بتدریج اضافہ ہورہا ہے جو 2015ء میں( جس سال پیرس معاہدہ کو اپنا یا گیا تھا) 129ارب ڈالر سالانہ سے بڑھ کر گزشتہ سال 180ارب ڈالر کی سطح سے تجاوز کر گئی ہے۔
لیکن یہ کوششیں کافی نہیں ہوں گی اور ابھی تک کی پیش رفت سست رہی ہے۔ دو تہائی ممالک کے پاس اب بھی کوئی لازمی بلڈنگ انرجی کوڈ نہیں ہے۔ توانائی کی بچت پر سرمایہ کاری میں زیادہ تر اضافہ صرف چند یورپی ممالک سے آیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پیرس معاہدے کے تحت بہت سے ممالک نے اپنے لیے جو اہداف طے کیے ہیں، وہ بلند نظر اور امید افزا نہیں ہیں۔
خالص صفر کا سفر
عمارتوں اور تعمیراتی شعبے سے کاربن اخراج کے مسئلے سے نمٹنے کا وقت اب ہے۔ توانائی کی کھپت اور کاربن اخراج پہلے ہی تیزی سے بڑھ رہے ہیں کیونکہ عالمی معیشتیں وبائی مرض سے متاثر ہونے کے بعد تیزی سے بحال ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے پیش گوئی کی ہے کہ ایشیا اور افریقا میں اگلی تین دہائیوں کے دوران تعمیراتی ڈھانچہ کا حجم دوگنا ہوجانے کی توقع ہے، جب کہ 2060ء تک عالمی سطح پر مجموعی مواد کے استعمال میں تعمیراتی مواد کا حصہ ایک تہائی ہوگا۔
2050ء تک خالص صفر اخراج کا ہدف حاصل کرنے کے لیے عمارتوں سے کاربن اخراج کو اس دہائی کے آخر تک نصف کرنا ہوگا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بجلی اور تجارتی حرارتی نظام کے لیے بجلی پیدا کرنے جیسی بالواسطہ سرگرمیوں سے کاربن اخراج 60 فیصد تک کم ہونا چاہیے۔
تو ہم یہ اہداف کس طرح حاصل کریں گے؟ اقوام متحدہ کی دستاویز میں کئی فوری اقدامات اٹھانے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ دنیا بھر کی حکومتوں کو بجلی کی پیداوار سے کاربن کی پیداوار کم کرنے کے لیے اپنے عزم کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے منصوبوں میں تعمیراتی مواد کی تیاری سے کاربن اخراج کو بھی ہدف بنانے کی ضرورت ہے، جسے اب تک بڑے پیمانے پر نظرانداز کیا گیا ہے۔
تمام ممالک کو عمارتوں کی توانائی کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے قوانین بنانے کی ضرورت ہے، جو انسولیشن سے لے کر وینٹیلیشن اور اپلائنسز تک ہر چیز کا احاطہ کرتے ہوں۔ ہمیں اس بات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ نئی اور موجودہ عمارتیں جو آنے والی دہائیوں تک استعمال میں رہیں گی وہ آب و ہوا میں ہونے والی تبدیلیوں اور سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح، گرمی کی لہروں، خشک سالی اور سمندری طوفانوں جیسے شدید موسمی واقعات کا مقابلہ کر سکیں۔
یقیناً اس کے لیے سرمایہ درکار ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ عمارتوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے سرمایہ کاری کو سالانہ 3فی صد کی شرح سے بڑھانے اور حکومتی سرمایہ کاری کے ساتھ نجی شعبہ کی سرمایہ کاری کے لیے بھی سازگار ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی۔ گرین بانڈز، گرین مارگیج اور اس طرح کی دیگر پراڈکٹس کے ذریعے اس شعبہ میں سرمایہ کاری کو بڑھانا ہوگا، جن کا ماحولیات پر مثبت اثر پڑے گا۔
قلیل مدتی اہداف کے طور پر یہ سب کچھ حاصل کرنا بہت بڑی کامیابی ہوگی اور اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں اس حوالے سے مثبت رائے کا اظہار کیا گیا ہے کہ محتاط منصوبہ بندی اور توجہ کے ساتھ اگر کام کیا جائے تو تعمیرات کے شعبہ میں مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے علاوہ ورلڈ اکنامک فورم جیسے بین الاقوامی ادارے بھی عالمی درجہ حرارت میں کمی کے لیے عالمی سطح پر کام کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں فورم کی جانب سے ’’شعبہ تعمیرات کے مستقبل کے لیے لائحہ عمل‘‘ کے نام سے ایک رپورٹ بھی تیار کی گئی ہے، جس میں نئی تعمیرات اور شہری زندگی تخلیق کرنے کے لیے روڈ میپ دیا گیا ہے۔
اس روڈ میپ میں شہروں اور عمارتوں کو دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ خصوصی طور پر، رہنے کےقابل، پائیداری، لچک اور مالی لحاظ سے ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی پہنچ میں لانے جیسے معیارات پر پورا اُترنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