• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری تصویر بنانےکی جو دُھن ہےتم کو…کیا اُداسی کے خد و خال بنا پاؤ گے…؟؟تم پرندوں کے درختوں کےمصوّرہومیاں…کس طرح سبزۂ پامال بنا پاؤ گے …؟سر کی دلدل میں دھنسی آنکھ بنا سکتے ہو… آنکھ میں پھیلتے پاتال بنا پاؤ گے…؟؟؟جو مقدّر نے مِری سمت اچھالا تھا کبھی…میرےماتھے پہ وہی جال بناپاؤگے…؟؟مِل گئی خاک میں آخر کو سیاہی جن کی…میرے ہَم دم وہ میرےبال بنا پاؤ گے…؟یہ جو چہرے پہ خراشوں کی طرح ثبت ہوئے…یہ اذیت کے مہ و سال بنا پاؤ گے…؟؟زندگی نے جو مِرا حال بنا چھوڑا ہے…میری تصویر کا وہ حال بنا پاؤ گے…؟؟میری تصویر بنانے کی جو دھن ہے تم کو۔

عدنان محسن

لامتناہی صحرا کا وہ آزاد پرندہ جب محل کی دیواروں میں مستقبل کی شہزادی کے لقب سے مقیّد ہوا، تو آہستہ آہستہ اُس کے پر اُس محل کی زندان نما دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر زخمی ہونے لگے۔ محل کے وسیع و عریض دیوان اُس کے لیے گھٹن کا باعث بن رہے تھے۔ اُس کی حالت ویسے ہی بےزبان پرندے کی تھی، جس کو شکاری کسی پنجرے میں قید کردے اور اُس کی بےزبانی کے باعث اُس کی آہ و فغاں کو نغمے سے تعبیر کرے۔ اُس کا مَن بھی چلّا چلّا کر تھک چُکا تھا۔ پَر لہو لہان تھے، لیکن تاحیات قید اس کے مقدّر میں لکھی جا چُکی تھی۔ گھٹن بڑھنے لگی، تو اُس نے محل کی سب رکاوٹوں کو پسِ پشت ڈال کر باہر کی جانب دوڑ لگا دی۔ وہ دوڑتی چلی جا رہی تھی۔ پیچھے اُس کی ماں اور محل کی کنیزیں بھی دوڑ رہی تھیں۔

’’غادہ رک جاؤ۔ رک جاؤ میری بچّی…‘‘

اُس وقت اُسے کچھ بھی سُنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ بس دوڑ رہی تھی۔ بِنا دیکھے، بِنا سُنے، بِنا سوچے سمجھے۔ اُس کے سامنے ایک پہاڑ نُما چٹان تھی،جس پہ وہ چڑھ دوڑی تھی۔ اور پھر قدم لڑکھڑائے، وہ چٹان سے نیچے گر کر ہمیشہ کے لیے آزاد ہوگئی۔ اُس کی قیدی روح کو جسم کی قید سے ہمیشہ کی نجات مل گئی۔ اُسے اپنی مرضی کے جہاں کو چُننے کی آزادی دے دی گئی تھی۔ وہ وقت زمانے کی قید سے مکمل آزاد ہو چُکی تھی۔

………٭٭………

’’بے ترتیب شخصیت پہ کاندھے تک آتے بےترتیب بال۔ ملگجا سراپا۔ رَت جَگی آنکھیں۔ اور اس پہ ہر شے سے لاتعلقی…‘‘ مَیں مصوّری کی ایک نمائش کے موقعے پہ نوجوانوں کو آٹو گراف دے رہا تھا، جب کسی نے مجھ پہ کیے گئے اپنے تبصرے سےمجھے اپنی جانب متوجّہ کیا۔ ’’رسیم صاحب! بلاشبہ آپ بھی اُس عظیم مصوّر کی جُدا تخلیق ہیں۔‘‘ مَیں سمجھ نہ پایا، آیا وہ میری تعریف کر رہے ہیں یا مجھ پہ طنز کر رہے ہیں۔ مَیں نے ان کی بات سُنی اَن سُنی کرتے ہوئے آٹو گراف دینا جاری رکھا۔

’’رسیم صاحب! سُنا ہے آپ اپنی پینٹنگز فروخت نہیں کرتے، لیکن مَیں آپ کو منہ مانگی قیمت دے سکتا ہوں۔‘‘ ’’مثلاً کتنی…؟‘‘ ایک لمحے کو سر اُٹھا کر مَیں نے استفسار کیا اور ایک بار پھر نوجوانوں میں مشغول ہوگیا۔ ’’آپ بس بتائیں، آپ کی ڈیمانڈ کتنی ہے…؟‘‘ وہ ایک دَم سے خوش ہوگیا تھا۔ شاید اُسے لگا، اُس کی دولت، میری قوّتِ تخلیق سے بڑھ کر ہے۔ ’’آپ اپنی کہیں، آپ کیادے سکتے ہیں؟‘‘ مَیں نے بھی کسی تاجر کے انداز میں سوال کیا۔ نوجوان ہماری گفتگو سے محظوظ ہو رہے تھے۔

’’وہ سامنے والی پینٹنگ کے پانچ لاکھ۔ ‘‘ اُس نے کسی فاتح کی طرح میری ایک عزیز پینٹنگ کی طرف اشارہ کیا۔ مَیں نے نظر اُٹھا کے دیکھا۔ دل میں ایک ٹھیس سی لگی، جیسے کوئی میری اولاد کی قیمت میرے سامنے لگا رہا ہو۔ ’’آپ مجھے پانچ لاکھ میں اپناچند لیٹر خون دے سکتے ہیں؟‘‘ وہ اس غیر متوقع سوال پہ گھبرا گیا تھا۔ اپنی طرف سے وہ مجھے دولت کے زور پہ فتح کر چُکا تھا۔ ’’یہ کیسا سوال ہے…؟‘‘نوجوانوں کی دل چسپی ہماری گفتگو میں بڑھ رہی تھی۔

’’دیکھیں جناب! ایک تخلیق چاہےچھوٹی ہو یا بڑی۔ اچھی ہو یا بُری، تخلیق کار سے لہو مانگتی ہے۔ آپ کی اس پانچ لاکھ کمائی میں شاید آپ کا پسینہ شامل ہوگا۔ یا شاید وہ بھی نہ ہو، لیکن یہ جو آپ کے سامنے اَن گنت تصاویر ہیں، اِن کی قدر و قیمت صرف مَیں یا کوئی تخلیق کار ہی جان سکتا ہے۔ ہم اپنی شخصیت کے پرخچے اُڑاتے ہیں۔ اپنے آپ کو تباہ حال کرلیتے ہیں۔ خیالات کا نوالہ بنتے ہیں، تب جا کر کوئی تخلیق سامنے آتی ہے۔ معاف کیجیےگا، میرا مقصد آپ کی دل آزاری نہیں، لیکن جیسے کوئی انسان اپنی اولاد فروخت نہیں کرسکتا، ایسے ہی مَیں اپنی کسی تصویر کو محض پیسے کے عوض کسی کو نہیں سونپ سکتا۔‘‘

………٭٭………

’’سارے شہر میں قیامت کا شور بپا تھا، لیکن اُس گھر میں موت کی سی خاموشی چھائی تھی‘‘ لکھتے لکھتے نایاب کے ہاتھ سے قلم گرگیا۔ ’’قیامت کا شور، موت سی خاموشی…‘‘ اُس نے اپنے لکھے گئے الفاظ دہرائے۔ ’’کیا خاموشی اور شور دونوں اتنےتلخ ہوتے ہیں کہ تشبیہات کے لیےقیامت اور موت جیسےالفاظ استعمال کرنےپڑتےہیں۔‘‘اُس نےافسوس سے سوچا اور اُٹھ کر کھڑکی سے باہر جھانکنے لگی۔ درخت پہ بیٹھی کوئل کی مسلسل سریلی آواز، چڑیوں کی چہچاہٹ، کھیلتے ہوئے بچّوں کے قہقہے اور نوک جھونک، بڑوں کی کسی سنجیدہ مسئلے پہ طویل گفتگو، ٹیلی وژن پہ کسی نئی خبر پہ بحث، یہ سب بے معنی آوازیں، شور و غُل میں اضافے کا باعث بن کر سماعتوں پہ ناگوار گزر رہی تھیں۔ 

