’’تخلیق کار اپنی ہر تخلیق سے عشق کرتا ہے، کیوں کہ وہ اُس کی ذات کا مظہر ہوتی ہے۔ خالق اپنی تخلیق میں خود بھی کہیں نہ کہیں پوشیدہ ہوتا ہے۔‘‘چارسال قبل جب وہ حالات سےدل شکستہ تھی، تو اپنے خیالات ایک تخلیق کار کی زبان سے سُن کر اس کو کس قدر تقویت ملی تھی۔ اور بس، یہی اُس کی زندگی کا نقطۂ انقلاب تھا۔ تب ہی سے اُس نے اپنے ظاہر و باطن میں توازن لانے کی کوششیں شروع کردی تھیں۔
شروع شروع میں جب اُس نے عملی زندگی میں قدم رکھا، تو اُسے بہت کچھ سہنا پڑا تھا۔ وہ اگر مہمل باتوں پہ کھوکھلی ہنسی ہنستے لوگوں کی محفل کا حصّہ بنتی تو خود بہت مُردہ دلی سے وہاں سے اٹھتی اوراگرنہ بنتی تو عزیزواقارب کےطنز وتنقید برداشت کرناپڑتی۔ اُسے’’مغرور، خبطی، پاگل‘‘ اور نہ جانے کیسے کیسے القابات سے نہیں نوازا گیا۔ لیکن… پھر بابا محمّد علی کی باتوں نے اُسے محبّت نگر کا باسی بنا دیا۔ اور جب سے اُس کے تَن مَن، جسم و جاں میں یہ جذبۂ محبّت حلول کیا تھا، تب سےتو اُس میں اِک عجب سی کشش پیدا ہو چُکی تھی، جو ہر اِک ہی کو اس کی جانب متوجّہ کرتی، کھینچتی چلی جاتی تھی۔ اُس کے اندر، باہر میں ایک توازن پیدا ہو چُکا تھا۔ واقعی سوچ کا زاویہ جب بدلتا ہے،توہرمنظر ایک نئے رُوپ کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ اُس کے خیالات کا تسلسل سدرہ کی آواز سے ٹوٹا۔
’’میم! کچھ لوگ آئے ہیں۔ ہمارے فلاحی و رفاہی اسکول کے حوالے سےکوئی ڈاکیو مینٹری بنا رہے ہیں اوراس سلسلے میں آپ سے ملنا چاہتےہیں۔‘‘’’جی… آپ بھیج دیں اُنھیں۔‘‘اسراء نے کرسی پہ بیٹھتے ہوئےجواب دیا۔
………٭٭………
مسلسل تیسری رات تھی اورمَیں وہی خواب دیکھ رہا تھا۔ غادہ کا مجھے مسلسل خبردار کرنا۔ اُس کے چہرے پہ کرب کے وہی آثار تھے۔’’جانے وہ مجھے کس کےحوالے سےخبردار کر رہی ہے۔‘‘ مَیں اِسی سوچ میں غلطاں و پیچاں تھا کہ دروازے پہ دستک ہوئی۔
’’السّلامُ علیکم رسیم صاحب!‘‘ دروازے میں کھڑی لڑکی نے اُسے سلام کیا۔ ’’وعلیکم السّلام! معاف کیجیےگا، مَیں نے پہچانا نہیں آپ کو…؟‘‘ ’’نایاب کو تو جانتے ہوں گے آپ؟‘‘ اُس نےسوال کیا۔ مجھے اک لمحہ بھی ذہن پہ زور ڈالنےکی ضرورت نہیں پڑی۔ ’’ہاں، ہاں وہ مَن چلی لڑکی… میری پینٹنگز کی دیوانی۔‘‘ مَیں مُسکرا اُٹھا۔ ’’روئے زمین پہ وہ واحد ہستی ہے، جسےمَیں نے اپنی پینٹنگز گفٹ کیں۔ وگرنہ مَیں تو لاکھوں کی آفرز بھی ٹُھکرا دیا کرتا ہوں۔ ہاں مگر اُس کادیوانہ پَن، جنون دیکھ کر مَیں اُسے انکار نہیں کر پایا۔‘‘
’’جی… وہ واقعی آپ کے فن کی دیوانی تھی۔‘‘ آنے والی لڑکی نے قدرے ٹھہر ٹھہر کر بہت بُجھے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’کیا مطلب تھی… اب کہاں ہے وہ؟‘‘مجھے تشویش لاحق ہوئی۔ ’’رسیم صاحب! اُن کا چند روز قبل انتقال ہو گیاہے، برین ٹیومر تھا اُنھیں۔ وہ کئی سال کینسر سےجنگ لڑنے کے بعدبالآخر ہار گئیں۔‘‘ لڑکی کا لہجہ بالکل سپاٹ تھا۔ کرب کی ایک شدید لہر میرے سینے میں اُٹھی۔ پرندوں، بہاروں پہ نظمیں لکھنے والی وہ ہنستی مُسکراتی لڑکی، جسے میں خود ’’بہار کا پرندہ‘‘ کہتا تھا، اچانک ہی پوری شدت سے میرے ذہن میں اُبھری۔ وہ شرارتی سی لڑکی۔ کتنا کچھ سہہ کر وقت سے پہلے رخصت ہو گئی۔
’’یہ آپ کی تمام پینٹنگز، اور یہ ڈائری نایاب نے مجھے آپ کے سپرد کرنے کا کہا تھا۔‘‘ اجنبی لڑکی نے تمام سامان میرے حوالے کیا۔ مجھ پہ تو جیسے سکتہ طاری ہو چُکا تھا۔ غادہ کا وہ میرے خواب میں آ آ کر مجھے وقت کی غادہ کے حوالے سے خبردار کرنا۔ ’’تمہارے وقت کی غادہ بھی وقت سے پہلے ہی دنیا سے جا رہی ہے۔‘‘ اُس وقت مَیں نہیں سمجھا تھا کہ میرے وقت کی غادہ کون ہے۔
مَیں نے اُس کی ڈائری کھول کر پڑھنا شروع کیا۔
’’دھندلے عکس!
معرفت کی پیاسی روحیں جب اپنے مَن کے سفر پہ روانہ ہوتی ہیں تو اُن کا مَن، اُن کے سامنے دھندلے عکس کی صُورت اُبھرتا ہے۔ اور یہ متلاشی لوگ بھی دنیا کے لیےدھندلے عکس ہی ہیں۔ وہ کبھی اِن کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے، لیکن اِن متلاشی لوگوں کےلیےمَن کا یہ عکس ہمیشہ دھندلا نہیں رہتا۔ اندر کے سفر کو جاری و ساری رکھنے کے لیے احساسات کو اپنی روح کے پور پور میں پیوست کرنا پڑتا ہے۔ غم کی ٹھوکریں سہہ کر اپنا خول توڑنا پڑتا ہے تاکہ اندر کا عکس واضح ہو۔ اور پھر سفر کو مزید آگے بڑھانے کے لیے قدم قدم پہ ضبط کے گھونٹ پینے پڑتے ہیں۔ روح کے عکس سے دھند چَھٹ جاتی ہے۔ منظر صاف ہونے لگتا ہے۔ انسان کی شخصیت میں وہ ٹھہراؤ آجاتا ہے کہ فرشتے رشک کرنے لگتے ہیں۔‘‘
اتنی کم عُمری میں یہ انکشافات یقیناً وہ کرب و الم کے کئی جہانوں سے گزری ہوگی۔ غادہ کی لاحاصل تمنّا کی صُورت مجھے بھی تو یکتائی عطا کردی گئی تھی۔ مَیں بھی اپنی وحشتوں کو بُھلا کر جذبات کو سمجھنے کے قابل ہوچُکا تھا۔ سو، مَیں سمجھ سکتا تھا کہ معرفت کے جہاں، بنا غم کبھی عیاں نہیں ہوتے۔ جب تک اوپر کا خول ٹوٹ کر ریزہ ریزہ نہ ہو جائے، اندر کا عکس واضح نہیں ہو سکتا۔
………٭٭………
’’آئیے، تشریف رکھیے۔ ہمارے اِس گھر میں خوش آمدید!‘‘ ’’بہت شکریہ اسراء صاحبہ۔ جیسے آپ نے کم وقت میں اس ادارے کی پرورش کی ہے، یہ کسی عالی شان، بے مثال گھر کی مانند ہی ہے۔‘‘ ’’یہ سب تو اُس ذات کی مہربانی ہے۔ ہم تو صرف وسیلہ ہیں، اُس کے غلام ہیں۔ اُس کے حُکم کے پابند۔‘‘اسراء کی ذات سے نکلنے والی مثبت لہروں سے کوئی بھی فیض یاب ہوئے بنا نہیں رہ سکتا تھا۔ محبّت نے اُس کی ذات کو نور کے ایک ہالے میں بدل ڈالا تھا۔ جو بھی اِس حصار میں آتا، خود کو انتہائی قیمتی محسوس کرتا۔ یہ مثبت لہریں سامنے والے کی منفی لہروں کو خود میں جذب کر کے اُسے خوب سے خوب تر بناتی چلی جاتی تھیں۔
’’ماشااللہ آپ کی شخصیت کا ٹھہراؤ، آپ کی عاجزی… یہی وہ خوبیاں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ کام لیا۔‘‘ اُن میں سے ایک خاتون گویا ہوئی۔ ’’دراصل ہم ایک اہم کام کے سلسلے میں آپ کی اجازت چاہتے ہیں۔‘‘ ایک صاحب نے آنے کا مقصد بتایا۔ ’’چوں کہ اب دَور الیکٹرک میڈیا اور سوشل میڈیا کا ہے، تو ہم کسی بھی میدان میں مثبت سرگرمیوں کے فروغ کے لیے، اپنی مدد آپ کے تحت اہم کردار ادا کرنے والوں سے متعلق ڈاکیومینڑیز وغیرہ بناتے رہتے ہیں تاکہ دیگرافراد بھی ایسے نیک کاموں کی طرف متوجّہ ہوں۔ سوشل میڈیا اگر لوگوں کی زندگیوں میں بہت منفی اثرات مرتّب کر رہاہے، تو ایسے میں ہم اُنھیں خصوصاً نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’ماشااللہ۔ اللہ برکت عطا کریں، آپ کے اس نیک کام میں۔‘‘ اسراء کا انداز نہایت عاجزانہ تھا۔ ’’تو ہمارے یہاں آنے کا مقصد، آپ کے اس ادارے سے متعلق ڈاکیومینڑی بنانا ہی ہے، اُمید ہے آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔‘‘ آنے والوں میں سے ایک نے پورا مدعا بیان کیا۔
’’دیکھیے، ہم تشہیری کاموں سے حتی الامکان پرہیز کرتے ہیں۔ کیوں کہ ہم چند ہی لوگوں کا تو یہ گروپ ہے اور ہم سب، اپنی مدد آپ کے تحت، اپنی خوشی کی خاطر یہ سب کر رہے ہیں، لیکن جیسا کہ آپ لوگوں نے بتایا کہ آپ کا مقصد نیک ہے، تو مَیں آپ کو روک نہیں سکتی۔ آپ جب چاہیں ڈاکیومینڑی بنا سکتے ہیں۔‘‘ اسراء نے اُنھیں اجازت دیتے ہوئے کہا۔ ’’بہت شکریہ اسراء صاحبہ! آپ جیسے لوگوں کی بہت ضرورت ہے ہمیں۔ اس دنیا کو ایک حسین جگہ بنانے کے لیے۔‘‘ بات کرنے والے صاحب کا انداز بہت ممنونیت بَھرا تھا۔
………٭٭………
’’میرا مرثیہ!
زمین کی مامتا میرے جسم کو اپنی آغوش میں سمیٹ کر بھی غم زدہ ہے۔ اُسے مجھ سے کوئی غرض نہیں، بس میری بےچین روح کا جسم سے بچھڑ کر آسمان پہ چلا جانا، اُس کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ اُسے میری جُدا سی، بےچین روح سے محبّت ہو چُکی تھی، جو اپنی منزل کی تلاش میں زمین کے ہر کونے پہ در بدر بھٹکتی رہتی تھی۔ زمین پہ اب بھی کئی روحیں موجود ہیں، مگر میری روح کی جدائی اُس کے لیے کرب کا باعث بن چُکی ہے۔ وہ دیوانہ وار آسمان کی طرف نگاہیں کر کے مجھے ویسے ہی تلاش کر رہی ہے، جیسے میں اُس پہ چلتے ہوئے اپنی منزل کو تلاشتی رہتی تھی۔
زمین کے اِس دُکھ پہ آسمان بھی غم گین ہے۔ شاید جدائی کی یہ اذّیت کبھی اس نے بھی سہی تھی، تب ہی وہ زمین کے دُکھ میں شریک خُوب اشک بہا رہا ہےاور یہ اشک بارش کی بوندوں کی صُورت زمین کو بھی بھگو رہے ہیں۔ میرے گھر کے صحن میں گرتی بارش کی یہ ننّھی ننّھی بوندیں شاید کسی چہرے کی راہ تک رہی ہیں، اُس چہرے کی،جو ہونٹوں پہ مُسکراہٹ سجائے، ہاتھ میں چائے کا پیالہ پکڑے، گہری سوچوں میں گم اُنھیں آکر اپنا دیدار کروائے… مگر صحن کو خالی پا کر اُنھیں اُس کی جدائی شدّت سے محسوس ہو رہی ہے، تب ہی تو وہ بوندوں سے موسلا دھار برکھا میں تبدیل ہوچُکی ہیں۔
اور… وہ مجھ سے شناسا پرندے، جو گھنٹوں درختوں پہ بیٹھے مجھے تکتے رہتے تھے۔ فضائیں اُن کی چہچاہٹ سے مسحور ہوئی جاتی تھیں، جانے کیوں آج اس قدر خاموش ہیں۔ وہ خُوب صورت سی بلبل، جس کاگیت میرے پورےدن کو خوش گوار کردیا کرتا تھا، آج اُس کا وہ من موہنا گیت نہ جانے کیوں، ایک پُرسوز نالےمیں ڈھلا ہوا تھا۔ غروب ہوتا سورج بھی آج کسی شدید دُکھ کے بوجھ تلے محسوس ہو رہا ہے، جیسے کوئی بوڑھا باپ اپنے جوان بیٹے کے لاے کو کندھا دے کے لوٹا ہو۔ مجھے اداس شامیں بہت پسند تھیں، لیکن… آج تو شام اداس ہی نہیں، ماتم زدہ لگ رہی تھی۔
چاند ہمشہ کی طرح بےشمار ستاروں کے جھرمٹ میں ہو کر بھی تنہائی کی ہم راہی میں فلک پہ بھٹک رہا ہے۔ اُسے مجھ سے، مجھے اُس سے عجیب سی عقیدت جو تھی، شاید اس عقیدت کی وجہ ہم دونوں کا ہجوم میں ہو کے بھی الگ ہونا ہی تھی۔ مَیں رات کے کتنے پہر، اُسے تکتے تکتے ہی گزار دیتی تھی، لیکن آج اُسے دیکھ کر محسوس ہو رہا ہے، جیسے اِس تنہا چاند نے اپنے کسی عزیز ترین ساتھی کو گنوا دیا ہے، اب شاید وہ کبھی اپنے زمینی ساتھی کو دیکھ نہیں پائے گا۔
لیکن… یہ زمین زادے، میرے ہم نفس، آج بھی مجھے پہچاننے، سمجھنے سے انکاری ہیں۔ مجھے مٹّی کے حوالے کرنے کی رسم میں شریک اپنی ہی سوچوں میں مصروف جلدی جلدی تمام رسومات ادا کر رہے ہیں تاکہ پھر سے معمولات زندگی میں مصروف ہوسکیں۔ ان کے لیے مَیں ہمیشہ ایک اَسرار ہی رہی ہوں، وہ اَسرار، جسے کسی نے سمجھنا بھی نہیں چاہا۔ یوں بھی مَیں اِن کی سوچوں کی آخری حد سے بھی پرے تھی، تو وہ کیسے مجھے جان پاتے۔ ہاں البتہ آج کچھ لوگوں نے مجھے ذات کی رکاوٹوں کو عبور کر کے دیکھا، تو مَیں انھیں ’’سراپامحبّت‘‘ کے سواکچھ بھی دکھائی نہیں دی۔ اور مَیں … آسمان پہ جسم کی قید اور زمین زادوں کی حدود و قیود سے آزاد کھڑی مُسکرا رہی ہوں۔ مگر، شاید یہ خوشی بھی جز وقتی ہو۔ جانے کب میری بےچین روح ان آزادیوں سے بھی اکتا جائے۔
نایاب۔‘‘
اُس کی ڈائری میں موجود یہ آخری تحریر تھی، جو شاید اس نے مرنے سے چند گھنٹے قبل تحریر کی تھی۔ واقعی وہ ماسوائے محبّت کے، کچھ بھی نہیں تھی۔ ایک حسّاس طبع، مَن چلی سی لڑکی۔ ہر شے سے عشق کی حد تک محبّت کرنے والی۔ محبّت میں اپنی ذات تک کو فراموش کر دینے والی۔ ’’تمہارا مرثیہ اس سے بہتر شاید کوئی اور نہ لکھ پاتا نایاب۔ کیوں کہ صرف تم ہی ’’تم‘‘ سے آگاہ تھی۔ تم نے ذات کے زخم دنیا کے سامنے ادھیڑنے کے بجائے خاموشی سے مرنا قبول کیا۔ تم واقعی اپنے نام کی طرح نایاب تھی‘‘۔ مَیں نے نَم آنکھوں سے اس کی ڈائری بند کر دی۔
………٭٭………
’’میم! غضنفر صاحب آئے ہیں۔‘‘ آفس بوائے نے اُسے آکر اطلاع دی۔ ’’جی، جی، اندر بھیج دیجیےناں۔‘‘ اسراء نے فائلز سے سر اُٹھا کر تیزی سے کہا۔ مگر غضنفر اندر داخل ہوچُکے تھے’’میم! اب آپ سے ملنے کےلیےہمیں اجازت طلب کرنی پڑے گی، وقت لینا پڑے گاکیا؟‘‘غضنفرنےمصنوعی ناراضی سے کہا۔ ’’بس، اب ایسا ہی ہے وکیل صاحب۔‘‘ وہ دھیرے سےمُسکرا دی۔’’ویسے اسراء! مَیں اس تبدیلی پہ بہت خوش ہوں۔ پہلے پہل تو واقعی مجھے آپ سے خوف آتا تھا۔ کبھی کبھی تو آپ عجیب کیفیات سے گزرتی تھیں۔ مجھے اکثر لگتا تھا کہ جیسے مَیں کسی اور سیارے کے انسان کے ساتھ رہ رہا ہوں۔‘‘ غضنفر کے دل کی بات زبان پرآہی گئی۔ ’’واقعی آپ نے مجھے بہت برداشت کیا۔
میرے حقیقی رُوپ سمیت مجھے قبول کیا۔ مراقبے کے لیے وقت مہیّا کیا۔ اور یہ آپ کی محبّت ہی کی طاقت تھی کہ مَیں اپنے مرکز سے ہٹی نہیں۔‘‘اسراء نے بھی اقرار کیا۔ ’’جانتی ہیں ناں مَیں زندگی میں کبھی ہارا نہیں ہوں، لیکن ایک دفعہ مجھے لگا تھا کہ مَیں یہ محاذ پہلے مرحلے ہی میں ہارنے لگا ہوں۔ مجھے لگا تھا کہ مَیں ایک پتھر سے سر ٹکرا رہا ہوں، لیکن یہ جو محبّت ہے ناں، اس میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ بہت زبردست طاقت و قوّت۔‘‘ غضنفر ایک جذب کے عالم میں کہہ رہے تھے۔ (جاری ہے)