اسلام آباد (فاروق اقدس/نامہ نگار خصوصی) سیالکوٹ میں چند انتہاء پسند افراد کی جنونیت کا شدید ردعمل صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے سامنے آرہا ہے ،بین الاقوامی انسانی حقوق اداروں نےپاکستان کو ہدف بنا لیا۔ دنیا بھر کے میڈیا نے پاکستان میں ہونے والے اس افسوسناک واقعہ کو پوری منظر کشی کے ساتھ بیان اور نشر کیا ہے جبکہ بعض نشریاتی اداروں نے اس واقعہ کے حوالے سے پاکستان میں پیش آنے والے توہین رسالت کے مبینہ واقعات کو بھی پوری تفصیل کے ساتھ اپنے اپنے انداز سے پیش کیا۔ سری لنکا کے عوام اور ان کی حکومت کیلئے پاکستان کے حوالے سے دکھ اور تشویش کا یہ دوسرا واقعہ تھا اس سے قبل 2009میں نامعلوم دہشت گردوں نے لاہور میں اندھا دھند فائرنگ کرکےسری لنکن کرکٹ ٹیم کے 6ارکان زخمی ، پولیس کے پانچ اہلکار اور دو شہری ہلاک کردیئے تھے۔ تقریباً ایک دہائی تک کوئی غیر ملکی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر نہیں آئی اور ملک بھر میں کرکٹ سٹیڈیم ویران رہے۔ اس وقت بھی پاکستان کو مذہبی انتہا پسندوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا اور حالیہ واقعہ کے تناظر میں آج بھی انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور اداروں کے علاوہ عالمی میڈیا پاکستان میں توہین مذہب کے قانون پر نکتہ چینی کرتے ہوئے یہ استفسار کر رہا ہے کہ کیا پاکستان میں توہین مذہب کے قانون پر نظرثانی ممکن نہیں؟ گو کہ پاکستان میں تمام مسالک، مکاتب فکر اور تمام طبقات سیالکوٹ میں پیش آنے والے افسوسناک واقعہ پر یکساں طور پر ہم آہنگی کے ساتھ ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں تاہم بعض حلقے اس واقعہ کے تناظر میں کئی سوالات بھی اٹھاتے ہیں کہ آخر توہین مذہب کے واقعات پاکستان میں ہی بار بار کیوں پیش آتے ہیں۔یاد رہے کہ حال ہی میں یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ایک قرارداد بھی منظور کی تھی اور اب انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اس واقعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’ توہین مذہب پر قتل المناک ہے‘‘۔ اس واقعہ سے پاکستان کو عالمی سطح پر جہاں شرمندگی، ندامت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے وہیں سفارتی سطح پر بھی پاکستان کو کئی مشکلات اور پیچیدگیاں پیش آسکتی ہیں کیونکہ مغربی ممالک ایسے معاملات میں خود کو غیر معمولی طور پر ’’ حساس‘‘ ظاہر کرتے ہوئے بعض اقدامات کا جواز بنا لیتے ہیں۔ پھر ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ سیالکوٹ جو پنجاب کا تیسرا بڑا صنعتی شہر ہے کھیلوں کا سامنا بالخصوص فٹ بال بنانے کے حوالے سے دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے عالمی سطح پر فٹ بال کی 60سے 70فیصد طلب سیالکوٹ سے ہی پوری کی جاتی ہے اور فٹ بال کے عالمی مقابلوں میں بھی سیالکوٹ کے فٹ بال ایک مقبول حیثیت رکھتے ہیں اس کے علاوہ آلات جراحی، چمڑے کی مصنوعات متعدد اشیا کا مرکز ہونے کے ناطے ملکی برآمدات کے حوالے سے بھی اس شہر کو اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس کی 90 فیصد برآمد کر دی جاتی ہیں یقیناً اس واقعہ سے اس شہر کی کاروباری ساکھ کو بھی نقصان پہنچے گا۔