اِس تمام شور سے اُکتا کر اُس نے آسمان کی طرف نگاہ کی، جہاں ہمیشہ کی طرح آج بھی خاموشی کاراج تھا۔ وہاں بےمعنی شور کے درمیان ایک بامعنی خاموشی آج بھی موجزن تھی۔ لیکن یہ بامعنی خاموشی، اُس کے لیے بےمعنی شور سے بھی زیادہ اذیّت کا باعث بن رہی تھی۔ بالکل وہی خاموشی، جو اُس کے دماغ میں موجود رنگ برنگے شور کے باوجود اُس کی روح میں رقص کرتی تھی۔ وہی چلّاتی، چنگھاڑتی خاموشی، جس نے دماغ میں موجود بےمعنی ناگوار شور کو بھی مات دے دی تھی۔

’’خاموشی ایک پردہ بھی ہے، اقرار بھی ہے اور انکار بھی۔ نعمت بھی ہے، اذیّت بھی، نجات بھی ہے اور تاحیات سزا بھی۔ خاموشی کبھی رُوح کو جسم کے قبرستان میں زندہ درگور کر دیتی ہے اور کبھی کسی کام یابی کی نوید بن جاتی ہے۔ خاموشی، طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے، تو کبھی طوفانوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے۔ خاموش رہ کر انسان سب پا بھی لیتا ہے اور کبھی سب کچھ کھو بھی دیتا ہے۔‘‘ اُس کا قلم ایک مرتبہ پھر تیزی سےحرکت کرنے لگاتھا۔ لکھتے ہوئے اُسے کبھی پتا نہیں چلتا تھا کہ وہ لکھ کیا رہی ہے۔ 

کبھی کبھی اُسے محسوس ہوتا کہ جیسے یہ الفاظ اُس کی رُوح پہ چھائی گہری خاموشی ہی ہیں، جو صدا بن کر کاغذ پہ منتقل ہو رہی ہے۔ ’’ضبط، آگاہی کی طرف پہلا پہلا قدم ہے اور آگاہی کی پہلی سیڑھی خاموشی ہے۔‘‘ ذہن میں خاموشی کی جگہ خیالات کی ہلچل نے لے لی تھی۔ ایک طوفان کی صُورت منتشر خیالات کاغذ پہ اُترتے جارہےتھے۔ خاموشی رفتہ رفتہ رُوح کے گرداب سے باہر آ رہی تھی۔ ’’خاموشی بھی عجیب شے ہے، انسانی رُوح میں شکاری کی طرح جال لے کر اُترتی ہے اور خود قیدی بن کر اُس قید سے رہائی کے جتن کرتی ہے۔‘‘ 

بےربط خیالات کو لفظوں کی صورت عطا کرتے ہوئےوہ کئی بار سوچتی تھی کہ وہ آخر ایسا کیوں کر رہی ہے۔ ’’جب تمام سوالوں کا جواب خاموشی ہو، جب جذبات کا اظہار خاموشی ہو، جب لبوں کی گفتگو محض خاموشی ہو، تو پھر کہنے کو رہ ہی کیا جاتا ہے اور اس سےبڑی اذیّت بھی بھلا اورکیاہوگی۔ خاموشی کی اپنی زبان ہے۔ یہ وہ صدا ہے، جسے سُننے کی صلاحیت کسی کسی ہی کو حاصل ہوتی ہے۔‘‘ وہ جانے کس موضوع پہ لکھنے بیٹھی تھی، مگر اُس کی تحریر میں اب صرف خاموشی رقص کر رہی تھی۔ 

’’کبھی کبھی انسان اندر کی خاموشی کو چُھپانے کے لیے بےمعنی بھی تو بولتا چلا جاتا ہے کہ کوئی اُس کے اندر چھائی خاموشی کو نہ جان لے۔ اسی لیے وہ الفاظ کا سہارا لے کر خود کو بےمقصد گفتگو میں الجھائے رکھتا ہے۔ جیسے خاموشی ایک پردہ ہے، ایسے ہی خاموشی کو بھی پردے کی ضرورت رہتی ہے۔ زندگی بھر بولتے رہنے کے بعد انسان پہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ اصل گفتگو تو خاموشی تھی اور وہ بولنے پہ وقت برباد کرتا رہا ہے۔ خاموشی ایک عبادت ہے۔ ایسی عبادت، جو خاموشی سے معبود اور عابد کے درمیان راز کی طرح رہتی ہے۔ خالق اور مخلوق کے درمیان گفتگو کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ‘‘

خاموشی سے خاموشی کے بارے میں لکھتے لکھتے اس کے الفاظ ختم ہوچُکےتھے۔ دل و دماغ میں ایک بار پھرخاموشی کا بسیرا تھا۔ جیسے ویران، اجاڑ بستیاں گزرنے والوں کے لیے دہشت کا باعث ہوتی ہیں، ایسے ہی خاموش رُوحیں بھی جسموں کو نگلتے ہوئے محسوس ہوتی ہیں۔ وہ گھبرا کر کمرے سے نکل آئی اور صحن کے خاموش گوشے میں بیٹھ کر اُس تکلیف کی شدّت کو کم کرنے لگی، جو اُسے خاموشی نے عطا کی تھی۔ جیسے انسان شور سے بچنے کے لیے خاموشی کی پناہ حاصل کرتا ہے۔ ایسے ہی خاموشی سے پناہ بھی خاموشی ہی میں ملتی ہے۔ اندر کی خاموشی کو خاموش کرنے کے لیے وہ باہر کی خاموشی کا سہارا لے رہی تھی۔ ہر روزکی طرح خاموش آسمان کو خاموشی سے تکتے ہوئے۔

………٭٭………

سال ۲۰۲۰

ہواؤں کے رقص پہ زرد پتّوں کی مسحور کُن موسیقی شام کی پُراسرار فضا کےسحرمیں اضافہ کر رہی تھی۔ اُس کی آنکھیں سامنے موجود چنار کے درخت پہ مرکوز تھیں، جس کے پتّے تیزی سے درخت کا ساتھ چھوڑ رہے تھے۔ اپنے پتّوں کو یوں زمین پہ بکھرتا دیکھ کر درخت کی خاموش، دل خراش صداؤں نے ماحول میں درد کی فضا پیدا کر دی تھی، وہی فضا جو اُس کے نیم مُردہ وجود کا حصّہ بن چُکی تھی۔

ایک عرصے سے وہ خزاں کو اپنا مرہم سمجھتی تھی۔ خزائیں مرہم ہی تو تھیں، جو چار سُو درد کی فضا پیدا کرکے ہر شےکو اُس کے غم میں شریک کر دیتی تھیں، لیکن جانےکیوں یہ خزاں اُسے اجنبی معلوم ہو رہی تھی۔ پہلے تو پت جَھڑ کی موسیقی کسی سُریلے نغمے کی طرح اُس کی رُوح کو سرشاری عطا کرتی تھی، مگر اب کی بار ایسا نہیں تھا۔ وہ میٹھے غم جانے کیوں تکلیف دہ ہو رہے تھے، حالاں کہ اُس کا درد سےرشتہ بہت پُرانا تھا۔ درد تو اُس کے نزدیک ایک لطیف جذبہ تھا۔ ایک میٹھا سا احساس، وہی احساس جو گِرتے پتّوں کے شور اور خزاں کی ملائم ہواؤں میں غم کے باوجود موجود ہوتا ہے۔ مگر یہ درد تو ایساتھا، جیسے کوئی مسلسل زخم پہ زخم لگائے جا رہا ہو۔ 

ہر ٹھیس پہ ایک آہ نکلے جا رہی ہو اور یہی معاملہ اس کی رُوح کے ساتھ تھا۔ اُسے معلوم تھا کہ اُس کے سفر کا اگلا پڑاؤ تنہائی ہے۔ وہ تنہائی، جو برسوں سے اُس کی ساتھی ہے، لیکن اب کےتو اُسے تنہائی ایک تنگ و تاریک زندان میں بِتانی تھی، جہاں نہ اُس کا قلم ساتھ ہوگا، نہ پسندیدہ ڈائری۔ نہ یہ حسین مناظر ہوں گے، نہ پرندوں کی چہچہاہٹ۔ بس چہار سُو ایک تنہائی اور خاموشی ہوگی۔ 

ہاں، مگر اُسے اتنا سہارا تھا کہ وہ ایک مطمئن رُوح لے کر بہت سُکون سے سو پائے گی۔ جو آرام اِس دنیا میں اُس سے خفا ہو چکُا تھا، وہ اب مل پائے گا۔ویسے عجیب بات ہے، موت کا خوف انسان کے ہرجذبے پہ حاوی ہو جاتا ہے۔ اُس کے آگے غم بھی سُریلے لگنے لگتے ہیں۔ زندگی، جہنم کامنظرہوکےبھی حسین دکھائی دیتی ہے، شاید یہ تبدیلی کا خوف ہوتا ہے۔ دراصل انسان تبدیلی سےگھبراتاہے، کتنا ہی صالح اعمال شخص کیوں نہ ہو، موت اُس کے لیے خوف ہی کی علامت ہوتی ہے۔

موت تو اُسے بھی خوف میں مبتلا کردیتی ہے، جس نے عُمر بھر زندگی کا جہنم سہہ کر ہمیشہ موت ہی کی آرزو کی ہو، وجہ تبدیلی ہے۔ ایک نئے منظر نامے میں چلے جانے کا احساس۔ ایک اَن دیکھی دنیا میں قدم رکھنےکا خوف… اور وہ بھی اِس حالت میں کہ پیچھےمُڑنے، واپس پلٹنے کی کوئی آس، اُمید بھی باقی نہ ہو۔

………٭٭………

پانچ سال میں آج پہلی مرتبہ مَیں نے اُس کے حسین و مطمئن چہرےپہ خوف کی اَن گنت لہریں دیکھی تھیں۔ وہ پریشان تھی، بہت پریشان۔ اُسے دیکھ کر میری تکلیف بھی بڑھنے لگی۔ مَیں نے اپنی پوری قوّت مجتمع کرتے ہوئے اُس سے سوال کیا، ’’غادہ! تمہاری پریشانی کی وجہ کیاہے آخر؟ تمہیں مجھے بتاناہوگا۔‘‘ وہ خاموش رہی۔ اُس کےچہرے پہ تکلیف کا احساس بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ ’’غادہ! کچھ تو کہو، کچھ تو بولو…‘‘

پانچ سال سےوہ روز یوں ہی میرے خواب میں آرہی تھی، خاموشی سے مجھے تکتی رہتی اور پھر مُسکراتے ہوئے لوٹ جاتی، لیکن مَیں چاہتا تھا، وہ آج کچھ نہ کچھ ضرور بولے، کچھ تو کہے آخر۔ اپنی پریشانی کی وجہ مجھے بتائے۔ ’’کہیں یہ ہماری آخری ملاقات نہ ہو؟‘‘ میرے ذہن میں ایک خیال اُبھرا، جس نے مجھے شدید خوف و درد میں مبتلا کر دیا۔ ’’غادہ! بتاؤ مجھے، ہوا کیا ہے آخر…؟‘‘ مَیں گڑ گڑا کر التجا کر رہا تھا۔

شاید اُس کو مجھ پہ رحم آچُکا تھا۔ تب ہی پانچ سال میں وہ پہلی بار گویا ہوئی۔ ’’تمہارے وقت کی غادہ بھی وقت سے پہلے لوٹنے جارہی ہے۔‘‘ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ مَیں آج اُسے پہلی بار سُننے کی خوشی مناؤں یا اُس کے کہے الفاظ پہ حیران ہوں۔ مَیں اِسی کشمکش میں مبتلا تھا کہ وہ واپس پلٹنے کے لیے مُڑی۔ مَیں نے ہمیشہ کی طرح اُسے تب تک روکنے کی کوشش کی، جب تک وہ میری نگاہوں سے مکمل طور پراوجھل نہیں ہوگئی۔ مَیں خواب سے بیدار ہو چُکا تھا اور مکمل طور پر پسینے میں شرابور تھا۔ اُس کے الفاظ میرے دل و دماغ میں گونج رہے تھے، لیکن اُس کے کہے الفاظ کا مطلب کیا تھا، مَیں نہیں جانتا تھا۔

………٭٭………

چائے کاکپ لیےوہ بالکونی میں کھڑی سورج غروب ہونے کے حسین منظر سے لُطف اندوز ہو رہی تھی۔ پرندوں کی مسحور کُن صدائیں کائنات کے عظیم مصوّر کی شانِ مصوّری کا اظہار بن کر اُس کے دل کو روشن کیےجارہی تھیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین