• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اومیکرون، کووڈ پر کنٹرول نہیں، عالمی اقدامات ہی اسے روک سکتے ہیں

کراچی (رفیق مانگٹ) کووڈ کی بہت زیادہ تبدیل شدہ اومیکرون قسم نے سائنسدانوں کو الرٹ کردیا ہے۔

عام زکام کے ساتھ جینیاتی مواد کے اشتراک کی وجہ سے اومیکرون زیادہ پھیلتا ہے۔

 اومیکرون سے ظاہر ہوتا ہے کہ کووڈ پر کنٹرول نہیں، عالمی سطح پر اقدامات ہی اس کو روک سکتے ہیں۔

 رپورٹ کے مطابق اومیکرون اور عام زکام میں گہرا تعلق سامنے آیا ہے۔اومیکرون ایک ایسی جینیاتی ترتیب پر مشتمل ہے جو دوسرے وائرسوں میں عام ہے جو زکام کا سبب بنتے ہیں۔ 

محققین کا کہنا ہے کہ وائرس کا اومیکرون ویرینٹ ممکنہ طور پرکسی دوسرے وائرس سے عام زکام کا سبب بننے والاجینیاتی مواد حاصل کر لیتا ہے یہ مواد اسی متاثرہ خلیے میں موجود ہوتا ہے۔ 

یہ جینیاتی ترتیب پہلے کسی بھی کرونا ویرئنٹ میں ظاہر نہیں ہوئی۔ یہ وائرس آسانی سے منتقل ہوتا ہے اور غیر علامتی بیماری کاسبب بنتا ہے۔

 ابتدائی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ پھیپھڑوں اور نظام انہظام میں ایک ہی خلیے میں کووڈ اور عام سردی والا وائرس پیدا ہوجاتا ہے اور یہ مشترکہ انفیکشن وائرل اپنی نقلیں بناتاجاتا ہے۔ 

ایک ہی جینیاتی ترتیب کئی بار کسی ایک وائرس میں ظاہر ہوتی ہے جو لوگوںمیں نزلہ ،زکام اور ایڈز کا سبب بنتی ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق اومیکرون قسم کے سامنے آنے سے ثابت ہوتا ہے کہ کووڈ پرہمارا کنٹرول نہیں ہے،صرف عالمی سطح پر اقدامات ہی اس بیماری کو روک سکتے ہیں۔

اگر یہ وائرس غیر ویکسی نیشن علاقوں میں پھیلتا رہتا ہے تو اگلی قسم اس سے بھی زیادہ مہلک ہوسکتی ہے۔دو سال سے پہلے کووڈآیا اور ایک سال بعد ہی اسکی ویکسین آگئی اس کے باوجود اس حیران کن پیش رفت کو ضائع کیا جا رہا ہے۔

 اہم بات یہ ہے کہ ابھی چیزیں تبدیل نہیں ہوئیں۔ گھر کے اندر ماسک پہننا، ٹیسٹنگ میں اضافہ، سماجی دوری، کورونا مثبت آنے کی صور ت میں علیحدگی،اور ویکسی نیشن یہ سب وائرس کی منتقلی اور اس سے بچانے میں معاون ہوسکتے ہیں۔کووڈ نے لاکھوں لوگوں کو ہلاک کیا،روزمرہ زندگی کو بدل دیا، لاک ڈاؤن سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے، عالمی رہنماوارننگ کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اپنی ہی آبادیوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔وہ آگ سے کھیل رہے ہیں۔

کئی ممالک ویکسین،ٹیسٹ اور علاج تک غیر مساوی رسائی کے خاتمے کے لئے تیار نہیں۔ 

منصفانہ رسائی یقینی بنانے سے وبا ختم ہو سکتی ہے۔ سائنسی جریدے کے مطابق محققین تعین کرنے میں لگے ہیں کہ تیزی سے پھیلنے والا کورونا وائرس ویکسین کے اثر کیلئے خطرہ ہے، یہ ویکسین کے ذریعے پیدا مدافعتی ردعمل سے بچ سکتا ہے اور کیا یہ دیگر اقسام کی نسبت زیادہ یا کم شدید بیماری کا سبب بنتا ہے۔ 

جنوبی افریقہ کے ڈاکٹر رچرڈ لیسلز کا کہنا ہے اس قسم کے بارے میں ہم بہت کچھ نہیں سمجھتے ہیں۔ میوٹیشن پروفائل ہمیں تشویش دیتا ہے ۔

بہت سی تبدیلیاں ڈیلٹا اور الفا جیسی مختلف حالتوں میں پائی گئی ہیں، اور ان کا تعلق انفیکشن کو روکنے والی اینٹی باڈیز سے بچنے کی صلاحیت میں اضافہ سے ہے۔ 

کمپیوٹر ماڈلنگ سے ایسے اشارے بھی ملتے ہیں کہ B.1.1.529 مدافعتی نظام کے ایک اور جزو کی طرف سے دی گئی قوت مدافعت کو روک سکتا ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ کیا یہ ویکسین کی افادیت کو کم کرتا ہے، کیوں کہ اس میں بہت سی تبدیلیاں ہیں؟ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی افریقہ میں جانسن اینڈ جانسن، فائزر ،بائیو ٹیک اور آکسفورڈآسٹرا زینیکا سے استعمال ہونے والے تین قسم کے ویکسین میں سے کوئی ایک حاصل کرنے والے لوگوں میں بریک تھرو انفیکشن کی اطلاع ملی ہے۔

 یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا یہ مختلف قسم ڈیلٹا سے زیادہ منتقلی کے قابل ہے۔جن ممالک میں ڈیلٹا بہت زیادہ پایا جاتا ہے انہیں B.1.1.529 کی علامات پر نظر رکھنی چاہیے۔

تازہ ترین