• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا اٹھنا بیٹھنا بونگوں کے ساتھ ہے، ابھی سے نہیں بلکہ بچپن سے میرا بونگوں کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بونگوں کی بونگی باتیں سن کر میرا بچپن گزر گیا۔ بونگوں کی بونگی باتیں سن کر میرا لڑکپن گزر گیا۔ بونگوں کی بونگی باتیں سن کر میری جوانی گزر گئی۔ اب بونگوں کی بونگی باتیں سن کر میرا بڑھاپا گزر رہا ہے۔ جب بڑھاپا گزر جائے گا تب بونگوں سے میرا واسطہ منقطع ہو جائے گا۔ جب بھی موقع ہاتھ لگتا ہے میں بونگوں کی باتیں آپ سے شیئر کرتا ہوں۔ بونگوں کی باتیں سنتے سنتے میں چکرا گیا ہوں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ بونگوں کی باتیں سن کر آپ بھی چکرا جائیں۔

یہ جو سیانے آپ کو اور مجھے بتایا کرتے ہیں کہ ہم سب ایک جیسے پیدا ہوتے ہیں۔ مگر محل وقوع، حالات اور ماحول ہمیں بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ ایسی باتیں اپنے پلے نہیں پڑتیں۔ سیانوں کی فرضی باتیں اور مفروضوں سے ہمیں اختلاف ہے۔

سیانوں کی ایک بات سے ہم مشروط متفق ہیں۔ محل وقوع، حالات، اور ماحول صرف انسانوں پر ہی نہیں، چرند پرند، اور نباتات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ایسے چرند پرند اور نباتات جو بدلتے ہوئے محل وقوع اور ماحول سے موافقت رکھتے ہیں، وہ بدلتے ہوئے حالات میں پھلتے پھولتے اور پنپتے ہیں، فنا نہیں ہوتے۔ اب رہا سوال انسان کا۔ سیانے ہمیں بتاتے ہیں کہ انسان ایک کورے کاغذ کی طرح اس دنیا میں آتا ہے، اور دیکھتے ہی دیکھتے کورے کاغذ پر مختلف نوعیت کی تحریریں عیاں ہونے لگتی ہیں۔

آپ کو اس دنیا میں کیا کرنا ہے، کیا نہیں کرنا ہے، آپ کیلئے سودمند کیا ہے اور نقصان دہ کیا ہے۔ آپ کے لئے اسمات یعنی سمتوں کا تعین کیا جاتا ہے،کونسی سمت آپ کیلئے مناسب ہے، کونسی سمت مناسب نہیں ہے،سب کچھ بتا دیا جاتا ہے۔ کچھ بھی آپ پر، اور آپ کی سوچ سمجھ کے مطابق فیصلوں پر چھوڑا نہیں جاتا۔ اگر سب کچھ پہلے سے طے شدہ، مقرر اور معین ہے تو قادر مطلق نے انسان کو سوچ سمجھ کے بھنڈار، عرف عام میں دماغ سے کیوں نوا زا ؟ قدرت نے انسان کو صلاحیتوں سے لیس کر کے دنیا میں بھیجا ہے۔ انسان کا موازنہ ہم نباتات اور حیوانات سے نہیں کر سکتے۔ جوالا مکھی جیسے گرم اور تپتے ہوئے افریقہ کے لوگ آسانی سے الاسکا اور انٹارکٹیکا Antaracticaجیسے یخ بستہ برفانی علاقوں میں رہتے ہیں۔ مگر آپ برگد، اور نیم کے درخت الاسکا میں نہیں لگا سکتے۔

ہم بونگے بالم سمجھتے ہیں اور مانتے ہیں کہ نوزائیدہ کے روپ میں انسان اپنی اپنی صلاحیتوں کے ساتھ Fully Loadedاس دنیا میں آتا ہے۔ انسان کی دو بنیادی جبلتیں پیدا ہونے کے ایک دو ماہ کے اندر دکھائی دینے لگتی ہیں۔ ایک جبلت ہے۔ پسند اور دوسری جبلت ہے ناپسند، آپ غور کریں، دو ڈھائی ماہ کا بچہ کچھ لوگوں کو دیکھ کر رونے لگتا ہے۔ ماں کے ساتھ چپک جاتا ہے، کچھ لوگوں کو دیکھ کر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑتا ہے، خوش ہو کر ان کی گود میں چلا جاتا ہے، ہم سب کی شخصیت ایک دوسرےسے منفرد ہوتی ہے۔ اسی طرح ہم سب کی جبلتیں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں۔

ہماری پسند نا پسند مختلف ہوتی ہے۔ پھر کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم سب ایک جیسے پیدا ہوتے ہیں، شکلاً بظاہر ہم ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والے جڑواں بھائی سو فیصد ایک جیسے نہیں ہوتے۔ تو پھر وہ باطنی طور پر ایک دوسرے جیسے کیسے ہو سکتے ہیں؟ جڑواں بچے بڑے ہو کر اپنی عادات، اطوار، پسند ناپسند اور رویوں میں ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں، سیانوں کا دعویٰ کہ ہم سب ایک جیسے ہوتے ہیں،ہم بونگوں سے ہضم نہیں ہوتا۔

قدرت کی حیرت انگیز دین، ہماری کھوپڑی میں پڑا ہوا، برین، بھیجا،مغز پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کی طرح کام نہیں کرتا کہ کروڑوں لوگوں کی کلائیوں پر بندھی ہوئی گھڑیوں میں ایک جیسا ٹائم دکھائی دے۔ ایسے ڈاکٹر ہم بونگوں کو ایک نظر نہیں بھاتے جو پریشان حال مریضوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’سوچا مت کرو‘‘ سوچ کا آنا، نہ آنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ سوچ خود بہ خود آتی ہے، سوچ اپنے آپ آتی ہے۔ اور وہ پاکستان اسٹینڈرڈ ٹائم کی طرح ایک جیسی نہیں ہوتی۔

ایک کلاس میں چالیس شاگرد بیٹھے ہوتے ہیں۔ آپ ان کو حالات حاضرہ Current Affairsپر لیکچر دے رہے ہیں۔ امکان سے بعید ہے کہ چالیس کے چالیس طالب علم آپ کے لیکچر سے ایک جتنا مستفید ہوتے ہیں۔کچھ طلبا کو آپ کا لیکچر مکمل طور پر سمجھ میں آتا ہے۔ کچھ طلبا کو کچھ کچھ لیکچر سمجھ میں آتا ہے،کچھ طلبا کو آپ کا لیکچر قطعی طور پر سمجھ میں نہیں آتا۔ آپ کا دیا ہوا لیکچر ان کے سر سے گزر جاتا ہے کہ کچھ طلبا دماغی طور پر دیگر طلبا سے آگے ہوتے ہیں۔

بات کی تہہ تک پہنچنے کیلئے اس بات یا موضوع میں آپ کی دلچسپی، لگائو لازمی سمجھا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ سمجھنا کہ کلاس میں بیٹھے ہوئے طلبا ایک ہیں، غلط ہے، قطعی غلط ہے، وہ اپنی اپنی جگہ فرد ہیں۔

ان کی اپنی اپنی شخصیت ہے، اپنی اپنی حیثیت ہے۔ اپنی اپنی مخصوص صلاحیتیں ہیں۔ ان کے اپنے اپنے رویےہیں۔ مختلف کالجز کی ٹیموں سے چیدہ چیدہ کھلاڑی چن کر ہم یونیورسٹی کی ٹیم بناتے ہیں۔ وہ ایک جان ہو کر میچز کھیلتے ہیں۔ مشترکہ مقصد ہمیں ایک دوسرے کے قریب لا کر ایکائی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یہ چھوٹی سی بات ہمارےسیاست دانوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ نعروں سے منتشر قوم ایک نہیں ہوتی۔ مشترکہ مقصد تلاش کیجئے سرکار۔

تازہ ترین