• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

میوزیکل لیٹر

’’لے کے پہلا پہلا پیار، بَھر کے آنکھوں میں خمار، جادونگری سے آیا ہے کوئی جادوگر…’’ آج ہم نہ صرف میگزین کی تعریف و توصیف کے پُل باندھیں گے، بلکہ بذریعہ نغمات اسے چار چاند بھی لگائیں گے۔ ہمارے مَن پسند موضوع ’’بلوچستان، نایاب پرندوں، جانوروں کا مسکن‘‘ پڑھ کر خطّے کی بابت تفصیلاً معلوم ہوا، جو مکمل طور پر ایک ’’Zoo tour‘‘ بھی رہا۔ ’’بچپن کے کھیلوں‘‘ کے حوالے سے شفق رفیع کی لحیم و شحیم تحریر چٹخارے دار اور معصوم یادوں سے بھرپور تھی۔ وہ کیا ہے کہ ’’چُھو کر میرے مَن کو کیا تُونے کیا اشارہ…‘‘ مُلکی سیاست سے متعلق تو میری یہی رائے ہے کہ کچھ کالی بھیڑیں گُھس آئی ہیں، جنہوں نے سب ملیا میٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ یوں کہیے، ’’دل کے ارماں آنسوئوں میں بہہ گئے…‘‘ ناول ’’دُھندلے عکس‘‘ پر تو جیسے نگاہ ٹھہر کے ہی رہ گئی۔ سچ، آپ سے سارے گلے شکوے دُور ہوگئے۔ اب تو یہی گنگنا رہے ہیں۔ ’’تم پاس آئے، یوں مُسکرائے، تم نے نہ جانے کیا سپنے دکھائے…‘‘ آپ کا جنگ پزل تو بھئی، بہت ہی پزل کرتا ہے، باقی سلسلے بہترین ہیں۔ اور آپ کا صفحہ کی بابت یہی کہیں گے۔ ’’یہ دل تم بن کہیں لگتا نہیں، ہم کیا کریں…‘‘ جب کہ پورے جریدے کے لیے دل سے یہی صدا نکلتی ہے کہ ’’تیرے بِنا زندگی سے کوئی شکوہ تو نہیں، شکوہ نہیں،تیرے بِنا زندگی بھی لیکن زندگی تو نہیں، زندگی نہیں…‘‘ کہیے، کیسا لگا ہمارا یہ میوزیکل لیٹر…؟؟ (آصف احمد، پاک کوثر ٹاؤن، کھوکھراپار، ملیر، کراچی)

ج: اچھا ہے، مگر نغمات کے بول، ہم نے اپنی یادداشت سے درست کیے ہیں، آپ نے تو اِن کا بھی وہی حال کررکھا تھا، جو معروف شعراء کے کلام کا کرتے ہیں۔

ہزارہا خوش گوار صُبحیں

اُمید ہے، آپ بخیر ہوں گی۔ خدا کرے، ہر قاری کی زندگی میں ہزارہا خوش گوار صُبحیں طلوع ہوں اور سنڈے میگزین ہمیشہ کی طرح سب کے لیے امن و محبّت کا پیام بَر بن کر آئے۔ شمارے میں شامل زیادہ تر تحریریں دل چسپ اور معلوماتی ہوتی ہیں۔ شادی کے بعد مصروفیات بڑھ گئی ہیں، اِس لیے باقاعدہ خط نہیں لکھ پارہا ہوں۔ (شری مرلی چندجی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)

ج:کوئی بات نہیں۔ آپ کو گرما گرم ناشتا تو مل رہا ہے ناں!!

وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے…

ستمبر کا دوسرا شمارہ ملا۔ سرِورق سے سیّد علی گیلانی، نایاب پرندوں کا مسکن اور نیرنگئ سیاستِ کے عنوانات جھانک رہے تھے، سُرخ فراک میں ماڈل کِھل رہی تھی۔ وہ کسی نے کیا خُوب کہا ہے؎ امن ہو یا جنگ ہو، دوستوں کے سنگ ہو۔ ہمیں تو سُرخ پسند ہے، لہو ہو یا رنگ ہو… نیل پینٹ، بالیاں اور بالوں کا اسٹائل سب زبردست تھے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں منور راجپوت نے علی گیلانی پر اچھا لکھا۔ کیا سچّے پاکستانی تھے، عُمر بھر غاصب بھارت کو للکارتے رہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ تو بہت ہی اچھا جا رہا ہے۔ حضرت بغدادیؒ کے حوالے سے نہایت ہی پُراثر تحریر پڑھنے کو ملی۔ فاروق اقدس نے ’’نیرنگئٔ سیاستِ دوراں‘‘ میں فرزانہ راجہ اور بیگم عشرت اشرف سے تفصیلاً روشناس کروایا۔ ارسلان فیاض نے نایاب پرندوں پر لکھا۔ منور مرزا نے ’’ایشیا کی ترقی کی صدی‘‘ پر قلم آرائی کی۔ ممکن ہو تو انٹرویو کے لیے ادبی شخصیات کا انتخاب کریں۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں بلڈ کینسر کے حوالے سے معلوماتی مواد موجود تھا۔ پیارا گھر خُوب رہا۔ کنول بہزاد کی ’’روم میٹ‘‘ بھی پسند آئی۔ ہمارا صفحہ تو ہمیشہ کی طرح لاجواب ہی تھا۔ اگلا شمارہ ملا۔ پورا جریدہ ہی ’’یہ چاندنی کہ تمازت ہے تیرے پیکر کی…‘‘ کی مثل لگا۔ جرمن انتخابات، اختر چنال اور سیاسی خواتین سرِفہرست رہیں۔ منور مرزا نے جرمن الیکشن پر تفصیلاً لکھا۔ محمّد احمد غزالی نے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ پر لکھا، جس سے کافی معلومات حاصل ہوئیں۔ ناول کی اشاعت پر تو دل باغ باغ ہے، کیسے شکریہ ادا کریں۔ سینٹراسپریڈ کی ماڈل دیکھ کر بے اختیار ایک شعر ہونٹوں پر آگیا ؎سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے.....باوضو ہوکے بھی چُھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ اختر چنال کا انٹرویو بھی پسند آیا۔ اور اپنے صفحے کا تو کوئی مول ہی نہیں ہے۔ (پیر جنید علی چشتی، ملتان)

ج: اگرچہ بشیر بدر کے انتہائی خُوب صُورت شعر کا آپ نےبیڑہ غرق کرکے رکھ دیا (جسے درست کیا گیا) اور ماڈل سے متعلق بھی کچھ ضرورت سے زیادہ ہی شوخ و شنگ ہونے کی کوشش فرمائی، مگر ہم ہاتھ ہولا اس لیے رکھ رہے ہیں کہ آپ کی رہائی کے دن قریب ہیں اور ہم آپ کے رنگ میں بھنگ نہیںؒ ڈالنا چاہتے۔

قیمتیں دیکھ کر دماغ گھوم گیا

ستمبر کا آخری شمارہ موصول ہوا، پڑھا، اچھا لگا۔ ’’عالمی افق‘‘ میں منوّر مرزا نے ’’آئرن کرٹن‘‘ کی اصطلاح متعارف کروائی، بھئی بہت عُمدہ۔ دنیا ملٹی پولر بننے جا رہی ہے، اِس میں کوئی حیرت کی بات نہیں۔ ’’نیرنگئ سیاستِ‘‘ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ میں جلتی بُجھتی شمعیں متعارف کروائی جارہی ہیں۔ بلاشبہ فاروق اقدس ایک اچھوتا موضوع لے کر آئے ہیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ’’مضامین ریڈیائی لہروں اور پانی میں کیمیائی مادّوں کی بہتات‘‘ کے عنوان سے مضمون شایع ہوا، جو خاصا پرانا موضوع ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر گوہر سعید سے رئوف ظفر نے اچھی گفتگو کی۔ اشاعتِ خصوصی میں اختر سعیدی کا مولانا مودودی سے متعلق مضمون پڑھا، پڑھ کے دل خوش ہوگیا۔ ناول ’’دُھندلے عکس‘‘ چل پڑا ہے بھئی۔ پڑھنے میں مزہ آ رہا ہے۔ ’’کائنات کا حقیقی (خالق) مصوّر زمین پر موجود تخلیق کاروں سے وہی رنگ بھرواتا ہے، جو وہ چاہتا ہے‘‘ عُمدہ جملہ تھا۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ ’’چارلی چپلن‘‘ پر مضمون معلوماتی تھا۔ نیز، خاور نیازی نے دنیا کے بڑے بڑے سمندر بھی متعارف کرائے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں بچّوں کی تعلیم کے حوالے سے مومنہ حنیف نے بدیسی زبان پر قلم کاری کی۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم نے عُمدہ موضوع چُنا ’’بُرا وقت بتا کر نہیں آتا‘‘۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں حارث علی کی تحریر پڑھی، تو فادرز ڈے کی حقیقت آشکار ہوگئی۔ نئی کتابوں کا انبار دیکھ کر دل جھوم اُٹھا، مگر قیمتیں دیکھ کر دماغ گھوم گیا۔ اور آپ کا صفحہ تو گلشنِ یاراں بنتا جارہا ہے۔ (ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)

ج: صرف کتابوں کی قیمتیں دیکھ کر دماغ کیوں گھومتا ہے۔ یہ جو برانڈڈ کے نام پر اس قدر لُوٹ مار مچی ہوئی ہے، اُسے دیکھ کر دماغ نہیں گھومتا۔ وہاں جا کرتو سب آنکھیں بندکرکے منٹوں میں حق حلال کی کمائی لُٹا آتے ہیں۔

پہلے پہلے نمبر پر…

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ اس بار ایک شمارے میں متبرک صفحہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ شامل تھا، دوسرے میں نہیں۔ پلیز، اسے ڈراپ نہ کیا کریں۔ دنیا ملٹی پولر بننے جارہی ہے۔ جی ہاں، اب دنیا مان چُکی، چینی ماڈل ہی بہترین ہے کہ فوجی نہیں، اقتصادی طاقت ہی کسی ملک کے بڑے اور سپرپاور ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس بار ’’نیرنگئی سیاستِ دوراں تو دیکھیے‘‘ میں عائشہ گلالئی، عائلہ ملک، سمیرا ملک اور مہتاب اکبر راشدی موجود تھیں۔ واقعی ہم لوگ تو اِنہیں بھول ہی چُکے ہیں۔ ’’عالمی یومِ قلب‘‘ کے موقعے پر معروف کارڈیالوجسٹ، ڈاکٹر گوہر سعید نے فرمایا کہ ’’اپنے دل کی سُنیں‘‘ اورسو فی صد درست ہی فرمایا۔ سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی بیالیسویں برسی پر اختر سعیدی نے بہترین مضمون لکھا۔ ناول ’’دُھندلے عکس‘‘ کام یابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ انڈو پیسیفک، امریکا اتحادیوں سے مل کر جنوب مشرقی ایشیا میں چین کو گھیرنا چاہتا ہے، مگر چین مستقبل کی سپر پاور ہے۔ وہ اس کےگھیرے میں آنےوالا نہیں۔ شفق رفیع نے بچپن کےکھیل یادکروا کر تو ہمیں بچپن ہی میں پہنچادیا۔ اکتوبر کا پورا مہینہ ’’بریسٹ کینسر آگہی‘‘ کے طور پر منایاجاتا ہے۔ سلوگن شان دار ہے کہ ’’اُمید دلائیں، زندگی بچائیں۔‘‘ اس بار ’’کہی اَن کہی‘‘ میں آج کے دَور کےسُپر اسٹار، علی عباس موجود تھے۔ واقعی، انہوں نے اپنی پہچان خود بنائی ہے۔ ہمیں تو اب پتا چلا کہ وسیم عباس اُن کے والد اور عنایت حسین بھٹی دادا ہیں۔ نواب زادہ بےکار ملک کو آپ ہر بار ہی ٹکا سا جواب دیتی ہیں، مگر وہ بھی اپنے نام کے ایک ہیں۔ اور آپ کا بہت بہت شکریہ کہ دونوں شماروں میں آپ نے میرے خطوط پہلے پہلے نمبر پر شایع فرمائے۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج:غالباً پہلے بھی وضاحت کی تھی کہ کسی خط کے اوّل نمبر پر شایع ہونے کا مطلب صرف ایک ہے کہ اُس خط کی باری ہی اُس نمبر پرآئی، لہذا اِسے ہرگز کوئی اعزازنہ سمجھا جائے۔

