• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بعض اوقات ایک طاقتور لہر پورے ماحول پر یوں چھا جاتی ہے کہ ہر شے لطافت کا روپ دھار لیتی ہے۔ مادے کا مَیل اور مادیت کی رسیاں غائب ہو جاتی ہیں۔تمام پردے زائل کر دئیے جاتے ہیں۔کنکشن کے بورڈ سوئچ لگنے سے براہ راست رابطہ استوار ہو جاتا ہے۔پھر انسان کا پورا جسم روح بن جاتا ہے، کائناتی دھڑکن کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر جھومنے لگتا ہے۔یہ کیفیت ہزار ہا بیماریوں کے شکار جسم و جاں کو وہ سرور اور توانائی عطا کرتی ہے کہ لمحوں میں خزاں کی بے رحمی کے شکار حیات کے ننگے شجر پر خوشی کے خوش رنگ پتے چہکنے لگتے ہیں۔

ایسی ہی ایک محفل تھی وجدان،الہام اور سرشاری کے رنگوں سے آراستہ پاکیزہ سوچ اور جذبوں کی مظہر۔ خواجہ فرید کے عرس کی مناسبت سے پلاک میں خواجہ غلام فرید کانفرنس جس کا ہر لمحہ روحانیت کے لازوال جمال میں ڈوبا ہوا تھا،بہت کانفرنسیں کرتے ہیں مگر انتظامات کی بھاگ دوڑ میں روحانی کیفیات تک رسائی کم کم ہوتی ہے۔لکڑی کا اسٹیج دل کا صحن نہیں بنتا تو موسیقی کی لہروں سےپھوٹتی ھو کی صدا سماعتوں سے ٹکرا کر لوٹ جاتی ہے۔

مگر اس بار طبلے پر پڑنے والی چوٹ روح کے دَر پر دستک بن گئی اور ہم سب اس والہانہ محبت کا حصہ بنتے گئے‘ جو خواجہ فرید کی شاعری کی اساس ہے۔ وزیر کلچر جناب خیال احمد کاسترو کی تقریر بھی اس الوہی سرور کی آئینہ دار تھی جو وقت نے اس ہال پر تان رکھا تھا۔ انھوں نے خواجہ فرید کی تعلیمات سے استفادے پر زور دیا اور تصوف کی انسانی قدروں کو اجاگر کر کے معاشرے میں رواداری کی فضا قائم کرنے پر زور دیا۔ ان کی سرپرستی میں پلاک ماہ دسمبر سے مذہبی اور کلچرل ٹوارزم کا آغاز کرنے جارہا ہے اور پہلی زیارت خواجہ غلام فرید کے دربار کی ہوگی۔

خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ ایک درویش صفت انسان ہیں جو ظاہری علم کے ساتھ ساتھ باطنی نور سے بھی مالا مال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سجادہ نشینی کی خلعت اوڑھ کر ایک جگہ بیٹھ نہیں رہتے بلکہ ہر لمحہ متحرک ہیں۔ذکر اور فکر ان کے عمل کا حصہ ہے۔ ملک میں چھائی فرقہ واریت کی دھند کو مٹانے اور ہم آہنگی کی فضا کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ محفل کی صدارت کرتے ہوئے انھوں نے اسی امن پسندی اور رواداری کی بات کی جو صوفیا کا خاصا رہا ہے۔کوٹ مٹھن کے اطراف رہتے لوگوں کی ترقی ان کے مطمع نظر رہی ہے۔

ان کی سر پرستی میں فرید شناسی کے حوالے سے مجاہد جتوئی کی تحقیق کیا عمدہ کاوش ہے۔ خواجہ فرید کی شاعری ایک ہجر زدہ عورت کی پکار ہے جو اپنے محبوب کے انتظار میں پل پل گِن کر گزارتی ہے، پل پل شمار کرنا دراصل ہر لمحہ اسے یاد کرنا اور اس کے خیال میں گم رہناہے ۔روہی ریاضت کی سرزمین ہے خواجہ فرید کا دل اس پجارن کا روپ دھار چکا ہے جو تن من محبوب پر وار چکی ہے۔وصل کی آس اسے روہی کی گرم ریت پر ننگے پاؤں دوڑاتی رہتی ہے۔ محبوب کا رستہ دیکھتی آنکھیں ان دنوں کے خواب بُنتی ہیں جب وہ دونوں اکٹھے پیلو چنیں گے۔یہی روہی اور اس کے وجود کی تکمیل کا وقت ہے۔

معرفت اور کرامت کی یہ محفل اس وقت انتہا کو پہنچی جب ٹین ایجر صوفی گلوکارہ میمونہ ساجد نے گانا شروع کیا، کیا حال سناواں دل دا کوئی محرم راز نہ ملدا۔پھر میں نے دیکھا وہ اکیلی نہیں گا رہی تھی ہم سب کے وجود ساز وآواز میں ڈھل گئے تھے۔ تبھی تو دل کا حال بیان ہونے لگا، من کے محرم راز نے تن کی کھڑکی کھول کر متوجہ کیا اور کہا، میں سن رہا ہوں، میں یہیں ہوں، مجھ سے بات کرو، مجھے کہو میرے علاوہ کون سنے گا، تن من اِک مِک ہوئے، وجود کے اندر کا ہجر ختم ہوا تو وہ وصل کے راستے پر گامزن ہو گیا۔

ساڈے نال سَدا تُوں وَس پِیا۔

وَس، ہَس، رَس، دِلڑی کَھز پِیا

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین