خانہ بدوش یا بنجاروں کی زندگی ’’آج اس شہر میں، کل نئے شہر میں‘‘ کے مصداق ہوتی ہے۔ بستی بستی، گائوں گائوں کی خاک چھان کر روزی کمانا، کسی بھی شہر یا بستی کے مضافات میں خیمہ زَن ہونا، کچھ عرصہ ناچ گا کر، کھیل تماشے دِکھا کر روزگار حاصل کرنا اور پھر کسی نئی منزل کی طرف اپنے کارواں کا رُخ کرنا، یہی خانہ بدوش یا بنجاروں کا طرزِ زندگی ہوتا ہے۔
خانہ بدوش رقاصہ ہر دور میں برصغیر کی فلموں کا موضوع بنی۔ فلم کی ممتاز و مایہ ناز ہیروئنز نے خانہ بدوش رقاصہ کے کرداروں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے، لیکن اس نوعیت کے کرداروں میں غیرمعمولی پسندیدگی اور پزیرائی ان ہیروئنز کو ملی، جنہیں رقص میں خاص مہارت حاصل تھی۔
ہدایت کار سبطین فضلی کی معیاری نغمہ بار فلم ’’دوپٹہ‘‘ 1952ء وہ پہلی فلم تھی کہ جس میں فلم کی ہیروئن نورجہاں کو بہ طور خانہ بدوش رقاصہ پیش کیا گیا۔ کردار کی مناسبت سے فلم کے ابتدائی حصے میں ان پر متعدد رقوص بھی فلمائے گئے، لیکن سیکنڈ ہاف میں ان کے کردار کی نفسیات اور نوعیت قطعاً تبدیل ہو جاتی ہے کہ جب وہ اَجے کمار سے شادی رَچا کر ایک بچّے کو جنم دیتی ہیں اور غمِ دوراں و ہجرِ جاناں کے مراحل سے گزرتی ہیں۔ دُوپٹہ پاکستانی سینما کے ابتدائی دور کی اعلیٰ معیاری فلموں میں سے ایک تھی۔
ہدایت کار اشفاق ملک کی ہاتھی 1956ء کو پاکستان کی پہلی معیاری ایکشن فلم قرار دیا جاتا ہے، جس میں لالہ سدھیر نے ایکشن سے بھرپور عمدہ پرفارمنس دے کر خود کو جنگجو ہیرو تسلیم کروایا، جب کہ فلم کی ہیروئن مسرت نذیر نے ایک خانہ بدوش رقاصہ کے رُوپ میں فلم بینوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ مسرت نذیر جس قدر حسین اور پُرکشش تھیں،اسی قدر وہ فنّی صلاحیتوں سے مالا مال تھیں۔
اس پر کمال یہ کہ انہیں رقص میں بھرپور مہارت حاصل تھی۔ باغی کے لیے ان پر پکچرائز ان کے بہترین رقص سے سجا گیت ’’بالم تم ہار گئے جیتا میرا پیار‘‘ عوامی حلقوں میں بے حد مقبول ہوا۔ بعد ازاں مسعود پرویز کی جُداگانہ سبجیکٹ پر مبنی فلم ’’زہرعشق‘‘ میں بھی وہ بہ طور خانہ بدوش رقاصہ سامنے آئیں اور اپنی زندگی کی ناقابل فراموش پرفارمنس کے ساتھ اس کردار کو نبھایا۔ یہ ایک پیار کی پیاسی اور چاہت کی متلاشی خانہ بدوش دوشیزہ کا نفسیاتی نوعیت کا کردار تھا، جس میں مسرت نذیر نے اَن منٹ نقش چھوڑا۔ ان پر یکچرائز گیت ’’پل پل جُھومو جُھوم کے گائوں‘‘ پر ان کی ڈانسنگ پرفارمنس قابل دید تھی۔
دَرپن پروڈکشنز کی کاسٹیوم مووی ’’گلفام‘‘ میں بھی مسرت نذیر پھر ایک خانہ بدوش رقاصہ کے کردار میں پیش کیا گیا، جس میں مسرت نذیر نے تین مختلف نغمات پر ہوش ربا رقص پیش کر کے فلم کی کام یابی میں بھرپور حصہ ڈالا۔ ان پر پکچرائزڈ رقص سے لبریز نغمات میں (1) حضور دیکھیے ضرور دیکھیے۔ (2) آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھا نہ کیجیے اور (3) مشکل ہے میری نظر کے تیر سے بچنا۔ شامل تھے۔ ہدایت کار قدیر غوری کی نغمہ بار فلم ’’موسیقار‘‘ جسے عظیم موسیقار رشید عطرے نے پروڈیوس کیا تھا۔ اس فلم کی ہیروئن صبیحہ خانم نے سڑکوں اور چوراہوں پر ناچ کر روزی کمانے والی خانہ بدوش لڑکی کا کردار ادا کیا تھا،جس کی پرفارمنس سے متاثر ہو کر تھیٹر کا ایک معروف گائیک سانول یعنی سنوتش کمار اُسے تھیٹر میں انٹروڈیوس کروا کر ملک کی مشہور و معروف فن کارہ بنا دیتا ہے۔
صبیحہ خانم پر پکچرائزڈ گیتوں میں (1) گائے کی دُنیا گیت میرے۔ (2) جاجا میں تو سے نہ ہی بولوں اور (3) تم جگ جگ جیو مہاراج رے… پر صبیحہ خانم کو بے حد سراہا گیا۔ مسرت نذیر کی طرح نیلو کو بھی فن رقص میں بھرپور مہارت حاصل تھی، یہی وجہ ہے کہ انہیں متعدد بار ’’خانہ بدوش رقاصہ‘‘ کے کرداروں میں پیش کیا گیا۔ ہدایت کار رضا میر کی فلم ’’بیٹی‘‘ 1964ء میں انہوں نے اس کردار کو عمدگی سے نبھایا اور ان پر پکچرائز گیت چھن چھن چھن۔ چھناناچھن چھن۔ بچھوا بولے… پر ان کی رقص پرفارمنس کو بے حد پسند کیا گیا۔
ہدایت کار مقصود احمد کی ’’نغمہ صحرا‘‘ میں بھی وہ ایک خانہ بدوش رقاصہ تھیں۔ آئرین پروین کے گائے ہوئے گیت ’’تیرے آنے سے ہوئی محفل میری آباد،چشم ماہ روشن دل ماشاد‘‘ پر ان کا رقص قابل دید بھی تھا اور قابل داد بھی۔ ہدایت کار اشرف کی ’’رقاصہ‘‘ میں بھی وہ اسی نوعیت کے کردار میں جلوہ گر ہوئیں۔ زمرد یوں بہ طور ساتھی اداکارہ زیادہ کام یاب رہیں، لیکن چند فلموں میں انہیں بہ طور ہیروئن بھی آزمایا گیا، جن میں ہدایت کار رزاق کی ’’کٹاری‘‘ بھی شامل ہے۔ اس میں زمرد نے ایک خانہ بدوش رقاصہ کا کردار بہ حُسن و خوبی نبھایا تھا۔
ان پر پکچرائزڈ گیت ’’بنسی بجائی تو نے نندیا اُڑائی تو نے‘‘ پر زمرد کا رقص قابل داد تھا۔ پاکستانی سینما کی سب سے بہترین رقاصہ ہیروئن اداکارہ رانی کو ہدایت کار حسن طارق نے اپنی سوشل تصویر ’’بہن بھائی‘‘ میں ایک خانہ بدوش دوشیزہ کے کردار میں پیش کیا۔ ’’نین کٹاری جیسے‘‘ بول پر مبنی گیت میں رانی نے عمدہ رقص کا مظاہرہ کیا۔ پاکستانی سینما کی سب سے مقبول اور سب سے کام یاب فن کارہ ’’شبنم‘‘ نے بھی معتدد فلموں میں خانہ بدوش رقاصہ کا کردار ادا کیا، جن میں فلم ’’افشاں‘‘ ہدایت کار شریف نیر کی ’’ناز‘‘ اور ہدایت کار محسن شیرازی کی ’’بادل اور بجلی‘‘ شامل ہیں۔ فن رقص میں شبنم کو کوئی قابل ذکر مہارت حاصل نہ تھی۔
اس لیے وہ رقص کے شعبے میں متاثر کن کارکردگی دکھانے سے ہمیشہ قاصر رہیں، لیکن رقص سے ہٹ کر کسی بھی نوعیت کے کرادر کی ادائیگی میں وہ کمال مہارت سے مثالی کارکردگی پیش کیا کرتی تھیں۔ ’’بادل اور بجلی‘‘ میں بہ طور خانہ بدوش رقاصہ ان کے رقص تو ایوریج تھے، لیکن ان پر فلمبند نغمات (1) بنسی بجانے والے اور (2) گلیاں گلیاں ڈھونڈھ چکی‘‘ بے حد پاپولر ہوئے۔ اُردو اور پنجابی فلموں کی یکساں مقبول فن کارہ ’’عالیہ‘‘ کو فن رقص میں بھرپور عبور حاصل تھا۔
اس لیے انہیں جب ہدایت کار خلیفہ سعید کی سوشل میوزیکل فلم ’’دولت اور دُنیا‘‘ میں خانہ بدوش لڑکی کے رُوپ میں پیش کیا گیا تو انہوں نے تہلکہ خیز پرفارمنس دی۔ (1) میں بجلی میں شعلہ، (2) او دل اور (3) جام سے جام ٹکرا لے جیسے گیتوں پر ان کی پرفارمنس کا گرف بہت اُونچا رہا، بالکل اسی طرح اقبال اختر کی ’’انہونی‘‘ میں بھی ان کا کردار اسی نوعیت کا تھا، جس میں عالیہ نے شان دار کارکردگی پیش کی۔ ان پر پکچرائزڈ گیتوں (1) لوکی کہندے نے مینوں چھپن چھوری (2) دل کی دھڑکن پکارے تیرا نام سجناں میں ان کی رقص پرفارمنس عمدہ اور بھرپور تھی۔
ہدایت کار حسن طارق کی ’’دلربا‘‘ میں بھی رانی کا کردار ایک خانہ بدوش رقاصہ کا تھا، جس میں انہوں نے متعدد نغمات پر جاندار ڈانسنگ پرفارمنس دی، لیکن یہ فلم باکس آفس پر ڈیڈ فلاپ ثابت ہوئی۔ رانی کی طرح ممتاز بھی فن رقص میں کامل تھیں۔
انہوں نے بہ طور خانہ بدوش رقاصہ کوشش، پرستش اور آگ اور زندگی میں عمدہ کارکردگی دکھائی۔ بالخصوص کوشش، کا گیت (1) بجلی بھری ہے میرے اَنگ اَنگ میں‘‘ پر تو ان کی پرفارمنس کا جواب ہی نہیں۔ مایہ ناز فن کارہ آسیہ نے ’’پنوں دی سسی‘‘ اور ’’میں بھی تو انسان ہوں‘‘ میں اسی قبیل کےکرداروں میں ناقابل فراموش کارکردگی کے مظاہر پیش کیے۔