یہ کل کی ہی بات ہے۔ ایک منصف نے ایک ناول کا سہارا لیکر اڑایا انصاف کا مذاق۔ ایسا سنگین مذاق جس سے یک جنبشِ قلم عدالتی و سیاسی نظام کو ایسی ٹھیس لگی کہ وہ عوام کا اعتبار و اعتماد کھونے لگا۔ جب فیصلے کا آغاز تہمت اور طنز سے ہو، مثال من پسند افسانے سے لی جائےتو منصف کا بغض و عناد ایسا سر چڑھ کر بولتا ہے کہ فیصلے کے اختتام کا انتظار بھی نہیں کرنا پڑتا۔ یہ فیصلہ انصاف کے تقاضے پورا کرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی انا کی تسکین اور شاید کچھ اور مقاصد کے لیے ہوتا ہے۔تاہم جب انصاف کا قتلِ عمد جاری تھا کچھ سیاسی گُرو اور گروہ اپنے مخالفین کو دھول چاٹتا دیکھ کر دھمالیں ڈالنے لگے، داد کے ڈونگرے برسانے لگے۔ تضحیک میں تسکین پانے لگے۔ انتشار میں امید دیکھنے لگے۔ ایسا غبار اٹھایا کہ سچ اور جھوٹ کے فرق پر نفاق و نفرت کی دبیز گرد جم گئی۔ معاشرہ مزید پاتال میں اترتا چلا گیا۔ اس کا ادراک ہی نہ تھا کہ جو بویا ہے وہی کاٹنا ہے۔
کوتاہ قد انسانوں کے انبوہِ کثیر میں چھوٹے پن کا مقابلہ سخت ہو جاتا ہے۔ نثار میں اس منصف کے چھوٹے پن پہ جس کے متعلق ایک اور معزز جج نے تحریری گواہی دی ہے کہ اس نے سابقہ وزیرِ اعظم اور اس کی بیٹی کو انتخابات تک پابندِ سلاسل رکھنے کا غیر قانونی حکم دیا۔ مخالفین و مسابقین کی باچھیں کِھل اُٹھی ہوں گی کہ منصف نے میدان صاف کر دیا۔ مگر وہ بالکل بھول گئے کہ یہ فصل کاٹنی بھی پڑے گی۔اسی منصف نما جج نے غریبوں، ناداروں اور سفید پوش طبقے کے لئے بہت محنت سے بنائے گئے اسپتال کو بھی نہ چھوڑا۔ بیرونِ ملک سے جو ڈاکٹر حب الوطنی اور عوام دوستی کے جذبہ سے معمور اس کڈنی لیور اسپتال میں خدمت کے لیے آئے تھے ان پر ایسے الزام لگائے اور تفتیشی اداروں کو ان کے پیچھے لگا دیا کہ انہوں نے یہاں سے واپس دیارِ غیر کے محفوظ ماحول میں رہنے میں ہی عافیت جانی۔ پستی کا سفر تیز تر ہو گیا۔ ڈھلوان کی بات کرتے ہوئے اس سے پہلے کا ایک ہلکا پھلکا سا واقعہ یاد آ گیا۔ میں سال نہیں بتاؤں گا مگر کہانی سچ ہے۔ ایک منصفِ اعلیٰ انا پرستی اور حبِ جاہ و حشم میں مبتلا تھا۔ پروٹوکول اور سیلوٹ کا رسیا تھا۔ ایک ہوشیار پولیس افسر، جو کہ حالات میں ڈھل کر ملازمت کو دھکیلنے کا گر جانتا تھا، انا پرست منصف کے حبِ پروٹوکول کو خوب سمجھتا تھا۔ لیکن ان کی بصری تکنیکی خرابی کی بنا پر نظرِ عنایت کے ہدف کو سمجھنے میں دشواری ہوتی تھی۔ یہ جاننا مشکل تھا کہ کہاں اور کس کو دیکھ رہے ہیں؟لہٰذا اس نے مسئلے کا حل یہ نکالا کہ وہ ان کی آمد پر ان کو ایک ہی وقت میں تین جانب سے کھٹاک سے سیلوٹ کرتا تھا تاکہ غلطی کی گنجائش نہ رہے اور عتاب سے بچا جا سکے۔ دونوں خوش ہو گئے مگر قدم بہ قدم زود افزوں اخلاقی تنزلی سے بے خبر۔ وہ یہ یکسر بھول گئے کہ جو بویا ہے وہی کاٹنا ہے۔
یہ انحطاط دہائیوں قبل تب شروع ہو چکا تھا جب رہنماؤں نے باہمی گفتگو کی جگہ عدالتوں میں باہم دست و گریباں ہونے کو ترجیح دینا شروع کر دی تھی۔ عدالت میں ایک دوسرے کی رسوائی کا نظارہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس منافقانہ مسابقت و مخاصمت کی وجہ سے گھات لگائےمنصفین و مقتدرین کو آئندہ کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ رہنما کٹہروں میں رسوا ہونے لگے۔ مخالفین مٹھائیاں بانٹتے رہے۔ پھر بھی سمجھ نہ آئی کہ جو بو رہے ہیں وہی کاٹنا ہے۔
بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ اب تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ حال ہی میں وزیرِ اعظم کو عدالتِ میں طلب کیا گیا تو مداحین نے عدالت پر کیچڑ اچھالنا شروع کر دیا ۔ سماجی ذریعہ ابلاغ پر طرح طرح کی کہانیاں بنانی شروع کر دیں ۔ ایسے ظاہر ہوتا ہے جیسے انہیں ملکِ عزیز کے نظامِ عدل کے بارے میں معلوم ہی نہیں تھا۔ مخالفین کو رگڑنے والی عدالت انصاف پسند تھی اور اب سوال کرنے سے اس نظام سے سڑانڈ کی بو آنی شروع ہو گئی ہے۔ کیا وہ عدالتیں اور تھیںاور یہ اور ہیں؟ سادہ سی بات ہے کہ جو بویا تھا وہی کاٹ رہے ہیں۔ عدالتی یا سیاسی نظام جیسا بھی ہو، قدرت کا نظام واضح اور شفاف ہے، جو بوئو گے وہی کاٹو گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)