• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

پنجاب کا مقبول کھیل

اس دفعہ جو ’’عالمی افق‘‘ کی جانب نظر اٹھی، تو مطلع گرد آلود پایا یا پھر اسموگ کے اثرات دکھائی دیئے۔ منور مرزا نے آکوس کی طرف توجّہ دلائی۔ اب دیکھیے، فرانس کے اختلاف کےباوجود امریکا، برطانیہ اورآسڑیلیا انڈو پیسیفک میں توازن کا محور کیسے گھماتے ہیں۔ برصغیر میں احیائے دین کی کوششوں سے متعلق مختلف روایات موجود ہیں، جو یقینی طور پر بزرگانِ دین، اولیا اللہ کی کاوشوں کا ثمر ہیں۔ ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے حضرت مجدّد الف ثانی پر شان دار تحریر لکھی۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ میں مہتاب اکبر راشدی کا سیاسی رنگ دیکھا، بھئی خُوب۔ واقعی، رول ماڈل بننے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ شفق رفیع بچپن کی یادیں لیے آئیں، پڑھ کے حیرانی ہوئی کہ ’’پٹھو گرم‘‘ تو پنجاب کا بھی مقبول کھیل ہے۔ ایسی خُوب صُورت، اُجلی ثقافتی تحاریر میگزین میں گاہے بگاہےشامل ہوتی رہنی چاہئیں۔ ڈاکٹر روفینہ سومرو کی بریسٹ کینسر سے متعلق، سوالاً جواباً مفصّل تحریر کا جواب نہ تھا، ساتھ ہی ڈاکٹر اطہر رانا کی دانتوں سے متعلق معلوماتی تحریر موجود تھی۔ ناول ’’دُھندلے عکس‘‘ نے اپنی طرف بھرپور توجّہ مبذول کروالی ہے۔ غادہ، اسراء، نایاب، رسیم اور غضنفر کے گرد گھومتی کہانیاں ہر ایک کو اپنی گرفت میں لےرہی ہیں۔’’کہی اَن کہی‘‘ میں معروف خاندان سے تعلق رکھنے والے علی عباس کی دل کی باتیںپڑھ کے مزہ آیا۔ ’’بلوچستان کی خزاں‘‘ کے توسّط سے فاضل جمیلی کی ایک عُمدہ غزل بھی پڑھنے کو مل گئی۔ قیامت خیز زلزلےسے متعلق سیّد ثقلین علی نقوی کی یادداشتیں رُلا گئیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ علم بانٹنے والے اساتذہ کو خراجِ تحسین و عقیدت پیش کررہا تھا، تو ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ بھی اساتذہ کو سلام پیش کرتا نظر آیا۔ کتابوں کو انبار دیکھنا بھی اچھا لگا اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں محترم راجاصاحب نےہمیں سراہا، بےحد ممنون ہیں۔ (ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)

ج:شفق کے مضمون میں مجموعی طور پر پورے پاکستان ہی کے مقبول کھیلوں کا تذکرہ تھا، تو پنجاب کے کسی کھیل کے ذکر پر حیرت کیسی؟

کہ دل ابھی بَھرا نہیں …

نبی کریمﷺ کی محبّت و عظمت تو زندگی کا سرمایہ افتخار ہے، لیکن یہ جذبہ ’’سنڈے میگزین‘‘ کے اسلامی مضامین پڑھ کر دوچند ہوجاتا ہے۔ 24 اکتوبر کے شمارے میں ثروت جمال اصمعی نے ’’بائبل میں حضورﷺ کی آمدکی واضح بشارتیں‘‘ کےعنوان سےبہترین مضمون تحریر کیا۔ احمد دیدات نے عیسائی علماء سے جو مدلّل گفت گو کی، وہ قابلِ تحسین ہے۔ شفق رفیع اپنے مخصوص انداز میں ’’محسنِ پاکستان‘‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو خراجِ عقیدت پیش کرتی نظر آئیں۔ جہاں پڑوسی ملک میں ایک بہت بڑی ٹیم نے ایٹمی ہتھیار تیار کیے، وہیں مُلکِ خداداد میں ایک مختصر، مگر پُر عزم ٹیم نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا، جس کے سُرخیل ڈاکٹر صاحب ہی تھے، لیکن افسوس، ہم نے اُن کی قدر نہیں کی، کیوں کہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم محسنوں کی قدر نہیں کرتے۔ پولیو، فالج اور آرتھرائٹس (جوڑوں کا درد) سے متعلق معلوماتی مضامین بھی شاملِ اشاعت تھے۔ الحمدللہ، پاکستان پولیو کے خاتمے کے قریب ہے۔ ’’متفرق‘‘ میں دوبارہ ’’محسنوں کی ناقدری‘‘ کا احساس ہوا۔ بابائے اردو، مولوی عبدالحق کی زندگی بھر کا سرمایہ، اردو یونی ورسٹی زبوں حالی کا شکار ہے۔ منور مرزا نے ’’حالات و واقعات‘‘ میں امریکا اور چین کے تنازعے پر روشنی ڈالی، تو نور خان محمّد حسنی نے بلوچستان کے روایتی کھانوں پر عُمدہ مضمون لکھا۔ ریحام خان پر فاروق اقدس کی ریسرچ بھی بہترین تھی، جب کہ ناقابلِ فراموش کے واقعات بھی پسند آئے۔ ’’نئی کتابیں‘‘ مطالعے کے شائقین کے لیے بہترین رہنما ہیں۔ کئی سال بعد خط تحریر کررہے ہیں، اس لیے غالباً طویل ہوگیا، لیکن ابھی دل نہیں بَھرا کہ آپ کے تو تمام ہی شمارے بہترین ہوتے ہیں۔ (فرّخ جامی، کورنگی، کراچی)

ج:طویل عرصے بعد خط لکھا ہے، مگر آخری بار تو نہیں۔ تو اگلی بار دل کی کچھ مزید باتیں کہہ، سُن لیجیے گا۔

اگر گراں نہ گزرے

محترم ایڈیٹر صاحبہ! تم نے تو کمال ہی کردیا۔ ہم نے پہلے اپنی چھوٹی سی تحریر بھیجی، سوچا، چَھپ گئی تو واہ، ورنہ آہ۔ پھر ’’ناقابلِ اشاعت‘‘ میں اپنا نام دیکھ کر سوچا، پہلی دفعہ لکھی تھی، مگر خواب کچھ زیادہ ہی اونچے دیکھ لیے تھے۔ خیر، کچھ زیادہ افسوس نہ ہوا۔ مگر اُس سے اگلے ہفتے اپنا خط اور تمہارا جواب پڑھا۔ بس پھر تو سامنے اُمید کا پورا سمندر نظر آنے لگا۔ ویسے جواب میں جو چُبھن تھی، اُس کا ریکارڈ بیٹی، داماد، بہو، بیٹے نے خوب لگایا۔ ننّھا جاسم بھی کہنے لگا، ’’انّا! برداشت کریں، ایسے مرحلے تو آتے ہیں‘‘۔لغت احمدچھوٹی ہیں، تو کچھ نہ سمجھیں۔ لیکن اس ہفتےتم نےمیری کہانی ’’میامی سے بدایوں تک‘‘ شاملِ اشاعت کرکے کرم کیا۔ کافی عرصے پہلے کچھ لکھا تھا، مگر دوبارہ ہمّت اور حوصلہ نہ کر پائی۔ بس، یہ چھوٹی سی جذباتی آپ بیتی تھی، جو لکھ ڈالی اورتم نےبھی مایوس نہ کیا، شکریہ۔ کراچی یونی ورسٹی سے اسلامک لرننگ میں ماسٹرز کیا پھر بی۔ ایڈ، مگر ہائوس وائف ہی رہی۔ خیر، تفصیل جانے دو، میگزین سے برسوں کا رشتہ ہے، بہت محبت ہے اس سے۔ سارےصفحات ہی اچھے ہیں، بس ذرا سیاسی صفحہ کھلتا ہے، ویسے آگاہی کے لیے سب ہی کچھ پڑھ لیتے ہیں۔ میری ایک رائے ہے، اگر گراں نہ گزرے تو خطّاطی سے متعلق بھی کوئی مضمون شایع کرو۔ ماضی میں چھاپ بھی چُکی ہو، مگر حالاتِ حاضرہ کے تحت یہ اس لیے بھی ضروری ہےکہ ہماری نئی نسل اپنی لکھائی پرتوجّہ نہیں دیتی، آن لائن کلاسز سےمزید خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ (مسز خالدہ خان، کراچی)

ج:میڈم! اس میں گراں گزرنے والی کیا بات ہے۔ اچھا مشورہ تو جو جہاں چاہے، جب چاہے، دے سکتا ہے اور دینا بھی چاہیے، لیکن خالی خطّاطی پر مضمون شایع کرنے سے کیا ہوگا۔ اس نئی نسل کو تو باقاعدہ تختی لکھنی سکھانی چاہیے۔ اور ہاں، آپ نے خط میں، جس بچّی کا تذکرہ کیا، اُس کا نام واقعی ’’لغت احمد‘‘ ہے؟

ساتھ پُرانا، رُوپ نیا

سنڈے میگزین سے ہمارا ساتھ پُرانا ہے، مگر ہر بار اس کا سرِورق اور رُوپ بالکل نیا ہی ہوتا ہے۔ سرچشمۂ ہدایت سے لے کر آخری صفحے تک خُوب دل چسپی اور دل جمعی سے پڑھتے ہیں۔ (شری مُرلی چند جی گوپی چندگھوکلیہ، شکارپور)

ناول، لاجواب ہے

تازہ سنڈے میگزین میں اس مرتبہ سرچشمۂ ہدایت میں اقصیٰ منوّر ملک اور طہورہ شعیب کے مضامین بہت اچھے لگے، پڑھ کر دلی سُکون ملا۔ حالات و واقعات میں منور مرزا نے پاکستان کی خارجہ پالیسی پربہت ہی اعلیٰ مضمون لکھا۔ سنڈے اسپیشل میں شفق رفیع نے بھی میڈیا اتھارٹی پر کیا شان دار مضمون باندھا،سن 1958ء سے شروع کیا اور آج تک کے حالات بیان کردیئے۔ ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی کی تحریر بھی بہت پسند آئی۔ پیارا گھراچھا لگا، خصوصاً کریلے پر شاہین ولی شاد نےخُوب لکھا۔۔ کرن عباس کرن کا ناول اچھا جارہا ہے۔ ڈائجسٹ میں تین نعت شایع کر کے آپ نے دل خوش کردیا۔ شہلا خضر کی ’’منافق‘‘ اچھی تھی۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ اور ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کا بھی جواب نہیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ناک پونچھنی نہیں آتی تھی

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے متبرّک صفحات شامل تھے۔ عالمی شہرت یافتہ سائنس دان، ڈائریکٹر انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجی سائنسز، پروفیسر ڈاکٹر محمّد اقبال چوہدری سے گفتگو کی گئی اور ہم یہ پڑھ کر حیران رہ گئے کہ اُن کے والد صاحب نے اُن کو تین سال کی عُمر ہی میں تقریر کے لیے اسٹیج پر کھڑا کر دیا تھا۔ اس عُمر میں تو مجھے ناک پونچھنی بھی نہیں آتی تھی۔ ’’نیرنگئی سیاست‘‘ میں اس بار ماروی میمن تھیں، واقعی کبھی اُن کے بغیر مختلف چینلز کے ٹاک شوز سجتے ہی نہیں تھے۔ اقوامِ متحدہ اجلاس میں ہرمُلک کااپنا ہی رونا تھا۔ ناول ’’دُھندلے عکس‘‘ کام یابی سے جاری و ساری ہے۔دوسرا شمارہ ’’عید میلاد النبیؐ نمبر‘‘ تھا۔ دیکھ اور پڑھ کر دل و دماغ ہی نہیں، رُوح بھی خوش ہوگئی۔ کیا حکومت اور شعبۂ صحافت کبھی ایک پیج پر اکٹھے ہوسکتے ہیں، مجھے تو نہیں لگتا۔ نام وَر سفر نامہ نگار، سلمیٰ اعوان نے اس بار مصری سفارت خانے میں منعقدہ ایک کتاب کی رونمائی کی داستان تحریر فرمائی، اور کیا ہی دل چسپ اور رواں انداز میں کہ پڑھ کے لُطف آگیا۔ آپ کا بہت شُکریہ کہ لگاتار تین شماروں میں میرے تین خطوط شاملِ اشاعت فرمائے۔ ایک درخواست ہے، مسٹر خوامخواہ، مسٹر واہیات اور مسٹر غائب دماغ جیسے فرضی ناموں والے خطوط کی اشاعت بند فرمائی جائے۔ یہ مسٹر واقعی غائب دماغ ہیں، جو 2020ء کے شماروں پر 2021ء کے آخر میں تبصرہ فرما رہے ہیں۔ (پرنسں افضل شاہین،نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: اگر 3برس کی عُمر تک ناک پونچھنی نہیں آئی تھی، تو آپ ڈاکٹر اقبال چوہدری بھی تو نہیں ہیں۔

مَیں ویکسی نیٹڈ ہوں!!

اُمید ہے، میری یہ تحریر آپ کو حسبِ معمول اپنے شمارے کو نیا رنگ روپ و نکھار دیتا ہوا پائے گی۔ مزید سنگھار کے لیے آج کی تازہ خبر ’’مَیں ویکسی نیٹڈ ہوں‘‘ کی سُرخی تلے ایک تحریر لیےحاضر ہوں، اگر اِس پر آپ کے نظرِ انتخاب ٹھہر گئی، تو محنت وصول پائے گی۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)

ج: یقیناً آپ کو اپنی محنت وصول پا گئی ہوگی۔

پُرپیچ راہوں میں…

24اکتوبر کا شمارہ موصول ہوا، سرِورق پر ماڈل سُرمئی رنگ کی پوشاک میں ملبوس تھی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا چین اور امریکا کے درمیان سلگتے ہوئے مسئلے، تائیوان پر تجزیے کے ساتھ آئے۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ امریکا کو چین کا پیمانۂ صبر لب ریز نہیں کرنا چاہیے، وگرنہ علاقےمیں ناقابلِ یقین تباہی آسکتی ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ثروت جمال اصمعی کی تحریر کردہ احمد دیدات کی عیسائی علماء سے گفتگو انتہائی متاثر کُن تھی۔ واللہ، عیسائی علماء کیسے مدلّل حقائق کےسامنےلاجواب ہوئے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں شفق رفیع ہماری قومی روایتی بےحسی پر شکوہ کُناں تھیں کہ ہم اپنے اتنے بڑے محسن، ڈاکٹر عبدالقدیر کی عنایتوں، احسانات کا بدلہ نہ چُکا سکے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ ہی میں رئوف ظفر نے پولیو سے متعلق عُمدہ تحریر رقم کی۔ بلوچستان کے روایتی مزے دار کھانوں کا تذکرہ بھی بہت مزے کا تھا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال ’’نیا دور، نئی وارداتیں‘‘ کے عنوان سے بہترین معلوماتی مضمون لائے۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ میں فاروق اقدس، وزیراعظم عمران کی سابقہ اہلیہ، ریحام خان کا تذکرہ کررہےتھے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں عالیہ کاشف نے سادہ، مگر منفرد ملبوسات سے متعارف کروایا۔ کرن عباس کے ناول کی چھٹی قسط ہے، مگر وہ ابھی تک پُرپیچ راہوں ہی میں گھما رہی ہیں۔ ڈورکاکوئی سراہاتھ آنہیں رہا۔ ناقابلِ فراموش کے دونوں واقعات نصیحت آموز تھے۔ اللہ تعالیٰ مسز خالدہ خان کے والدین کی مغفرت فرمائے، آمین۔ نئی کتابوں پر اختر سعیدی نے اپنے مخصوص انداز میں بھرپور تبصرہ کیا اور اب آپہنچے ہیں، ہم اپنے صفحے پر ’’اس ہفتے کی چِٹھی‘‘ کا اعزاز اقصیٰ منور ملک کے حصّے آیا، باقی خطوط نگاروں نے بھی اچھی قلم کاری کی۔ (شہزادہ بشیر احمد نقش بندی، میر پور خاص)

ج: حوصلہ رکھیں، پُرپیچ راہیں، جلد آسان ہوجائیں گی۔

                      فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

عشق، سمندروں ڈونگا، مَیں کیویں اینوں پار کراں… جیسا معاملہ سنڈے مارننگ کو ہمارے دل کا ہوتا ہے کہ کہاں سے آغازِ مطالعہ کریں۔ اصولِ راست بازی کی پاس داری کرتے ہوئے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے ورق گردانی شروع کی۔ ’’تذکرہ اللہ والوں کا‘‘ اہلِ طریقت کے ساتھ ساتھ اہلِ عقیدت کےلیے بھی اِک تحفۂ خاص ہے۔ نمبرشماری واسطے اگر اس گل دستہ تصوّف پر قسط نمبر بھی شایع کر دیا جایا کرے، تو بہتر ہو، اس سے صاحبِ تحریر محمّد احمد غزالی ناراض تو نہ ہوں گے؟ ہمارے مَن کے راجا، منور راجپوت نے پروفیسر ڈاکٹر محمّد اقبال چوہدری کے ساتھ اپنے دو صفحاتی پُرمغز مکالمے میں جو سوال نمبر5 پوچھا۔ ’’شادی کب ہوئی اور کیا اپنی مرضی سے کی؟‘‘ تو اُن کی جگہ گر ہم ہوتے تو یوں گویا ہوتے، ’’بھئی، شریف انسان شادی کرتے نہیں بلکہ اللہ وَلوں خود ہی ہو جاتی ہے۔ ہاہاہا!‘‘ ماہرِ اغذیہ، ڈاکٹر غفران سعید کے چار کالمی غذائیت بخش آرٹیکل کا خلاصہ، ٹاپ سب ٹائٹل کی صُورت جناب نے خُوب دیا کہ ’’ہمارا طرزِ عمل ہی ہمارا مستقبل…‘‘ باالفاظ دیگر As we sow, so shall we reap رسالے کے سلسلہ ہیلتھ اینڈ فٹنس(مثلِ نگہبانِ صحت) کےایس واری دو صفحات تھے، دو ہی مضامین اور دو ہی عالمی ایّام (ارتھرائٹس اور بصارت)زیرِ تبصرہ تھے۔ شہرِ اقتدار کے باسی، فاروق اقدس کی قلمی کاوش ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ قابلِ تعریف ہے، مگر اِک خیال مَن ہے کہ سیاسی پارٹیاں بدلنےکاماہر تو طبقہ مَرداں ہے (لوٹے و فصلی بٹیرے) مگر فاروق بھیّا نے سیاسی جال تتلیوں پر پھینکا ہے۔ فارن افیئرز ایکسپرٹ منور مرزا نے ’’حالات و واقعات‘‘کےبینرتلےاپنے Article aeroplane میں امریکا، جرمنی، مراکش تک کی سیر کروا دی۔ شُکر ہےلوح پر ’’عالمی افق‘‘ نہیں لکھا تھا، وگرنہ قارئین کو کہکشاں کی Tail تک چھوڑ آتے۔ ’متفرق‘‘ میں شہیدِ ملّت لیاقت علی خان کے نام کے ساتھ خان زادہ لکھا گیا (پہلی بار پڑھا ہے، وگرنہ تو نواب زادہ ہی پڑھتے، سُنتے آرہے ہیں)۔ نئے ناول کی چاراقساط سےقلبِ سلیم کےتین چوتھائی ’’دُھندلے عکس‘‘ دُور ہوگئے ہیں، آگے آگےدیکھیے ہوتا ہے کیا… ویسے زیرِنظر شمارے میں عالمی ایّام کی بہار تھی۔ پیارا گھر میں ہم سخن روبینہ فرید اور نازلی فیصل کی تحاریرکی تاثیر’’دل دا بُوہا‘‘ کھول کر دماغ کے پردوں پر منقش ہوگئی۔ بجا لکھا اور خُوب لکھا۔ اور کوچہ سخن ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں نادیہ ناز، قائم خانی، مسٹر خیرخواہ، پرنس اور نواب زادہ سبھی گل ہائے بہارِ جاں فزأ کی طرح مہک رہے تھے، جب کہ وسطِ چمن میں نقش بندی کا گلاب نامہ ’’چٹھیاں دا شہزادہ‘‘ ٹھہرا، مبارک ہو۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: اور آج جو یہ سلیم نامہ ایک بار پھر ’’چٹھیاں دا راجا‘‘ ٹھہرا ہے۔ اِن کا بھی کوئی حساب کتاب ہے کہ نہیں۔

گوشہ برقی خُطوط

مَیں اپنا آرٹیکل شایع کروانا چاہتی ہوں۔ سو، پلیز مجھ سے رابطہ کیجیے۔ (شائننگ اسٹار)

ج: ایڈی تُوں بیپسی سدھوا، کاملہ شمسی… کہ ہم، تم سے خود رابطہ کریں۔ آرٹیکل شایع کروانے کا شوق ہے، تو آرٹیکل بھیجو۔ رابطے شابطے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔

ہر اتوار سنڈے میگزین پڑھنے کو نہ ملے تو اتوار، اتوار نہیں لگتا۔ پورا جریدہ معلوماتی اور دل چسپ سلسلوں سے مزیّن ہوتا ہے۔ خصوصاً مَیں قاسم علی شاہ کے انٹرویو کی اشاعت پر بےحد ممنون ہوں۔ ممکن ہو تو ستاروں کے احوال کا سلسلہ بھی شروع کردیں، میگزین کو چارچاند لگ جائیں گے۔ (عمران خالد خان، گلستانِ جوہر،کراچی)

ج:فی الحال تو کوئی نیا سلسلہ شروع نہیں کیا جاسکتا۔ خصوصاً یہ ستاروں کے احوال وغیرہ کا تو بالکل بھی نہیں۔

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ ہمیشہ کی طرح بہترین تھا۔ بچّوں کی اونٹ لائبریری سے متعلق مضمون بہت ہی پسند آیا تھا۔ ایسی تحریریں وقتاً فوقتاً شایع ہوتی رہنی چاہئیں۔ خادم ملک سے آپ کی نوک جھونک خوب مزہ دیتی ہے۔ ویسے وہ موصوف بھی اپنے نام کے ایک ہی ہیں۔ آپ کچھ کہہ لیں، اپنی روش سے باز نہیں آتے۔ (قرأت نقوی، ٹیکساس، یو ایس اے)

ج:کوئی مسئلہ نہیں۔ ہم بھی اب عادی ہوچکے ہیں۔

شُکر ہے، ہاشم ندیم کے علاوہ بھی کسی کا ناول شروع ہوا۔ اب پلیز اِسے ادھورا مت چھوڑ دیجیے گا۔ (اقبال شاکر)

ج: جی، خاصی عبرت ہو چُکی ہے، اب ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ اسی لیے ناول نگار سے پورا ناول ایک ساتھ ہی منگوا لیا گیا ہے۔

کیا مَیں ہیلتھ ایشوز، خصوصاً کارڈیک ایشوز پر آپ کو اپنی تحریریں بھیج سکتا ہوں۔ (ڈاکٹر عمران تیمور، ڈی ایچ کیو ہاسپٹل، میاں والی)

ج: بصد شوق، ڈاکٹر صاحب!!

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین