اکثریت یہ سوچتی ہے کہ میاں نواز شریف ایک بار پھر اقتدار میں آئیں گے، باوجود اس کے کہ وہ خود ساختہ جلاوطنی میں ہیں اور سزا یافتہ بھی۔ اس سوچ کا تانا بانا ایک طرف پرویز مشرف کے 1999میں نواز شریف کو اقتدار سے نکالنے سے ملتا ہے تو دوسری طرف 2008کے الیکشن میں پنجاب کی پگ دوبارہ سجنے سے بھی جا ملتا ہے۔ اس سوچ کو تقویت اس لئے بھی ملتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی مرکز میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص ناکامی سامنے ہے۔ مہنگائی جو کسی بھی حکومت میں کبھی نیچے نہیں گئی مگر ماضی میں آصف علی زرداری ہوں یا میاں نواز شریف ان سب کے ادوار میں ترقیاتی کام بہرحال ہوئے، ق لیگ اور مشرف دور سمیت ماضی قریب میں تنخواہیں بھی بڑھتی رہیں اور سفارتی تعلقات کبھی اس قدر زوال پذیر نہ ہوئے جتنے آج ہیں۔ سعودیہ گر نواز شریف سے بہت خوش رہا تو زرداری صاحب سے بھی زیادہ نالاں نہیں رہا۔ چہ جائیکہ نواز شریف پرچیاں پکڑ کر ہی امریکی صدر سے گفت و شنید کرتے مگر کوئی امریکی صدر فون سننے سے انکاری بھی نہ رہا اور زرداری صاحب بھی ڈیمو کریٹ اور ری پبلکن رہنمائوں میں لازمی جڑیں رکھتے۔ خیر بےنظیر کی بین الاقوامیت کا معیار ہی کچھ اور تھا۔ راقم نے جنرل حمید گل جیسے شدید مخالف کے منہ سے بھی بےنظیر بھٹو کو آئرن لیڈی کہتے سنا اور سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اسلم بیگ مشرف دور میں اپنی تحریروں میں بی بی کو بہادر لیڈر گردانتے رہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں نوازشریف اینڈ کمپنی، جس کے پاس پنجاب سے بزدار حکومت کو چلتا کرنے کا پورا ساز و سامان موجود تھا اور ایک وقت تھا جب پرویز الٰہی بھی ساتھ دینے کیلئے بےقرار تھے، ان سہولتوں اور مواقع سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا؟ کیا وہ اس قدر پُرامید تھے اور ہیں کہ بزدار کا مقبول نہ ہونا ان کے مستقبل کی کامیابی کی ضمانت ہے؟ بہرحال ن لیگی مقصد کی لمبائی پی ڈی ایم کے مقصد کی اونچائی سے میل نہیں کھا رہی تھی! ایسے چھوٹے موٹے متعدد سوالات جنم لیتے ہیں۔ پھر خیال میاں صاحب کے برطانیہ جانے کی ڈیل کی جانب بھی جاتا ہے جس میں بیماری کی سب رپورٹوں کی تحقیق اور تصدیق کا سبب عمران حکومت ہی تو ہے!
پیپلز پارٹی پی ڈی ایم بنانے کے باوجود بری اس لئے لگی کہ وہ تختِ لاہور کو ن لیگ کو واپس لینے کا کہتی تھی تاہم مولانا کسی اصولی سیاست یا حقیقی جمہوریت کے بجائے اتحاد کی استقامت چاہتے تھے اور مولانا کا بنتا بھی یہی تھا۔ میاں نواز شریف کی ’’حریت پسندی‘‘ اور شہباز شریف کی ’’مصالحت پسندی‘‘ کے مابین سرد جنگ اور پی ڈی ایم کی درونِ خانہ عاقبت نااندیشی نے حالیہ حکومت کو عالیہ حکومت بنائے رکھا۔ جو یہ سوچتے ہیں کہ مقتدر کا بنایا ہوا مقدر کا سکندر ہی حتمی ہوتا ہے تو وہ 1999اور 2013کی جانیوں، آنیوں اور کہانیوں کا مطالعہ فرما لیں۔ اقتدار پسند اور حُسن پسند مستقل مزاج کم ہی ہوتے ہیں۔ یہ چاہے اقتدار پانے والے ہوں یا اقتدار دلانے والے۔
ن لیگ کی قیادت میں کچھ لوگوں نے خوب ڈھنڈورا پِیٹا کہ پیپلز پارٹی مقتدر پسند ہو گئی ہے۔ اول تو ایسا تھا نہیں، گر تھا بھی تو اقتدار اور مقتدر کے چولی دامن کے ساتھ کو ن لیگ سے علیحدہ کرنا محال ہے، پیپلز پارٹی کا معاملہ ہمیشہ مختلف رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کا ایک قصور بہرحال رہا ہے کہ کچھ قائدین و عمائدین زرداری حکومت کی موجودگی میں بھی کھانے اڑانے کے باوجود زرداری کی پیٹھ پیچھے خواص و عوام کے سامنے اس کی برائیاں کرتے مگر پیپلز پارٹی کے حوالے سے اظہارِ الفت کرتے۔ سچ تو یہ تھا کہ پنجابی لیڈر شپ میں ’’منظورِ نظر‘‘ ہونے کا مادہ و حربہ ہمیشہ رہا ہے جبکہ پیپلزپارٹی اور آصف زرداری 2007سے لازم و ملزوم ہو چکے تھے۔ یہ بات وقت اور ’’نیوٹن کے تیسرے قانون‘‘ نے ثابت بھی کردی۔ جن کو نیوٹن کا تیسرا قانون بھول چکا ہے ان کیلئے محض اتنا ہی کہ اس قانون کے مطابق ہر عمل کا ردِعمل لازم ہے۔ ان اسباق اور سیاق و سباق کے علوم محترمہ مریم نواز کیلئے بہت ضروری ہیں اور میرا نہیں خیال پرویز رشید مریم نواز کو اِس بارے میں نہ بتاتے ہوں۔ جو موسموں کے مزاج کو جانچتے رہنے کا شوق رکھتے ہیں،وہ نباض ہونے کے سنگ تھرمامیٹر بھی جیب میں رکھتے ہیں، پرویز رشید کو سمجھنے کیلئے چوہدری نثار اور پرویز رشید میں فرق سمجھنا ضروری ہے۔ سو پرویز رشید نے مریم نواز کو ایک روٹ پرمٹ تو بنادیا مگر ڈرائیونگ کے دوران دایاں بایاں اور ’’اندر‘‘ والا آئینہ دکھانے کا ہُنر سکھانا بھول گئے شاید؟ یہ آڈیو اور وڈیو کا سمع و بصر ہمیں بھی پسند ہے لیکن سلیقے اور طریقے کا انداز وہ ہو کہ تیر نشانے پر لگے۔ جب تیر تُکا بن جائے تو اثرات پیوندِ خاک ہو جاتے ہیں! مولوی مشتاق سے سابقے لاحقے اور نظریہ ضرورت سی اصطلاحیں کس کس کے کریڈٹ پر کتنی کتنی رہیں، یہ تازہ مقتدر بھی جانتی ہے اور مریم نواز بھی۔ یہ نہیں کہ مریم کو لیڈر ماننے میں ہمیں کوئی تکلیف ہے، ہم تو محض اتنا چاہتے ہیں کہ مریم تاریخ اور آئین کا مطالعہ شروع کردیں ان کا سبق پکنا اور پکانا قوم کیلئے باعثِ رحمت ہو سکتا ہے!
یہ نہیں کہ اداروں اور سیاستکاروں میں صادق اور امین رونق افروز نہیں، یقیناً ہیں۔ اور وہ ٹیپ سامنے آنے اور نہ آنے کو بھی سمجھتے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ریکارڈنگ کہاں کہاں سے آسکتی ہے۔ سو ضروری یہ ہے کہ جمہوریت کی خاطر ادارے اور پیارے آن ریکارڈ آئیں، ریکارڈنگ میں نہیں! نیوٹن قانون اور ملکی قانون کا سب سے زیادہ سامنے کرنے والے زرداری کو کیا کبھی تاریخ گھڑنے اور تاریخ رقم کرنے والا مورخ سپردِ قلم کرے گا کہ وہ آن ریکارڈ رہا، ریکارڈنگ میں نہیں۔ پاکستان کھپے سے بانیٔ سی پیک اور ایرانی و امریکی سفارت کاری تک وہ قابلِ ذکر نہیں؟ تلخیوں، عملوں و ردِ عملوں کے باوجود بلاول کو زرداری صاحب نے اسٹیٹس مین بنایا مگر نواز شریف نے مریم کو کیوں نیا ’’کپتان‘‘ بنادیا؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)