سنڈے میگزین، ایک ٹانک

ہمیں تو انتہائی خوشی ہے کہ روزنامہ جنگ اپنے آغاز سے لے کر آج تک لوگوں میں مسّرتیں بانٹنے اور زندگیاں سنوارنے میں آگے، آگے اور آگے ہی بڑھ رہا ہے۔ دُعا ہے کہ شعور و آگہی پروان چڑھانے کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری وساری رہے۔’’جہانِ سیاست‘‘ پر گہری نظر رکھنے والے، منور مرزا عالمی طاقت کے توازن کے نئے محور، انڈو پیسیفک کے حوالے سے رقم طراز تھے اور بالکل درست نشان دہی کی کہ امریکا اپنے اتحادیوں سے مل کر چین کو گھیرے میں لیناچاہتا ہے۔ آبِ رواں سے قلم کے مالک، ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی برصغیر میں مسلم نشاۃِ ثانیہ کے عَلم بردار، حضرت مجدّد الف ثانی سے متعلق ایمانی حرارت سے مرصّع مضمون زیرِ قلم لائے۔ فاروق اقدس ’’نیرنگئی سیاستِ دوراں تو دیکھیے‘‘ میں استاد، میزبان اور نام وَر سیاسی شخصیت، مہتاب راشدی کی کتابِ زندگی کے اوراق پلٹ رہے تھے۔ ڈاکٹر روفینہ سومرو بریسٹ کینسر پر ’’اُمید دلائیں، زندگی بچائیں‘‘ کے عنوان سے سوالاً جواباً شان دار مضمون لائیں۔ اور شفق رفیع کے چاشنی بھرے مضمون کا نچوڑ یہ تھا کہ ’’بچپن کی یادگارو، گزری ہوئی بہارو، مَیں تم کو ڈھونڈتا ہوں، تم بھی مجھے پکارو۔‘‘ کرن عباس کرن کے ناول ’’دُھندلے عکس‘‘ کو بس بائے پاس کیا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں عالیہ کاشف ماڈل اسماء رانا کی رنگا رنگ دنیا کا تعارف محبّت بھرے الفاظ سے کرواتی بھلی لگیں۔ بہت سُست انسان اور ہر دل عزیز فن کار علی عباس سے بھی عالیہ کاشف نے باتوں باتوں میں بہت کچھ اگلوالیا۔ ’’متفرق‘‘ میں سیّد ثقلین علی نقوی نے قیامت خیز زلزلے کے سولہ سال کا نوحہ لکھا۔ وحید زہیر، ’’بلوچستان میں موسمِ خزاں‘‘ کے موضوع کے ساتھ صفحے کی شان بڑھارہے تھے۔ اور ’’ورلڈ ٹیچرز ڈے‘‘ پر پیرزادہ شریف الحسن عثمانی نے بہترین قلم کاری کی۔ اختر سعیدی اور کتابوں پر تبصرہ، گویا ایک پھول ہے، جو جتنا زیادہ کِھلتا ہے، اُتنی ہی خوشبو دیتا ہے۔ اور حدِ نظر خوشبو بکھیرتا ’’آپ کا صفحہ‘‘ تو اس بار نو چٹھیوں سے سجا تھا۔ جب کہ عفّت زرّیں اپنے خُوب صُورت الفاظ کی بدولت ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کی حق دار ٹھہریں۔ بلاشبہ، اِن ابتر حالات میں بھی سنڈے میگزین ایک ٹانک کا کردار ادا کررہا ہے، جس کی تیاری میں نرجس ملک اور اُن کی ٹیم کی بھرپور محنت واضح دکھائی دیتی ہے۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپور خاص)

