• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِدھر ٹی وی پر کامیاب نوجوان پروگرام کی تشریح، اُدھر ہر سڑک پہ موٹر سائیکلیں لئے بہت سے لڑکے، ہر چوک میں کھڑے تھے۔ میں نے ان کے پاس جاکر پوچھا ’’کیا کوئی جلوس نکالنے کا ارادہ ہے‘‘؟ کھسیانے سے ہوکر بولے ’’پیٹرول مہنگا ہے۔ لوگ ٹیکسی نہیں کر سکتے۔ ہم نے یہ پلان بنایا ہے کہ ہم انہیں منزل پہ پہنچا دیا کریں گے، وہ ہمیں پیسے دے دیں گے۔ یوں ہمارا کچھ تو روزگار لگ جائے گا‘‘۔ مجھے باغ (کشمیر) کا علاقہ یاد آیا۔ وہاں ایک شخص اپنے گائوں کے ہر گھر سے پوچھ کر اتنا سامان لا دیتا تھا۔ یوں وہ اپنی روزی کما رہا تھا۔ اب صاف پانی کی سبزیاں بارہ کہو اور بنی گالا کے چھوٹے کاشت کار صبح سویرے لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہم جیسے دور رہنے والے وہ سبزیاں خریدنے جاتے ہیں۔

دنیا میں کامیاب نوجوان پروگرام دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک تو سینئر ماسٹر پڑھنے کے لئے حکومت سے قرض لیتے ہیں اور اپنا کورس مکمل کرنے کے بعد، قسطوں میں پیسے واپس کرتے ہیں۔ ایک اور طریقہ ہے کہ ٹیکنیکل تعلیم کے لئے فیکٹریوں میں موجود اسامیوں پر نوجوانوں کو تربیت کے لئے رکھا جاتا ہے۔ ان کو وظیفہ حکومت کی طرف سے ملتا ہے۔ کورس مکمل کرنے پر باقاعدہ ملازمت وہیں یا کہیں اور مل جاتی ہے کہ یہ زمانہ سرکاری نوکریوں کا نہیں ہے،سائنسی اور کمپیوٹرائزڈ بزنس کا ہے۔ ہمارے بچے ابتدائی کمپیوٹر کورس کرکے نوکری مانگتے ہیں۔ یوں نوکریاں نہیں ملتی ہیں۔ اب دیکھئے ناں کوروناکے زمانے میں بہت سے لڑکے شیف بنے ہوئے ہیں۔ فوڈ پانڈا کے نام کے ڈبے آپ کو شہر شہر نظر آتے ہیں۔ بمبئی میں ناشتے دان اکٹھے کرکے ریڑھی میں لے جاتے اور نوکری پیشہ لوگوں کو گھروں کا کھانا پہنچا دیا کرتے تھے۔ اب تو ہمارے ملکوں میں ڈھابے، سستا کھانا فراہم کرتے ہیں۔ کئی گریجویٹ لڑکےدفتروں اور کالجوں کے سامنے بریانی اور برگر کا سوزوکی ڈبہ لئے موجود ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ زیادہ تر خواتین گھر پر ہی بناتی ہیں، جتنے بھی گول گپے کے ٹھیلے آپ کو نظر آتے ہیں یا دال چاول کی ریڑھیاں، وہ گھروں ہی میں خواتین تیار کرتی ہیں۔ وہ الگ معاملہ ہے جو بوتیک ہیں، انہوں نے بھی خواتین کو ملازم رکھا ہوا ہے اور سب کامیاب ہیں۔ ہم لوگوں نے دیہات میں لڑکے، لڑکیوں کو بجلی کے سوئچ لگانے، پنکھا ٹھیک کرنے اور ٹریکٹر کی مرمت کے کورسز کروائے تھے۔ وہ بے پناہ کامیاب ہوئے۔ پہلے ہر پرزے کے لئے شہر آنا پڑتا تھا۔ اب اپنے ہی علاقے میں دکانیں اور ورکشاپس کھول لی ہیں۔ اس تربیت کے بعد، اب نوجوانوں میں دوسرے ملکوں میں نوکری کی طلب کچھ کم ہوئی ہے۔ ختم نہیں ہوئی۔ سبب یہ کہ وہاں کام زیادہ ہے تو تنخواہیں بھی زیادہ ہیں۔

ہمارے ریٹائرڈ پروفیسرز اور ادیب بھی، دنیا کی طرح نوجوانوں کو افسانہ، مضمون اور تنقید لکھنا سکھا سکتے ہیں اور وہ بھی کمپیوٹر پر۔ وہ سب سیکھ کر دوسروں کو پروفیشنل طریقے سے اپنے روزگار کو مستحکم کرسکتے ہیں۔ مگر سوچیں تو اردگرد کتنے پڑھے لکھے لوگ موجود ہیںجن کی ذہانت پر اعتماد اور فخرکیا جا سکتا ہے۔ نظر دوڑائو تو روز بروز خلا بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔

چند ہی دنوں میں فیصل آباد کے بے مثل ادیب انور محمود خالد رخصت ہوگئے۔ ابھی ان پہ باقاعدہ کالم لکھنے کا سوچا تو لاہور سے خبر آئی کہ ہمارا بہت پیارا شخص اور شاعر، آنکھوں کا ماہر ابھی تو ریٹائر ہوکر اپنا کلینک کھولا تھا کہ خاموشی سے ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا۔ ابھی تو گزشتہ برس اس کو بہترین شاعر کا پی بی ایل انعام ملا تھا۔ روز دھڑکا لگا رہتا تھا کہ ہمارے اس وقت کے سب سےسینئرصحافی وینٹی لیٹرپر تھے۔ وہ نیشنل پریس کلب میں جمعہ کے جمعہ جدید خیالات کے ادیبوں، صحافیوں اور نوجوان لوگوں سے ملاقات کرتے، گفتگو کرتے۔ یوں بڑا اچھائی ہائوس کی طرح کا مرکز بنادیا تھا۔ انہوں نے الوداعی سلام بھی نہیں کیا۔ ہر وقت رحمان صاحب کے ساتھ ہوتے تھے۔ پہلے ایک دن صبح وہ نہیں اٹھے، یہی فیصل آباد میں زمان خان نے ہمارے ساتھ سلوک کیا۔ جانے کی اطلاع خبر کے ذریعہ دی اور راہ عدم لی۔ پشاور اور ہمارے چھوٹے شہروں کے بڑے لکھنے والے کورونا کے ہاتھوں چڑیوں کی طرح اڑ گئے۔ ادب کا دامن تو پہلے ہی انتظار صاحب کے جانے کے بعد ویرانیاں لئے آگیا تھا۔ علی گڑھ سے خبر آئی کہ ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی لکھتے لکھتے بغیر کچھ کہے چلے گئے۔ اب میرے پاس چند ادیب اس اہلیت کے ہیں کہ نوجوانوں کو شعر و ادب کی تاریخ، سیاسی محاکات کھول سکیں۔ ہمارے ڈاکٹر مبارک علی ہیں کہ آنکھوں کی روشنی ختم ہونے کے باوجود روزانہ تاریخی موضوعات اور شخصیات کے پردے اٹھاتے، اپنی بیٹی کو لکھواتے تو کبھی موبائل پر ایسے لیکچر دیتے ہیں کہ تسلسل میں کوئی جھٹکا نہیں ہوتا ۔ اشفاق سلیم مرزا کے اسلام آباد سے جانے کے بعد، کسی پڑھے لکھے کی تلاش ریت میں موتی تلاش کرنے والی بات ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین