پاکستانی اسکواش ٹیم20ویں ورلڈ ٹیم اسکواش کے مقابلوں میں بھارت اور جاپان کے خلاف دو مسلسل ناکامیوں کے بعد سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہوگئی۔ بھارت اور جاپان نے پاکستان کو پہلی بار شکست دینے کا اعزاز بھی حاصل کرلیا۔ چیمپئن شپ میں ممکنہ طور پر پاکستان 5 سے 8 ویں پوزیشن کا حقدار قرار پائےگا۔ پاکستانی ٹیم نے اس سے قبل 2018ء میں جنوبی کوریا میں ہونے والے ٹیم ایونٹ میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔
ہانگ کانگ نے فائنل میں پاکستان کو شکست دیکر ٹائٹل حاصل کیا تھا۔ ٹیم ایونٹ چیمپئن شپ2020ء میں ملائشیا میں ہونی تھی لیکن کوویڈ کے باعث ممکن نہیں ہوسکی۔1981ء سے شروع ہونے والی اس چیمپئن شپ میں پاکستان نے 15 بارپہلی پوزیشن حاصل کی اور ٹرافی جیتی جبکہ چار بار دوسری پوزیشن حاصل کی اور 2008 ء میں پاکستان کی سب سے نچلی تیسری پوزیشن رہی تھی لیکن2021ء پاکستانی اسکواش کے حوالے سے بدترین بدترین سال ثابت ہوا جب اس نے ابتدائی تین میں سے کوئی پوزیشن حاصل نہیں کی۔ کوالالمپور میں ہونے والی چیمپئن شپ میں پاکستانی ٹیم کو گروپ اےمیں رکھا گیا تھا جس میں پانچ دیگر ٹیموں میں بھارت، انڈونیشیا، جاپان، عراق اور فلپائن شامل تھیں جبکہ گروپ بی میں ملائیشیا، ہانگ کانگ، ایران، کوریا، سنگاپور اور سری لنکا کو رکھا گیا تھا۔
ہر گروپ سے دو ٹاپ ٹیموں کو سیمی فائنل کیلئے کوالیفائی کرنا تھا۔ پاکستانی ٹیم نے ابتدائی دو میچز میں انڈونیشیا اور فلپائن کو شکست دیکر ایونٹ کاعمدہ آغاز کیا لیکن بھارت کے خلاف اہم میچ میں پاکستانی ٹیم کو2-1 سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے میچ میں پاکستانی کھلاڑی عاصم خان کو رمیت ٹنڈن نے زیرکرکے بھارت کو برتری دلوا دی۔ دوسرے میچ میں ناصر اقبال نے عمدہ فائٹ بیک کرتے ہوئے بھارتی مہیش مانگا ونکرکے خلاف 9-11، 13-11، 11-8، 11-7 سے فتح حاصل کرکے ٹائی کا اسکور 1-1 کرکے پاکستان کی مقابلے میں کامیابی کے امکان کو روشن کردیا لیکن تیسرا اور آخری مقابلہ بھارت کے حق میں رہا ۔
اگرچہ اس کا آغاز ٹاپ پاکستانی کھلاڑی طیب اسلم نے شاندا ر انداز میںمیں کیا اور عالمی نمبر15 بھارتی کھلاڑی سرو گھوسل کے ابتدائی دو سیٹ جیت کر اپنی کامیابی کے امکانات کو واضح کیا لیکن اس کے بعد سرو گھوسل نے ناقابل یقین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانچ گیمز کے سنسنی خیز مقابلے میں طیب اسلم کو 9-11، 7-11، 11-1، 11-7، 11-8 سے شکست دیکر پاکستان کی اس مقابلے میں فتح کو ناممکن بنا دیا۔
بھارت سے شکست کے بعد قومی ٹیم کی نظریں جاپان کے خلاف فتح پر مرکوز تھیں اور پچھلے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے اس بات کی توقع کی جارہی تھی کہ پاکستانی کھلاڑی جاپان کے خلاف ٹائی میں کامیابی حاصل کرلیں گے لیکن بھارت کے خلاف شکست کے بعد جاپان نے بھی پاکستانی ٹیم کو شکست دیکر سیمی فائنل کی دوڑ سے آؤٹ کردیا۔
پاکستانی ٹیم کی سیمی فائنل میں رسائی کیلئے جاپان کے خلاف کامیابی ضروری تھی۔ طیب اسلم نے جاپان کے ٹاپ سیڈ کے خلاف 3-1 سے شکست کھائی جبکہ ناصر اقبال نے دوسرے مقابلے میں جاپان کے نمبر دو کھلاڑی کے خلاف میچ 3-0 سے جیت کر ٹائی 1-1 کردی لیکن تیسرے مقابلے میں پاکستان کے عماد فرید کو جاپانی کھلاڑی نے 3-0 سے زیر کرکے اپنی ٹیم کو سیمی فائنل میں کھیلنے کا اعزاز دلوا دیا۔
سابق عالمی چیمپئن جہانگیر خان پاکستان کی عبرتناک شکست پر افسردہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا اسکواش میں نام رہا ہے ۔ ہمارے دور میں ایسا کبھی نہیں ہواجب غیر پیشہ ور افراد اس کے منتظم ہوں گے تو پھر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ پاکستان 30 سال تک عالمی چیمپئن رہا اور ایشین چیمپئن شپ میں تو اتنے بدترین نتیجہ کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ جان شیر خان نے کہا کہ پاکستانی اسکواش ٹیم کی کارکردگی پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔
ایشین ٹیم اسکواش چیمپئن شپ میں حصہ لینے والی ٹیم اور انتظامیہ سے پاکستانی قوم کا سرشرم سے جھکا دیا ہے۔ پاکستان نے برسوں اسکواش پر حکمرانی کی ہے اور اب لگتا ہے کہ اس کھیل میں ہمارے کارنامے ماضی کا شاندار حصہ بن جائیں گے۔ بھارت اور جاپان کی ہمیشہ خواہش رہی کہ پاکستان کو ہرائیں لیکن انہیں کبھی کامیابی نہیں ملی۔ ہم ان سے مقابلے کیلئے اپنی تیسرے نمبر کی ٹیم بھیجا کرتے تھے جو انہیں شکست دیتی تھی ۔
پاکستان اسکواش کے کوچز، ٹرینرز اور دیگر انتظامی افراد شفارش کی بنیاد پر عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ پاکستان اسکواش فیڈریشن کو گوگی علاؤ الدین، مقصود احمد، جہانگیر خان ، جان شیر خان اور دیگر ٹاپ کھلاڑیوں کی خدمات پسند نہیں۔ مجھ سمیت اس کھیل سے محبت کرنے والے آج اسکواش کی تباہی پر خون کے آنسو رو رہے ہیں۔