• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان نا صرف عالم اسلام کا بڑا اور اہم ملک ہے بلکہ دنیا کے دیگر ممالک چاہے وہ بڑی طاقتیں ہی کیوں نہ ہوں،ہمارے حالات سے لاتعلق نہیں رہ سکتیں ۔ گرتی معیشت اور اس کو عارضی سہارے دینے کے عمل نے دنیا کی تشویش کو روز بروز زیادہ سے زیادہ کر دیا ہے ۔ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں تھا تو جی سیون کے رکن ملک کے ایک سفیر نے گفتگو میں کہا کہ سفارت کار پاکستان میں اس غرض سے تبادلہ پسند کرتے تھے کہ یہاں پر اشیاء کم قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں اور بچت ہو جاتی ہے مگر اب یہ سہولت بھی واپس لے لی گئی ہے اور سمجھ نہیں آتی کہ اتنے بڑے ملک کے معاشی حالات کی بہتری کی جانب توجہ نہیں دی جارہی اور اگر یہاں پر مسائل اسی حساب سے بڑھتے چلے گئے تو اس صورت میں دنیا اس کے اثرات سے لا تعلق نہیں رہ سکتی ۔ یہاں صورتحال مگر یہ ہے کہ جو پہلے کہا کرتے تھے کہ قرضہ لینے کے بجائے میں یہ کر دوں گا، وہ کردوں گا، اب سعودی عرب سے ملنے والے صرف ڈیپازٹ پر کامیابی کی نوید سناتے پھررہے ہیں۔حالاں کہ ناقابل استعمال رقم جو صرف رکھی رہے گی اور جس پر سود کی ادائیگی علیحدہ سے ہوگی اور جب چاہے اس کو فوری طور پر واپس بھی مانگا جا سکتا ہے کو معاشی سدھار کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، سعودی عرب نے بھی ماضی کی نسبت اتنے پر ہی اکتفا کیا حالانکہ یہ کوئی زمانہ قدیم کا قصہ نہیں جب نواز شریف دور حکومت میں سعودی عرب نے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کی رقم بطور تحفہ دے دی تھی ۔یقینی طور پر اس میں شخصیت کا بھی اثر موجود تھا کہ پاکستان میں کون برسراقتدار ہے جو اب موجود نہیں لیکن اس کے باوجود سعودی عرب سے گفتگو میں مناسب انداز اختیار کیا جاتا تو اس سے بہتر بلکہ بہت بہتر نتائج کا حصول ممکن تھا اور ہے کیونکہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ سعودی عرب پاکستان میں اپنی ساکھ کو ایک رفتار سے اس سطح پر برقرار نہیں رکھ پا رہا جس سطح پر وہ کچھ عرصے قبل تک موجود تھی ۔ویسے ہی وطن عزیز میں پراکسیز کھڑی کرنے سے سعودی عرب ایران کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور اب یہ معاملہ بھی سعودیہ کے سامنے ہے، ایسی صورتحال میں سعودی عرب کو بھی ضرورت ہے کہ عالم اسلام کی اتنی بڑی طاقت کے معاشی مسائل حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اور عجمی طاقت بھی ایسی جس کے عرب دنیا سے کسی قسم کے مسائل موجود نہیں۔ ترکی اور ایران بڑی طاقتیں ضرور ہیں لیکن ان کو عرب دنیا سے اور عرب دنیا کو ان سے مسائل ہیں ویسے تو سعودی عرب اور ایران کی یہ بھی ضرورت ہے کہ دونوں ممالک اپنے باہمی تنازعات کو مل بیٹھ کر حل کرلیں کیونکہ وقت تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس وقت تو ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای ایران میں بہت طاقتور شخصیت کے طور پر موجود ہیں مگر ان کے بعد اتنی طاقتور شخصیت کی دوبارہ موجودگی ممکن نظر نہیں آرہی جبکہ سعودی عرب میں بھی شاہ سلمان کے بعد اس تسلسل میں تبدیلی آجائے گی جو کہ بہرحال کمزوری کی نشانی ہو گی‘ اس لئے یہی موقع ہے کہ دونوں طرف کی قیادت جو طاقتور بھی ہے ، اس موقع سے فائدہ اٹھا لے اور تنازعات حل کر لے اگر داخل ہی کمزور ہوجائے گی تو پھر خارجہ امور میں بڑے فیصلوں کا امکان معدومیت کی طرف گامزن ہو جائے گا۔ اس بات کو دیگر عرب ممالک محسوس بھی کر رہے ہیں اسی غرض سے یو اے ای کا اعلیٰ سطح کا وفد ترکی کی سرزمین پر سے یہ پیغام بھی دے رہا تھا کہ پالیسی میں بنیادی شفٹ ناگزیر ہے ،اگر بقا کو برقرار رکھنا ہے ۔ اب عربی عجمی کو ایک دوسرے سے ماضی کی شکر رنجیوں سے جان چھڑانا ہوگی کیونکہ مذہبی تقدس، مذہبی مقامات کے سبب حاصل ہوتا ہے لیکن قوموں میں مثبت تاثر بھی قومی مفادات کے حصول کے لئے بنیادی ضرورت ہے ۔ ترکی اس ضرورت کو سمجھتے ہوئے پاکستان میں اپنے مثبت تاثر کو قائم کرنے کی غرض سے اقدامات کر رہا ہے، لاہور میں ترک قونصلیٹ کی عمارت کی تعمیر کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ عمارت میں لاہور کا فن تعمیر اور ثقافت کی جھلک موجود ہو تاکہ اپنائیت کا احساس ہو ۔ ترکی کے لاہور میں متعین قونصل جنرل بھی اس حوالے سے بہت متحرک ہیں۔ گوجرانوالہ، فیصل آباد، سیالکوٹ میں بھی قونصل خدمات کو بڑھا دیا گیا ہے تاکہ پاکستانی عوام میں بہتر ساکھ قائم کی جا سکے۔ ہمارے دیگر برادر اسلامی ممالک کو اس سے سبق سیکھنا چاہئے کہ بہتر ساکھ ، بہتر رویے سے قائم ہوتی ہے جبکہ پراکسیز صرف تنازعات بڑھانے کا سبب بنتی ہیں ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین