امریکہ کی ملٹری کمانڈ پینٹاگون نے اپنی افواج میں ریڈ الرٹ جاری کردیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ امریکی آرمی کو کسی وقت اور کہیں بھی امریکی پرچم بلند رکھنے اور امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے بھیجا جاسکتا ہے، کہا جارہا ہے کہ امریکی حکام اپنی سب سے طاقتور بحری فورس کواپنے مقاصد کے لئے استعمال کرے گا، یہ اس وقت دنیا کی سب سے طاقتور فورس ہے،جس کے پاس صرف سمندری کنٹرول کےلئے 22 سے زیادہ جوہری آبدوزیں ہیںجبکہ جدید بحری بیڑے جنگی جہازوں سے لیس ہیںجو دنیا کے مختلف سمندروں میں امریکی دفاع کے لئے تیار رہتے ہیں۔ امریکی ایئر فورس دوسری بڑی ایئر فورس ہے، مستقبل میں امریکہ اور اسرائیل کے جنگی طیارے مشترکہ جنگ میں شراکت دار رہیں گے، کہا جارہا ہے کہ امریکہ اب کسی بڑی جنگ کے لئے بڑی تیاری کررہا ہے، چین اس کا ہدف ہے، چین کی آرمی بڑی ضرور ہے لیکن وسائل کے اعتبار سے امریکہ کی آرمی کے مقابلے میں اب بھی کم ہے، امریکہ کی تینوں فورسز کے پاس ہزاروں کی تعداد میں ڈرون موجود ہیں جو اپنا ہدف حاصل کرنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ بھارت اب اس کا جنگی اتحادی بننے جارہا ہے، جس کی آرمی چین کے برابر ہے۔ بحری اور فضائی لحاظ سے ابھی بھارت چین کے برابر نہیں لیکن اسے جنگ لڑنے کے اصول سے مکمل آگاہی ہے، امریکہ، اسرائیل اور روس اس کے بڑے سپورٹرز ہیں۔
امریکہ نے طالبان کے ساتھ دوحہ میں جو معاہدے کئے ان کا اس نے پاس نہیں رکھا، امریکہ نے اچانک افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا اور دوحہ میںکئے گئے وعدے دھرے کے دھرےرہ گئے۔ امریکہ کی آشیرباد سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والے قطری حکمران اس وقت سکتے میں آگئے جب قطر اور کابل میں موجود امریکی سفیروں کو دوحہ میں طالبان کے ساتھ حتمی مذاکرات کرنا تھے۔ ادھر قطر کو بھی اب کہہ دیا گیا ہے کہ وہ اتنا ہی کام کرے جتنا اسے کہا جارہا ہے۔ قطر میں امریکی بحری بیڑے جو جدید ایٹمی سازو سامان سے لیس ہیں، موجود ہیں، اب بھی امریکہ ان ہی جہازوں سے چین سمیت کئی ممالک کی مانیٹرنگ کررہا ہے۔ طالبان کواب زیادہ آزمائشوں کا سامنا ہے، روزِاول سے ہی طالبان کی قیادت کو امریکی حکام نے اندھیرے میں رکھا ہے، افغانستان سے اپنی افواج کو نکالنے سے پہلے تک امریکی حکام طالبان دوحہ کے دفتر میں آتے رہے ہیں اور طویل دورانیے کے مذاکرات بھی کرتے رہے ہیں لیکن فضا یکسر تبدیل ہوگئی اور طالبان کو خفیہ مقامات سے نکال کر کابل شہر میںلایا گیا، طالبان کو خود یقین نہیں تھا کہ انہیں افغانستان کا اقتدار اس طرح مل جائے گا، اب صورت حال بالکل الگ ہے، کہا جارہا ہے کہ طالبان اگر پسپا ہونا بھی چاہیں تو وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ امریکہ نے طالبان کے ساتھ وہ کیا ہے جو وہ کابل میں رہتے ہوئے بھی نہ کرسکتا تھا۔ اب طالبان کے امریکہ سے تعلقات کب اچھے ہوں گے یہ فیصلہ کب ہوگا، کون کرے گا، افغانستان کو کیا ملے گا، کب ملے گا؟ اِن سوالات کے جوابات تشنہ رہیں گے۔
امریکہ کو کمزور کہنے والے اور اس کی بربادی کی دعائیں کرنے والے ممالک میں ابھی تک یہ ہمت نہیں آئی کہ وہ طالبان حکومت کو تسلیم کرلیں۔ چین، روس، ایران اور پاکستان افغان قوم کے غم میں مرے جارہے ہیں لیکن چاروں ممالک نے اب تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا، یہ کیسا دہرا معیار ہے؟ ادھر طالبان کا ایک محسن ملک بھی امریکی دبائو کی وجہ سے اب تک طالبان کی سرکار کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے، معلوم ہوا ہے کہ قطری حاکم کو کہہ دیاگیا ہے کہ جتنا کرنا تھا وہ کردیا ہے، اب احتیاط سے کام لیں بلکہ اگلے کچھ دنوں شاید طالبان دوحہ کے دفتر کو تالا بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ افغان عوام تو بے قصور ہیں لیکن اس کی سیاسی اکائیوں نے جس بے رحمی سے اپنے عوام کا مستقبل تباہ کیا ہے، وہ افغانستان کی تاریخ میں ایک جگہ ضرور پائے گا۔ طالبان بھی اپنی شریعہ کے نام پر جو کچھ افغان عوام کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں طالبان کے وہ عزائم بھی رقتہ رفتہ سامنے آنے لگے ہیں۔ طالبان اس وقت تاریخ کے اہم دوراہے پر کھڑے ہیں۔ انہیں تسلیم کرنے کے کہیں سے کوئی آثار نمایاں نہیں ہیں۔ ایسے میں افغانستان کا جھکائو بھارت کی طرف ہوتا نظر آرہا ہے۔ بھارت بھی چاہتا ہے کہ اسے کابل میں دوبارہ وہ مقام حاصل ہو جائے جو امریکہ کے اتحادی کے طور پرتھا، بھارت ہر لحاظ سے افغان عوام کو بہت کچھ دے سکتا ہے، اس کے وسط ایشیائی ریاستوں سے بھی تعلقات اچھے ہیں اور ایران کے ساتھ تو اس کی تجارت اب ایک مثال بن چکی ہے۔ بھارت ہر راستے سے افغانستان کی ہر طرح کی مدد کرنے پر آمادہ نظر آرہا ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیاکادہرا معیار کھل کر سامنے آگیا ہے،پاکستان اب کہاں کھڑا ہے کسی کو نہیں معلوم، ہمارے لیے ملکی خارجہ پالیسی واضح کرنا بہت ضروری ہے۔