گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کا 54واں یوم تاسیس تھا۔ لاہور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ 30نومبر 1967کو اسی شہر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی، یہ پاکستان کی پہلی سیاسی جماعت تھی جس کا قیام ایک نظریے اور پروگرام کے تحت عمل میں آیا۔ اس کنونشن میں ایک دستاویز ’’ایک نئی جماعت کیوں؟‘‘ پیش کی گئی جس میں اس کے محرکات کو اجاگر کیا گیا۔ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے رفقاء نے پاکستان کے حالات اور عوام الناس کی ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک ایسا انقلابی منشور ترتیب دیا جو پاکستان کے محروم طبقات کے دل کی آواز بنا۔ (1)اسلام ہمارا دین ہے (2)جمہوریت ہماری سیاست ہے۔ (3)مساوات ہماری معیشت ہے۔ (4)طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ اس عوامی جماعت کے بنیادی اصول ٹھہرے۔
پہلا اصول اِس بات کا برملا اظہار ہے کہ پاکستان کے جمہور کا تعلق اسلام سے ہے۔ لہٰذا بحیثیت مسلمان ہر فرد اپنے خُدا کو جوابدہ ہے اور وہ یہ اختیار رکھتا ہے کہ اپنے دین کو اپنی ذات پر نافذ کرے۔ کوئی جماعت، گروہ یا ریاست یہ اختیار نہیں رکھتی کہ وہ اپنی مرضی کا اسلام دوسروں پر نافذ کرے۔ اس اصول کے تحت پاکستان میں ہر فرد کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو تاکہ وہ اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزار سکے اور غیرمسلموں کوبھی ریاست میں مساوی حقوق حاصل ہوں جس کا اظہار محمد علی جناح نے پہلی دستور ساز اسمبلیسے خطاب میں کیا تھا۔ جناح صاحب کے نزدیک پاکستان کا مستقبل تھیو کریسی نہیں بلکہ اسلامی فلاحی ریاست تھاجس کے پیشِ نظر پیپلز پارٹی کا یہ نکتہ نہایت اہم ہے کہ دین اسلام کی سلامتی اور امن کے اصولوں کو معاشرے پر نافذ کیا جائے۔
دوسرے اصول کے تحت جمہوریت کو سیاست قرار دیا گیاکیونکہ پیپلز پارٹی کے قیام کے وقت دو دہائیاں گزرنے کے باوجود پاکستان کے عوام جمہوریت کے نظام سے نا بلد، کاروبارِ ریاست سے لا تعلق اور بنیادی حقوق سے محروم تھے۔ مخصوص ادارے اور خاندان ہی حقِ حکمرانی رکھتے تھے۔ لہٰذا پیپلز پارٹی نے جمہوریت کو سیاست کی بنیاد قرار دیا تاکہ عوام کواُن کے مقدر کا مالک بنایا جا سکے۔ اسی اصول کے تحت یہ طے پایا کہ پاکستان میں اس حق کیلئے جدو جہد کی جائے کہ حکومت کا انتخاب اور خاتمے کا اختیار عوام کو حاصل ہو اور ریاست کے تمام ادارے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کریں۔
تیسرا اصول ریاست کی معیشت کے متعلق تھا کہ ملک میں دولت کا ارتکاز چند خاندانوں تک محدود ہو چکا تھا اسے ختم کیا جا سکے کیونکہ ان دو دہائیوں میں دولت بیس خاندانوں تک محدود ہو کر رہ گئی تھی اور ریاست ان با اثر خاندانوں کے زیر اثر تھی۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو تا جا رہا تھا۔ ریاست عوام کو تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے سے بھی قاصر تھی۔مساوات ہماری معیشت ہے کا بنیادی مقصد عوام کو یکساں مساوی، معاشی حقوق پہنچانا تھا۔ جناح صاحب نے بھی تحریک پاکستان کے دوران مساوات اور اسلامی سوشلزم کی اصطلاح استعمال کی۔ پیپلز پارٹی نے اسے معیشت کی بنیاد بنایا جیساکہ نبی اکرم ؐ نے ہجرت مدینہ کے موقع پر مواخات کے ذریعے امیر اور غریب کے درمیان معاشی مساوات کا فلسفہ اجاگر کیا تھا۔ پیپلزپارٹی کا معاشرتی نظام در اصل مساواتِ محمدی ؐ کا مظہر ہے۔ جس پر ہر فرد کو یکساں معاشی حقوق حاصل ہوں اور ریاستی وسائل کا رُخ عام آدمی اور پسے اور کچلے طبقات کی طرف ہو تاکہ معاشرے کو طبقات کی تقسیم سے پاک کیا جاسکے۔
چوتھا اصول طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں، در اصل پیپلز پارٹی کے پروگرام کی روح ہے یعنی عوام ہی ریاست کے اصل مالک و مختار ہوں تاکہ ایسا نظام وضع ہو جس کے تحت عام آدمی اپنے نمائندے خود منتخب کرے اور عام آدمی کی نمائندگی اقتدار کے ایوانوں میں ہو۔ ملک کا آئین عوام کی خواہشات کے مطابق ہو جو ان کو حقوق فراہم کرے اور ان کا تحفظ کرے۔ ملک کی پالیسیاں عوام کی فلاح و بہبود کو مد نظر رکھ کر بنائی جائیں تاکہ پاکستان میں خلق خُدا کا راج قائم کیا جا سکے۔
ان رہنما اصولوں کے تحت پیپلز پارٹی نے جدو جہد کا آغاز کیا اور پاکستان کے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد بھٹو صاحب کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے پاکستان کو پہلا آئین دیا جو اسلامی، جمہوری اور وفاقی آئین تھا جس میں عوام کو ترقی یافتہ ممالک کی طرح تمام بنیادی حقوق فراہم کئے گئے تھے۔اسی جدو جہد کے ذریعے پہلی دفعہ اقتدار کے ایوانوں میں عام اور غریبعوام کو رسائی حاصل ہوئی۔ عوام کو مفت تعلیم اور علاج کی سہولتیں میسر آئیں۔ زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیرداری کے خاتمے کا آغاز ہوا۔ لاکھوں لوگوں کو اندرون اور بیرون ملک روزگار فراہم کیا گیا جس سے لوگوں کا معیارِ زندگی بلند ہوا۔ اسلام کے پر امن بقائے باہمی کے اصول کے تحت اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقادپاکستان میں ہوا جس میں پہلی مرتبہ تمام مسلم ممالک کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملا اور ان کے درمیان شاندار اتحاد دیکھنے کو ملا۔ پیپلز پارٹی کا اپنے اصولوں کے تحت جدوجہد کرتے ہوئے عوام کے حقوق کی جنگ لڑنا کوئی آسان کام نہ تھا کیونکہ جن طاقتوں کے خلاف پیپلز پارٹی نے عوام کی طاقت کو یکجا کیا تھا وہ طاقتیں پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے در پہ ہو گئیں۔ اسی لئے ذوالفقار علی بھٹو کے بعد شاہ نواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور محترمہ بےنظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا تاکہ عوام کے حقوق کی اس جدوجہد کو روکا جا سکے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور عوام کا مقدر ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان کی سیاست کا پیپلز پارٹی کے بغیر تصور بھی نہیں کیا جاسکتا پاکستان کا سیاسی کلچر اور سیاسی ارتقاء پیپلز پارٹی کے ہی مرہونِ منت ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زردای کی قیادت میں پیپلز پارٹی اپنے منشور پر عمل پیرا ہے اور یہ قافلہ رواں دواں ہے۔