ج: اب تو ماشاء اللہ آپ بھی یہ ٹانک پی پی کے خاصے تنو مند ہوگئے ہیں، تحریر میں دن بہ دن نکھار آتا جارہا ہے۔

                                  فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

اُمید ہے، مزاج بخیر ہوں گے۔ عرصہ چھے ماہ بعد پھر سے حاضری ہورہی ہے، چالیس دن کے لیے اللہ کریم نے اپنے راستے کے لیےچُنا۔ حسین و جمیل مناظر سے مستفید فرمایا۔ اس بار چلاس اور بابو سر ٹاپ کی سیر کروائی۔ پھر اس سے دگنا وقت کالے پانی کی سزا بُھگتنی پڑی، ’’جو ’’مزاجِ خار‘‘ میں آئے.....‘‘ گنگناتے لوٹ کےبدھوگھر کو آئے۔ اس دوران میگزینز کی ورق گردانی تو کی، لیکن وہ ماحول میسّر نہ تھاکہ رُوح میں جذب کیاجاسکتا۔فی الوقت، فرصت ہی فرصتِ بےبہاہے،اس لیےہم ہیں اورہمارے میگزینز، سطر سطر پڑھ ڈالی۔ سرچشمۂ ہدایت کے تحت اقصیٰ منوّر ملک کی تحریریں خُوب ہیں۔ اتنے اہم موضوع پر لکھنا بچّوں کا کھیل نہیں۔ واقعات اور لفظوں کا چنائو احتیاط کا متقاضی رہتا ہے۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم بھی ہر موضوع پر خُوب لکھتی ہیں، پیاراگھر کی آل رائونڈر قرارپائیں۔ کریلے کی افادیت سے انکار نہیں۔ اس کا جوس چہرے کی جُھریوں کے لیے بھی بہترین ٹانک ہے کہ ہمارا بھی آزمودہ ہے۔ سیرتِ نبویؐ پر حافظ محمّد ثانی کی جامع اور خُوب صُورت تحریر بار بار پڑھنے کے لائق ہے۔ سنڈے اسپیشل اور شفق رفیع لازم و ملزوم ٹھہرے۔ مضمون پڑھ کرہم نےیہ نتیجہ اخذکیاکہ آزادی بھی کچھ حدود و قیود کی پابند ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں قاعدے، قانون اوراعتدال ضروری عوامل ہیں۔ ’’منافق‘‘ سبق آموز تحریر تھی۔ سلمیٰ اعوان ’’متفرقٔ‘‘ میں براجمان تھیں، بے ساختگی اور سادگئی رُوداد نےدل لبھائے رکھا۔ صبیحہ عمّاد کافی دن بعد آئیں اور وکٹری اسٹینڈ پر موجود رہیں۔ ٹک ٹاکرز کی اچھل کود کو ہم نے Birds eye view کےطور پر دیکھا تو ہے اور ان بچّوں کی ہدایت کے لیے دُعائیں بھی کی ہیں۔ ماہ اکتوبر کا آخری شمارہ نظر نواز ہوا۔ منور مرزا اپنے مضمون میں اتھارٹی ہیں۔ نہ جانے ہم لوگ کیوں اہل افراد سے فائدہ نہیں اٹھاتے،باصلاحیت لوگوں سے فیض نہ اٹھانا بھی بہت بڑی محرومی ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ خاص الخاص ٹھہرا۔ ثروت جمال اصمعی کی مدلّل تحریر دل کی آنکھوں سے پڑھی گئی۔ اس بار رئوف ظفر اشاعتِ خصوصی لے کر آئے۔ پولیو سے متعلق تحریر پڑھ کر یہی خیال آیا کہ ہمارے ہاں اس جیسی کئی مہمات کسی ہوم ورک، غور و فکر اور ضابطے کے بغیر ہی شروع کردی جاتی ہیں۔ بلوچستان کے روایتی کھانوں کے بارے میں پہلے بھی پڑھ چُکے ہیں، بےچارے معصوم بکرے، بکریوں کو یوں سالم بُھنتے دیکھ کر دل پریشان سا ہوگیا۔ نئی وارداتیں نےدرحقیقت اس سنڈے کےاسپیشل ہونے کا حق ادا کردیا۔ ہم تو ’’گھر چور‘‘ پڑھ کر ’’دل چُراکے چل دیئے‘‘ کی جگہ ’’گھر چُرا کر چل دیئے‘‘ گنگنا اٹھے۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ بہت خُوب، ہمارا پسندیدہ سلسلہ ہے۔ اپنے پاس وقت کی کمی نہیں، اس لیے ہیلتھ اینڈ فٹنس توجّہ سے پڑھا۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل، وفاقی اردو یونی ورسٹی کا نوحہ لائے، کس کس کو روئیں۔ اخلاقی زوال نے تنزّلی کےگہرےگڑھے میں لا پھینکاہے۔ اخلاص، اہلیت، اصلاح اجزائے ترکیبی ہوں، تو معیار نام وَرہوگا۔ بہت معذرت، اس بار خط کافی طویل ہوگیا ہے۔ میری تحریروں کی اشاعت کا بہت شُکریہ۔ اللہ جزائے خیر دے۔ (عشرت جہاں، لاہور)

ج:بہت خُوب… مگر آپ کی طوالت ہی کے سبب ہمیں جواب مختصر کرنا پڑ رہا ہے۔

گوشہ برقی خُطوط

  • جنگ، سنڈے میگزین ایک بڑا جریدہ ہے۔ اس میں سائنس اور فلکیات سے متعلق مضامین بھی ضرور شامل ہونے چاہئیں۔ (وقاص علی قریشی، حیدرآباد)

ج:’’سائنس ایند ٹیکنالوجی‘‘ کا ایک بڑا رنگین صفحہ، ہرہفتے جنگ اخبار کے ساتھ ہی شایع ہوتا ہے، آپ اُس سے مستفید ہونے کی کوشش کریں۔

  • مَیں نے آپ کو اپنی کچھ تحریریں ارسال کی تھیں، مگر اُن میں سے کوئی بھی شایع نہیں ہوئی، تو براہِ مہربانی آپ ہمیں اُن کی عدم اشاعت کی وجہ بتائیں۔ (صابر علی)

ج:سوری…ہم کسی کو بھی وجہ بتانے کے پابند نہیں۔ تحریر اگر ہمارے معیار اور پالیسی کے مطابق نہ ہو، تو شایع نہیں ہوسکتی۔

  • ’’گدھا ہمارا دوست ہے‘‘ ٹائٹل پرعنوان دیکھ کر، برس ہا برس کی روایت (سب سے پہلے’’آپ کا صفحہ‘‘پڑھنے کی) توڑ ڈالی۔ اور اب اس خوشی میں پہلی بار برقی مکتوب بھی لکھ رہے ہیں۔ پورا شمارہ ہی اچھے مضامین سے مزیّن پایا۔ ویسے آپ کے حوصلے کو سلام ہے، جو بھانت بھانت کے قارئین کو برداشت کرتی ہیں اور آپ کی ٹیم کے حوصلے کو بھی، جو آپ کو برداشت کرتے ہیں۔ ہاہاہا… (جویریہ بتول، اسلام آباد)

ج:ہاہاہا…ویسےیہ فیصلہ توہماری ٹیم کو کرنا چاہیے تھا۔ نہیں…؟؟

  • ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے صفحے پر عفّت زرّیں نامی خاتون کا ایک واقعہ شایع ہوا ہے، براہِ مہربانی مجھے اُن کا نمبر عنایت کردیں۔ مَیں سخت مشکل میں گرفتار ہوں۔ (مزنہ)

ج:آپ جنگ، کراچی کے شعبۂ میگزین میں کال کر کے ہم سے عفّت کا نمبر حاصل کرسکتی ہیں۔

  • ڈاکٹر نسیمہ ترمذی کے حوالے سے اُن کی بیٹی کا آرٹیکل بہت شان دار تھا۔ ایسی تحریریں جریدے میں شامل کرتی رہا کریں۔ (فوزیہ سلیم)

ج:جی ، وقتاً فوقتاً کرتے ہی رہتے ہیں۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین