• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے پودے لگا کر وہ ایسے خوش ہو رہی تھی، جیسے کسی خزانے کی کنجی ہاتھ لگ گئی ہو۔ پودے لگانے اور اُن پہ آب پاشی کرنے کے بعد وہ خوشی سے پورےصحن میں دونوں ہاتھ پھیلائے گول گول چکر لگا کر ہنستی چلی جا رہی تھی۔ اُس کی دادی اُس کی اس درجہ خوشی پہ جہاں مُسکرا رہی تھیں، وہیں اُن کے دل میں عجیب اندیشے، وسوسے بھی سر اُٹھا رہے تھے۔ ’’نایاب…میری بچّی!! اتنا نہیں ہنستے، اتنا خوش نہیں ہوتے۔ آخر اتنی خوشی کس بات کی ہے؟‘‘ ’’دادی جان! میری پیاری دادی جان…!! یہ اتنے سارے پودے، جو مَیں نے لگائے ہیں، کچھ ہی دن میں پَھل پُھول جائیں گے۔ 

پھر یہاں رنگ برنگی تتلیاں آئیں گی۔ کتنے سارے پرندے آئیں گے۔ سفید رنگ کی پریاں بھی اُتریں گی اور میں یہاں بیٹھ کر بہت پیاری پیاری نظمیں لکھوں گی۔ پھر میری نظمیں شائع ہوں گی۔ ساری دنیا آپ کی نایاب کو سراہے گی دادی جان۔‘‘ نایاب نے اپنی خوشی کی وجہ دادی کو بتائی اور پھر سے دوڑ کر پودوں میں کھو گئی۔ ’’اللہ تمہیں ہمیشہ ایسا ہی رکھے میری بچّی۔ نہ جانے کیوں مجھے تمھاری طرف سے بڑا دھڑکا لگا رہتا ہے۔‘‘ نایاب کی دادی ایک آہ بھر کے خود ہی سے گویا ہوئیں۔

بہار کے اوّلین دن تھے۔ وہ اپنے اِسی چھوٹے سے باغیچے میں بیٹھی ماضی کی حسین یادوں میں کھوئی ہوئی تھی، مگر ہرحسین یاد کسی نشتر کی طرح دل میں پیوست ہو رہی تھی۔ وہ پودے اب پھل پُھول چُکے تھے۔ رنگ برنگی تتلیاں بھی اُسی طرح اُتر آتی تھیں، جیسے کبھی نایاب نے تصوّر کیا تھا۔ پرندے بھی اپنے چہچاہٹ سے اُس چھوٹے سے باغیچےکی رونق بڑھانےکی کوشش کرتے۔ نایاب کی وہ تصوّراتی دنیا، جو اُس وقت موجود نہیں تھی، اب موجود تھی۔ البتہ جو کچھ وہاں اُس وقت موجود تھا، اب نہیں تھا۔

اُس کی پیاری دادی …اور وہ خُود بھی تو وہ نہیں رہی تھی، جو وہ اُس وقت تھی۔ اس کی نہ وہ بے ریا ہنسی تھی، نہ وہ قہقہے۔ اب تو بس یہاں غم برستے تھے۔ نایاب کی شاعری پڑھنے والے بھی بہت تھے، لیکن اب وہ پرندوں، پھولوں پہ نظمیں نہیں کہتی تھی، اب اس کا قلم لہو نچوڑتا تھا۔ بہار میں ہَرا بَھرا باغیچہ حسین و جمیل ہو کر بھی نایاب پہ پت جھڑ کی اُداسی ہی اتارتا تھا۔

………٭٭………

’’رسیم! یہ کیا ضد لگائے بیٹھے ہو؟ کیوں اپنی زندگی یوں برباد کر رہے ہو۔‘‘ ’’میری زندگی برباد کہاں ہو رہی ہے بھائی۔ لمحہ لمحہ سنور رہی ہے۔‘‘

