• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیف جسٹس صاحب درست فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے شہر اقتدار کو مفلوج کر دیا۔ اسلام آباد کا تماشا پوری دنیا نے دیکھا۔اس واقعے کے ایک دن بعد بھی اقتدار کے ایوانوں پر گہرا سقوط طاری تھا حکمران حسب سابق سرگوشیاں ہی کررہے تھے اور کہ تادیبی کارروائی کا آغاز کہاں سے کیا جائے؟ اسی اثناء میں اسی منصف اعلیٰ نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کی سرزنش کی ،جسے قوم بجا طور پر نجات دہندہ سمجھے بیٹھی ہے۔آج کی تحریر میں چند حقائق قارئین کے گوش گزار کروں گا۔
شام کے تقریباً پانچ بج چکے تھے۔گزشتہ کئی روز سے گہرے بادلوں کے سائے میں گھری مارگلہ کی پہاڑیوں کے اوٹ سے سورج کی دھیمی دھیمی کرنیں پُرامن شہر کی رعنائی و تابندگی میں اضافہ کررہی تھیں۔شاہراہ دستور کے نزدیک دفتر میں مجھے گولیوں کی آواز سنائی دی ۔چند لمحوں بعد ہی یہ خبر شہر کے ہر کونے میں پھیل چکی تھی کہ شاہراہ دستور سے چند میٹر دور ایک شخص نے بغیر کسی وجہ کے اندھا دھند فائرنگ کرنا شروع کردی ہے۔دفتر میں لگی ٹی وی اسکرینوں سے مخاطب ہوا تو وہ بھی اس خبر کی تصدیق کررہی تھیں۔پانچ گھنٹے تک ایک بندوق برادر شخص نے پورے اسلام آباد کی پولیس سے لے کر میڈیا کو یرغمال بنائے رکھا۔زمرد خان ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ نہ کرتے تو یہ سنسنی خیز اور تھرتھلی سے بھرپور فلم مزید کئی گھنٹے چلتی رہتی۔ زمرد خان کی اس جرأت کو حماقت کہنے والے دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کے بندوق کی گولی کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔
اس واقعے سے متصل کئی سوالات ایسے ہیں جن کا میں اب تک متلاشی ہوں۔سوال یہ نہیں کہ ہماری فورسز کے پاس ایک شخص کو قابو کرنے کی حکمت عملی یا تربیت نہیں؟ بلکہ سوال یہ ہے کہ آئی جی سے لے کرموقع پر موجود ایس ایچ او تک کسی افسر کے پاس کوئی اختیار تھا بھی کہ نہیں؟پوری پولیس فورس بے اختیار نظر آرہی تھی۔لگ رہا تھا کہ کسی غیبی اشارے کی منتظر ہے۔وہ تو اگر چوہدری نثار پریس کانفرنس نہ کرتے تو میں اس اضطراب کی کیفیت سے ہی نہ نکل پاتا۔دنیا بھر میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں مگر سیکورٹی فورسز معاملے کو حل کرتی ہیں۔ اسلام آباد سانحہ سے چار روز قبل امریکہ کی ایک ریاست میں اس سے ملتا جلتا واقعہ رونما ہوا۔پولیس نے مذاکرات کی بہت کوشش کی،احمد نامی شخص جو ذہنی طور پر بیمار بتایا جاتا ہے اس نے خاتون سمیت تین افراد کو یرغمال بنا رکھا تھا مگر پولیس نے ماہر نشانہ باز کی مدد سے اس کے ہاتھ میں موجود اسلحہ کو نشانہ بنایا اور اسے زخمی حالت میں گرفتار کرلیا۔امریکی نشریاتی ادارہ سی این این واقعے کی لمحہ بہ لمحہ کوریج کرتا رہا ۔اس واقعے کی امریکی سیکریٹری داخلہ سیلی جیول نے مانیٹرنگ نہیں کی بلکہ سیکورٹی فورسز کو ضروری ہدایات دینے کے بعد معاملہ ان پر چھوڑ دیا گیا۔مسئلہ یہاں سیکورٹی اداروں کی ناکامی کا نہیں بلکہ سیاسی قیادت کی کم ہمتی کا ہے، جو بروقت درست فیصلے نہیں کرپاتی۔ وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس میں خود کہا کہ انہوں نے آپریشن کی دو منٹ کی فوٹیج دیکھی ہے مگر سارے آپریشن کی نگرانی خود کررہے تھے۔ ہمارے ارباب اختیار کے اس قسم کے بیان سمجھ سے بالاتر ہوتے ہیں۔زمرد خان کی آمد سے تین گھنٹے قبل نبیل گبول بھی مذاکرات کے لئے پہنچے تھے۔ انہوں نے بھی مذاکرات کئے مگر انہیں کیوں نہیں روکا گیا؟کیا وزیر داخلہ اس سے بھی بے خبر تھے؟اگر چوہدری نثار آپریشن کی لمحہ بہ لمحہ صورتحال سے باخبر تھے تو انہیں کیوں نہیں پتہ چلا کہ تین گھنٹے قبل نبیل گبول اور پھر زمرد خان مسلح شخص سے مذاکرات کررہے ہیں؟پہلی بات تو یہ ہے کہ وزیر داخلہ کا کام پالیسی بنانا ہوتا ہے اس قسم کے آپریشنز کی نگرانی کرنا نہیں۔پھر بھی اگر انہیں اس واقعے کی نگرانی کرنا مقصود تھی تو انہیں اسلام آباد میں ہونا چاہئے تھا۔اگر وہ خود نہیں تھے تو دیگر لیگی ایم این اے و وزراء تو دارالحکومت میں تھے ہی نہ۔ویسے تو سیاستدانوں کا یہاں کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔جہاں پر ایک شخص نے دونوں ہاتھوں میں بندوق اٹھالی ہووہاں فورسز کی کارروائی بنتی ہے۔2001ء میں برازیل کے دارالحکومت برازیلیا میں موجودہ صدر ڈیلماروزیف کے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر مسلح شخص نے ایک گھر میں گیارہ افراد کو یرغمال بنالیا ،دارالحکومت کے اہم ترین علاقے میں ہونے کے باوجود کسی وزیر داخلہ یاسیاسی شخصیت نے دخل اندازی نہیں کی بلکہ سینئر پولیس افسران کی ٹیم کو فیصلے کا اختیار دیا گیا۔ آدھے گھنٹے کے آپریشن کے بعد یرغمالیوں کو باحفاظت بازیاب کرالیا گیااور مسلح شخص کو گرفتار کرلیا گیا۔ایسے موقعوں پر سیکورٹی فورسز فیصلے کرتی ہیں نہ کہ سیاسی قیادت۔آئی جی اسلام آباد کو حکم دے دیا جاتا کہ خاتون اور بچوں کو سو فیصد محفوظ کرنے کے بعد ملزم کو گرفتار کرلیا جائے۔جو ہماری فورسز بآسانی کرسکتی تھیں مگر آئی جی سکندر حیات تو جائے وقوعہ پر ایسے گم سم تھے جیسے ان کے اختیار میں کچھ بھی نہ ہو اور واقعی وہ بے بس تھے۔سب احکامات متعلقہ ایس پی اور ایس ایس پی کو فون پر دیئے جارہے تھے۔ابھی چند روز قبل ان کی قابلیت کو سراہتے ہوئے خصوصی جدہ سفارت خانے سے بلوایا گیا ہے ۔پولیس سروسز آف پاکستان کے قابل افسران پر بھی اعتماد نہ کرنا اور عقل کل کی طرح تمام اختیارات کا منبع خود بن جانا وزیر داخلہ جیسے دوراندیش سیاستدان کو زیب نہیں دیتا۔وزارت داخلہ کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ’ ہم تو دفتر میں ہونے کے باوجود سارے آپریشن سے لاعلم تھے کیونکہ وزیرداخلہ موقع پر موجود افسران کو خود ہدایت دے رہے تھے،افسر نے مزید بتایا کہ وہ گاڑی میں سفر کررہے تھے اور تما م حالات و واقعات کی اصل صورتحال سے بے نیاز تھے‘۔یہ واقعہ معمولی ضرور مگر اپنی نوعیت کا عجیب واقعہ تھا۔جب تک کوئی بھی شخص تصویر کے تمام رخ خود آنکھوں سے نہ دیکھتاوہ درست فیصلہ نہیں کرسکتا تھا۔اب ایسی صورتحال میں سینئر پولیس افسران کو معطل کرنے کا بیان مزید قیاس آرائیوں کو جنم دے رہا کہ آئی جی اور ایس ایس پی آپریشنز ڈاکٹر رضوان کی تعیناتی وزیر داخلہ کی مرضی کے بغیر کی گئی ہے اس لئے وہ اس واقعے کو جواز بنا کر انہیں معطل کرنا چاہتے ہیں۔اطلاعات یہ بھی آرہی ہیں کہ پارٹی کے اندر ہی دو گروپوں کے درمیان اختیارات کی سرد جنگ چھڑ چکی ہے۔اسی لئے ایک طرف وزیرداخلہ نے ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ کی سربراہی میں سینئر پولیس افسران کو معطل کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دی تو دوسری جانب چیف کمشنر نے ممکنہ طور پرمستقبل قریب میں معطل ہونے والے انہی پولیس افسران کی سربراہی میں دوسری تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی تاکہ افسران واقعے کی انکوائری کررہے ہوں گے اس لئے انہیں معطل نہیں کیا جائے گا۔اب ایسی صورتحال میں سیکورٹی فورسز کا یہ عالم ہے کہ دو ،دو دن تک مسلسل 24گھنٹے 200پولیس اور اے ٹی ایس(اینٹی ٹیرارسٹ اسکواڈ) کے نوجوان اسلام آباد سے مری تک روڈ کے دونوں اطراف کھڑے رہتے ہیں کہ حاکم وقت مری میں موجود ہیں۔ایک صوبے کے وزیراعلیٰ صرف اس لئے 14اگست کی پرچم کشائی کی تقریب چھوڑ کر مری فرنٹیئر ہاؤس تشریف لے آتے ہیں کہ عمران خان نے یوم آزادی مری کی وادیوں میں گزارنا ہے۔ وزیر اعلیٰ اور سیکورٹی فورسز کی موجودگی ان کے پروٹوکول کے شایان شان ہے۔ یہ ہے وہ انقلاب جس کا خواب ہم نے دیکھا تھا گویا ’چنے تھے جس قدر گلاب خار خار ہوگئے،بنے تھے جس قدر خواب تار تار ہوگئے،گلاب ہیں نہ خواب ہیں عذاب ہی عذاب ہیں۔تبدیلی کی وہ صبح خوش جمال جس کا سورج ہم نے11 مئی کو طلوع ہوتے دیکھا وہ تو محض ایک سراب تھا۔اندھیرے تو بدستور بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ایسے میں میرے لبوں پر اس شعر کے الفاظ مچل جاتے ہیں۔
شب کی تعزیر پھیلی ہے چار سو
تو بضد ہے کہ میں اسے سویرا کہوں؟؟؟
تازہ ترین