کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت ہے،ٹی او آرزکمیٹی میں ایم کیو ایم کا نام نہ ہونا مناسب بات نہیں ہے، پارلیمانی کمیٹی کی رکنیت تناسب سے ہوتی ہے، ایم کیو ایم کو کمیٹی میں شامل کرنے کیلئے دونوں طرف کے ارکان کی تعداد سات سات کرلیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے احتساب کی شروعات کیلئے کوئی شرط نہیں رکھی ہے، وزیراعظم صاف کہہ چکے کمیشن جہاں سے چاہے تحقیقات کرلے، پاناما لیکس کے موقع سے فائدہ اٹھا کر قرضے معاف کروانے والوں کا معاملہ بھی طے ہوجانا چاہئے، پارلیمانی کمیٹی الزامات کی تحقیقات کیلئے ضابطہ کار، ٹائم لائن ، فورم اور دائرہ اختیار کا فیصلہ کرے گی۔ اسحاق ڈار نے بتایا کہ میں وزیراعظم کی اجازت سے اپنی وزارت کے تحت آنے والے اداروں میں اس حوالے سے کام کررہا ہوں کہ مستقبل میں غیرقانونی کام دہرائے نہ جائیں، ہمارے ملک میں کئی چیزیں قانون کے مطابق ہوئی ہیں لیکن پاناما پیپرز کے بعد قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم واضح طورپر کہہ چکے ہیں کہ تحقیقات کیلئے جو بھی فورم ہوگا وہاں میں اور میرے بچے حقائق پیش کریں گے اور جن چیزوں پر بحث ہورہی ہے اس کیلئے ایک پیسہ بھی پاکستان سے نہیں بھیجا گیا۔ایم کیو ایم کے رہنما علی رضا عابدی نے کہا کہ ایم کیو ایم پاناما لیکس کے معاملہ سے لاتعلق نہیں ہوئی ہے، متحدہ اپوزیشن کا ساتھ چھوڑنا ہماری غلط حکمت عملی نہیں تھی، متحدہ اپوزیشن میں کچھ لوگوں کے نام بھی پاناما لیکس اور دیگر آف شور کمپنیوں میں آرہے ہیں، جب تک اپوزیشن کے یہ لوگ خود کو احتساب کیلئے پیش نہیں کرتے ایم کیو ایم اخلاقی طور پر ان کے ساتھ نہیں چل سکتی ہے،متحدہ اپوزیشن نے کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف مظالم پر ہماری کوئی مدد نہیں کی ہے۔ علی رضا عابدی نے کہا کہ ہمارا کہنا ہے کہ پاناما لیکس کے علاوہ ٹیکس بچانے ، کک بیکس اور قرضے معاف کروانے کا معاملہ بھی دیکھنا چاہئے، ایم کیو ایم اب حکومت اور اپوزیشن پر نظر رکھے گی کہ انکوائری کمیشن کے معاملہ یہ کیا کرتے ہیں، اپوزیشن کو وزیراعظم نواز شریف کے خطاب کے بعد اسمبلی سے بائیکاٹ کر کے ان کی مدد نہیں کرنا چاہئے تھی، اسمبلی سے بائیکاٹ کے فیصلے پر ہمیں پچھتاوا ہے۔میزبان شاہزیب خانزادہ نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ امریکی سینیٹ سے اہم بل منظور ہوگیا ہے جس کے بعد نائن الیون حملے میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ سعودی حکومت کو امریکی عدالتی کٹہرے میں کھڑا کرسکیں گے، اگلے مرحلہ میں یہ بل ایوان نمائندگان جائے گا اور وہاں بھی اس بل کے منظور ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے، یہ معاملہ امریکا اور سعودی عرب میں کشیدگی کا باعث بن رہا ہے، امریکا جو آج سعودی عرب کے ساتھ کرنے جارہا ہے وہ کل پاکستان سمیت دیگر ممالک کے ساتھ بھی کرسکتا ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ اس بل کے اثرات سے پاکستان بھی محفوظ نہیں رہے گا، امریکا میں دہشتگردی کی کئی کارراوئیوں میں ملوث لوگوں کا تعلق پاکستان سے ثابت ہوچکا ہے، دہشتگردی کی ان کارروائیوں سے متاثر ہونے والے پاکستان کو بھی قانون کے کٹہرے میں لانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ امریکی صدر اوباما نے سعودی عرب کیخلاف قانونی کارروائی کے بل کی سخت مخالفت کی مگر ان کی مخالفت کے باوجود ان کی اپنی جماعت کے اراکین اس بل کیلئے سرگرم ہیں، امریکی صدر اوباما واضح کرچکے ہیں کہ اگر یہ بل منظور ہوا تو امریکا کے خلاف بھی عدالتی کارروائی کا امکان بڑھ جائے گا کیونکہ دنیا کی امریکا سے شکایات بھی کم نہیں ہیں، صدر اوباما اس بل کی تو مخالفت کررہے ہیں مگر نائن الیون کمیشن کی رپورٹ کے ان 28صفحات کو سامنے لانے کی حمایت کی ہے جس میں سعودی حکام کے نائن الیون کے حملہ آوروں سے تعلقات کی نشاندہی ہے۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی امریکا سے شکایتیں بڑھ رہی ہیں اور امریکا بھی سعودی عرب سے فاصلے بڑھارہا ہے، پچھلے دنوں سعودی عرب نے امریکا سے اپنی 750ارب ڈالر کی سرمایہ کاری نکالنے کی دھمکی دی تھی، مگرعالمی معاشی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گا کیونکہ اس کا اثر صرف امریکا پر ہی نہیں سعودی معیشت پر بھی برا اثر پڑے گا۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ ایم کیو ایم پاناما لیکس کے معاملہ پر متحدہ اپوزیشن سے الگ ہو کر اچانک بالکل علیحدہ نظر آرہی ہے، ایک طرف حکومت اور اپوزیشن میں ٹی او آرز بنانے کیلئے کمیٹی پر اتفاق ہوگیا ہے تو دوسری طرف اپوزیشن کی جماعت ایم کیو ایم اور متحدہ اپوزیشن میں اختلافات سامنے آرہے ہیں، متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے متحدہ اپوزیشن کا اتحاد چھوڑنے کے بعد ٹی او آرز پرکمیٹی کیلئے اپوزیشن کے چھ نام سامنے آگئے جس میں ایم کیو ایم کا کوئی رکن شامل نہیں ہے، متحدہ نے اسپیکر قومی اسمبلی سے تیرہویں رکن کے طور پر شامل کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ حکومت اور اپوزیشن میں پاناما لیکس انکوائری کمیشن کے ضابطہ کار طے کرنے کیلئے پارلیمانی کمیٹی پر اتفاق ہوگیا، پاناما لیکس ٹی او آرز کا معاملہ اب جلسے جلوسوں میں نہیں پارلیمنٹ میں ہی طے ہوگا مگر عمران خان سڑکوں پر آنے کی دھمکی آج بھی دہرا رہے ہیں۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ پاناما لیکس نے جہاں پاکستان میں طوفان کھڑا کردیا وہاں برطانیہ بھی اس کے اثرات سے بچ نہیں سکا ہے، لندن کی مہنگی ترین جائیدادیں دنیا کے کالے پیسوں کا مرکز بنی ہوئی ہیں، برطانوی حکومت مالکان کو بے نقاب کرنے کیلئے قانون سازی کی تیاری کررہی ہے۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ کراچی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر نظر رکھنے کا جدید نظام ناکامی سے دوچار ہوگیا، شہر میں چلنے والی گاڑیوں کا ڈیٹا اداروں کے پاس موجود نہیں ہے اور جو ڈیٹا موجود ہے وہ اپ ڈیٹ نہیں ہے۔