’’دیکھو رسیم! تمہاری وجہ سے امّی جان بہت پریشان رہتی ہیں۔ تم کیوں ڈھنگ کی زندگی نہیں گزارتے؟ کیا ساری زندگی اِن ہی رنگوں کے بیچ گزار دو گے؟‘‘ ’’بالکل ایسا ہی ہے۔ رنگ تو زندگی ہیں۔‘‘’’دیکھو رسیم! امّی جان نے تمہارےلیےایک اچھی سی لڑکی دیکھ لی ہے۔ اب تو ہاں کردو۔ نہ خود اپنی پسند بتاتےہو، نہ ہماری پسند قبول کرتے ہو۔ چاہتے کیا ہو آخر تم؟‘‘ ’’سولہویں صدی کی وہ حسین لڑکی غادہ۔‘‘رسیم نے مُسکراتے ہوئےکہا۔ ’’یہ تو مجھے معلوم ہے، تم پاگل ہو اور اس فلیٹ میں، ان رنگوں کےبیچ تنہا رہ رہ کر مکمل حواس کھو چُکے ہو۔ مگر خدارا ہمیں تو پاگل نہ کرو، چلو، میرے ساتھ گھر چلو۔‘‘ ’’کبھی نہیں بھائی۔ 

کبھی بھی نہیں۔ ایک پاگل شخص نارمل لوگوں کے بیچ کیسے رہ سکتا ہے۔ ہمارا المیہ ہے بھائی، جب کوئی ہم سے جدا ہو، مختلف ہو، تو ہم بجائے اُسے قبول کرنے کے، اُس کے الگ ہونے کی وجوہ سمجھنے کے، اُسے اتنا زِچ کرتے ہیں کہ وہ نفسیاتی طور پہ کم زور ہو جاتا ہے، پھر ہم اُسے پاگل کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ کیا اُس کے سینے میں دل نہیں، کیا وہ پتھر ہے۔ وہ صرف الگ ہی تو ہے۔ جانتے ہیں بھائی! ہر تخلیق کار ایسے ہی مختلف ہوتا ہے۔ اُسےالہامی کیفیات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اُس کے شب و روز پہ اِن ہی کیفیات کی چھاپ لگ جاتی ہے۔

اُس کےخواب و خیال دوسروں سے جدا ہوتے ہیں، لیکن ہم اس حقیقت کو بالکل قبول نہیں کرتے۔ اُسے پاگل پن کی سرحد پہ دھکیلتے چلے جاتے ہیں۔ مَیں بہت سے ایسے فن کاروں کو جانتا ہوں، جن سے اِن دنیا والوں نے سب کچھ چھین لیا، یہاں تک کہ اُن کا فن بھی۔ اور جب کسی فن کار سے اس کا فن چھین لیا جائے، تو وہ زندہ ہو کے بھی مر جاتا ہے۔ میرا فن ابھی زندہ ہے بھائی۔ مَیں کسی کو اپنا فن چھیننے نہیں دے سکتا۔‘‘

’’فن چھیننے کی بات کون کر رہا ہے میں تو …‘‘ ’’جو آپ کہہ رہے ہیں، وہ بھی ایک نارمل شخص ہی قبول کر سکتا ہےاور فی الحال مَیں اس حالت میں نہیں۔ میرے خیالات، تصوّرات اِس وقت بس صرف ’’ایک‘‘ کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اور یہی میرے فن کے دوام کا باعث ہے۔ اس وقت مَیں کچھ بھی اورکرنے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوں۔‘‘ رسیم نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’تمہاری زندگی، تمہاری مرضی۔ لیکن جلد پلٹ آنا رسیم۔‘‘ بھائی یہ کہتے ہوئے واپس لوٹ گیا۔ اور وہ ایک بار پھر اپنے تصوّرات میں کھو چُکا تھا۔

………٭٭………

’’کھانا شروع کیجیے۔‘‘دسترخوان لگ چُکا تھا۔ جس پہ غادہ کا خاندان، حاکم اور اس کی والدہ بھی موجود تھے۔ ’’ویسے ماشااللہ آپ کی بیٹی جیسی حسین لڑکی مَیں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی۔ اتناحُسن، اس پہ اس قدر رکھ رکھاؤ۔ خُوب صُورتی و خُوب سیرتی دونوں کا ملاپ ایک جگہ تو دیکھا ہے، لیکن اتنی کم عُمری میں یہ سلجھاؤ۔‘‘ یہ باتیں سُن کر کھانا کھاتے ہوئے غادہ کی ماں کا ہاتھ رُک ساگیا۔ جب کہ غادہ بُت بنی اس ساری گفتگو سےلاتعلق تھی۔ کھانا بھی بس چند نوالے لیا اور اپنی دنیا میں کھو گئی۔ اِس کے باوجود اُسے سب کا اپنی جانب یوں متوجّہ ہونا ناگوار گزر رہا تھا۔ اُس کی بےچینی، بےقراری بہت بڑھ رہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ بس جلد از جلد یہاں سےکہیں رُوپوش ہو جائے۔

’’دیکھیے تاجر صاحب! ہمیں آپ کی بیٹی بہت پسند آئی ہے۔ ہم چاہتے ہیں، اِسے فوراً شہزادی بنا کر اس محل میں لیں آئیں۔‘‘ ’’ہمیں خوشی ہے کہ آپ کو ہماری بچّی پسند آئی، لیکن ہم کچھ وقت چاہیں گے۔‘‘ غادہ کے والد کو پچھلی مرتبہ ہونے والی اس کی حالت کا اندازہ تھا، سو وہ تشویش کا شکار تھے۔ ورنہ ان کی نظر میں تو اُن کی بیٹی صرف شہزادی بننےہی کے لائق تھی۔ ’’نہیں بھئی نہیں۔ ہم اب اس بچّی سے مزید دُور نہیں رہ سکتے۔ ہم اپنی شہزادی کو فوراً اس محل کا حصّہ بنانا چاہتے ہیں۔‘‘ کہنے والی حاکم کی والدہ تھیں۔ حاکم، خود جو کب سے خاموش تھا، آخر بول پڑا۔ ’’دیکھیں تاجر صاحب! آپ کی بیٹی محلوں کی شہزادی ہے۔ اس کو اب محل سےمزید دور نہیں رہنا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں، اسے فوراً اپنی شہزادی بنا کر اس محل میں لے آئیں۔‘‘

غادہ کا صبر اب جواب دینے لگا تھا۔ ’’مَیں سُلجھی ہوئی نہیں ہوں، میرا اندر کسی کی سوچ سے بھی زیادہ اُلجھا ہوا ہے۔ مَیں حسین نہیں ہوں، تم میرے اندرجھانک کے دیکھو کہ اس میں کتنے صحراؤں، کتنی ہی اُجڑی بستیوں کی وحشت ہے۔ مَیں شہزادی نہیں ہوں، مَیں فقیرنی ہوں۔ مَیں فقیرنی ہوں…‘‘وہ پاگلوں کی طرح چلّارہی تھی۔ دیوانگی ایک بار پھر اُس کے سراپے میں محوِ رقص تھی۔ زبان خاموشی کے زندان سےنکل کر بےقابو ہو چُکی تھی۔ 

 سارا دربار گنگ تھا۔ حاکم پہ تو جیسے سکتہ طاری ہو گیا تھا۔ ’’مَیں فقیرنی ہو بس فقیرنی…‘‘ اُس کی آواز میں شدّت آ رہی تھی، جیسے وہ خود نہیں بلکہ اس میں موجود کوئی وحشی چلّا رہا ہو۔ چلّاتے چلّاتے وہ بےہوش ہو کر گر پڑی تھی۔ ’’آپ نے بتایا کیوں نہیں کہ آپ کی بیٹی پاگل ہے۔‘‘ حاکم کی ماں نے اُس کی حالت دیکھ کر حیرانی سے سوال کیا۔ ’’ایسا بالکل نہیں ہے۔ بس پتا نہیں، اِسے آج کل کیا ہو جاتا ہے۔‘‘ غادہ کی ماں کے بولنےسےپہلے ہی باپ بول پڑا، لیکن ماں کو بھی سجمھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا جواب دے۔

’’فوراً سے پیش تر بہترین طبیبوں کو حاضر کیا جائے۔‘‘ حاکم نے درباریوں کو حُکم دیا۔ کچھ ہی دیر میں ریاست کے بہترین طبیب حاضر تھے۔ ’’عالی جاہ! ہم نے مکمل معائنہ کیا ہے۔ کوئی جسمانی یا ذہنی بیماری نہیں ہے۔ البتہ مریضہ کسی شدید دباؤ کے زیر اثر ہیں، جس کی وجہ سے اس طرح بے ہوش ہو ئی ہیں۔‘‘ ایک طبیب نے حاکم کو غادہ کی حالت سے متعلق آگاہ کیا۔ ’’اجازت ہو تو مَیں کچھ اضافہ کروں۔‘‘ 

ایک بزرگ طبیب نے اجازت چاہی، جنہیں جسمانی کے ساتھ روحانی بیماریوں کے علوم پہ بھی عبور حاصل تھا۔ حاکم اور ساری رعایا اُن کی بے پناہ عزت کرتی تھی۔ ’’ضرور ضرور۔‘‘ حاکم مکمل متوجّہ ہوا۔ ’’دیکھیے، مریضہ کسی جسمانی نہیں بلکہ روحانی بیماری کا شکار ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ اِن پہ کسی قسم کی قید نافذ نہ کی جائے، ورنہ ان کی روحانی پرورش رُک جائے گی اور روحانی پرورش رُک جائے تو انسان مجذوب ہو جاتا ہے یا پھر… ‘‘ ’’یا پھر… کیا طبیب صاحب؟‘‘ حاکم نے تشویش سے پوچھا۔ ’’یا پھر مر جاتا ہے۔‘‘

سارے دربار پہ اداسی سی چھا گئی تھی۔ غادہ تھی ہی ایسی۔ پہلی نظر پڑتے ہی ہر ایک کا دل موہ لینے والی۔ ’’تاجر صاحب! آپ اگر کچھ دن ہمارے مہمان رہیں تو ہمیں بےحد خوشی ہوگی۔ یوں ہماری شہزادی کا علاج بھی اچھے طریقے سے ہو جائے گا۔‘‘حاکم ابھی بھی غادہ کو اپنی شہزادی کہہ رہا تھا۔ غادہ کے والد کو انکار کی کوئی صُورت نظر نہ آئی البتہ غادہ کی ماں سخت تشویش کا شکار تھی۔

………٭٭………

جب کبھی کہیں…خوشیوں کی بوندا باندی ہو… مَیں اپنے غم کا کاسہ لیے…خُوشیاں چُننے نکل پڑتی ہوں…یہ جانتےہوئےبھی کہ…غم کا کاسہ خُوشیاں کہاں بَھر سکتا ہے… ویسے ہی جیسےمیری رُوح میں …غم کا پودا اپنی جڑیں مضبوط کر چُکا ہے… خُوشی کی ہر ہوا اُس کے سامنے… بالکل بےاثر ہے… اور دوسری جانب… خُوشی کی ہر پُھوٹتی کونپل کو… غم کی دیمک چاٹ جاتی ہے… اورمَیں پھر سے… خوشیوں کے انتظار میں… کاسۂ غم تھام کربیٹھ جاتی ہوں… یہ جانتے ہوئے بھی کہ… غم کا کاسہ خوشیاں کہاں بَھر سکتاہے۔

نظم لکھ کراُس نےڈائری میں محفوظ کردی تھی۔ اُس ڈائری کو وہ کسی کی امانت کے طور پہ بہت سنبھال کے رکھتی تھی۔ مَن چلی لڑکی کی زندگی کے شب و روز اب بس ایک کمرے تک محدود ہو چُکے تھے۔ وہ، جو ہر محفل کی رونق تھی،اب اُسےکوئی جانتا بھی تھا، تو ایک خاموش لکھاری کے طور پہ۔ اُس کا اعتماد، جو اُس کی سب سے بڑی قوت تھا، وہ چِھن چُکا تھا۔ اب وہ تنہائیوں کی متلاشی رہتی۔ اُس کا دل بہلانے کو لوگ آتے جاتے، لیکن اُس کے پاس بیٹھ کر ہر کوئی جلد اکتاہٹ کا شکار ہو جاتا۔ ایک وقت تھا، اُس کے ساتھ چند لمحے بھی گزارنے والا، اُن لمحوں کو ہمیشہ یاد رکھتا۔ وہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ کوئی اس کی تنہائی میں خلل ڈالے۔ اُس کی اُس شکست کو دیکھے، جو اُس کے چہرے پہ ثبت ہو چُکی ہےیاپھر اُس کے ٹوٹےہوئے خوابوں کی کرچیاں ہی اُس کی آنکھوں میں دیکھ لے۔

………٭٭………

’’ہم میں سے لوگوں کی اکثریت سمجھتی ہے کہ روحانیت کے اَسرار و رموزجاننے کے لیے گوشہ نشینی اختیارکرنا ضروری ہے۔ ہاں مانتا ہوں کہ ذات کا علم حاصل کرنے کے لیے، ذات میں اُترنا پڑتا ہے۔ اس علم کےلیےتنہائی بھی ضروری ہے۔لیکن میرےبچّو! تنہائی اور ترکِ دنیا میں فرق ہے۔ صبر، استقامت، ضبط نفس یہ سب اپنےجیسے انسانوں میں رہ کر، زندگی کے مقابلے میں کھڑے ہو کر ہی حاصل ہوتے ہیں۔ ترک کرنے والا تو پہلی سیڑھی ہی پہ ہاتھ کھڑے کر دیتا ہے۔‘‘

’’لیکن بابا جی! مادیّت پرستی کے اس دَور میں روحانی طلب رکھنے والا کیسے مادیّت پرستوں سے علیحدہ جی سکتا ہے۔ وہ تو اکثریت میں ہیں۔ وہ تو اُس کی راہ بدل دیں گے۔ اسے اپنے سے جُدا سمجھ کر تو کبھی قبول نہیں کر پائیں گے۔ کوئی کب تک رُوپ بدل کر لوگوں کے ساتھ سراب میں جی سکتا ہے۔ ایسےمیں کیسی روحانی تربیت ہوگی۔ وہ انسان تو بس ایک سراب کی خاطر جیتا رہے گا۔ روح بھی بےقرار رہےگی اور مادّی ضروریات بھی نا آسودہ۔‘‘ سوال کرنے والی اسراء تھی۔

’’دیکھو بیٹی! مَیں جب بھی روحانیت کی بات کرتا ہوں، روحانی علوم و طلب کی بات کرتاہوں، تو مَیں صرف اور صرف دنیا کے بہترین شخص کو سامنے رکھ کے بات کرتا ہوں۔ وہ جنہیں اللہ خود ’’کامل‘‘ کہتا ہے، جن کااسوہ ساری دنیا کےلیے نمونۂ حیات ہے، َمیں صرف اُسی عظیم ذات سے رہنمائی لیتاہوں۔ اللہ نےاُنھیں جس مقامِ معراج تک پہنچایا، وہاں کوئی اور نبی نہیں پہنچ پایا۔ اور وہ نبی آخر الزماںﷺ ساری زندگی لوگوں کے بیچ رہے۔ ابتداً سب اُن کے مخالف تھے۔ اپنوں نے بھی راہیں الگ کیں۔ لیکن انھوں نےصبر کیا، غم کو ایک نعمت کی طرح برداشت کیا،محبّت کی۔ 

میرے بچّو! محبت…اپنے بدترین دشمنوں سے بھی محبّت۔ ہر آزمائش میں، ہرکٹھن موقعےپہ، اپنےلہجےکو محبّت سےلبریز رکھا۔ ہمیشہ محبّت کا پیغام دیا۔ ان کی زندگی کو سامنے رکھ لو بس۔ پھر کسی رہنما، کسی کتاب، کسی مراقبے کی ضرورت نہیں رہے گی۔‘‘ اسراء نےاپنےمن میں ایک عجیب ٹھنڈک سی اُترتی محسوس کی۔ جیسے عرصے بعد مَن کے تپتے صحرا پہ بارش کی بوندیں گری ہوں۔

دیکھو بچّو! معرفت کی پہلی سیڑھی طلب ہے اور طلب کا اوّلین قرینہ سپردگی، مکمل سپردگی۔ اپنی انا، علم، اقتدار کا ہر چوغہ اتار کر محض طالب بن جانا سپردگی ہے۔ مطلوب جو عطا کرے، اُسے قیمتی موتی کی طرح مضبوطی سے تھام لو۔ کیوں کہ قبولیت سپردگی کا پہلہ زینہ ہے۔ یہ تربیت دنیا ترک کرنے سے حاصل نہیں ہوتی۔ زندگی کو جی کر، دنیا میں رہ کر حاصل ہوتی ہے۔ ان سب مراحل سے گزر کر انسان کا حقیقی روپ ظاہر سے ہم آہنگ ہونے لگتا ہے۔ یہ ہم آہنگی وہ سُکون ہے، جس کے ہم سب متلاشی ہیں۔‘‘

اسراء نے اُسی لمحے پختہ ارادہ کرتے ہوئے خود کو مکمل سپرد کر دیا تھا۔ اب اگلا مرحلہ قبولیت کا تھا۔ زندگی کےہرنتیجے،ہرواقعے،ہرحادثے کی قبولیت کا۔ اپنے چُھپے رُوپ کی اذیّت کی قبولیت کا، ہر نشتر ہر طرح کےحالات کی قبولیت کا، جو اُس کی ذات کو دنیا سےالگ ہونے کی سزا کےطور پہ جھیلنے تھے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین