شہر میں رواں سال اسٹریٹ کرائمز اور قتل و غارت گری کی مسلسل وارداتوں سے عوام خوف و ہراس میں مبتلا رہے ۔وہیں رواں ماہ کا آغاز ہی اورنگی ٹاون میں مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں پولیس اہل کار توحید اور ساتھی عمیر نے فائرنگ کر کے بے گناہ نوجوان طالب علم ارسلان محسود کو قتل اور اس کے دوست یاسر کو زخمی کرنے کی واردات نے پولیس کی اعلی کارکردگی پرسوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
دوسری جانب تواتر سے دل دہلانے والی قتل کی سنگین وارداتوں سے غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ۔ سفاک بیوی کے ہاتھوں 70سالہ ڈاکٹر شوہر کو قتل کر کے لاش کے ٹکرے ٹکرے کرنے کی واردات نے شہریوں کے خوف میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
اسٹریٹ کرمنلزکی دیدہ دلیری کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا ہدف صرف شہری ہی نہیں، بلکہ متعدد پولیس اہل کار بھی ان کا نشانہ بنے ہیں۔ واقعات کے مطابق گزشتہ ہفتے اورنگی ٹاون میں پولیس نے جعلی مقابلے میں نوجوان کو اس کی نئی موٹر سائیکل چھننے کی کوشش میں فائرنگ کر کے قتل کردیا اور اس واقعہ کومقابلے کا رنگ دینے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے مقتول کے قبضے سے پستول برآمد کرنے کا جھوٹا دعویٰ کردیا، لیکن ارسلان کے زخمی دوست یاسر کا ویڈیو بیان منظر عام پر آتے ہی واردات کا بھانڈا پھوٹ گیا۔
نوجوان یاسر نے کہا کہ ہم نئی 125 موٹرسائیکل پر کوچنگ سے واپس آرہے تھے اور موٹر سائیکل کی رفتار بھی کم تھی، اسی دوران سادہ لباس مسلح موٹرسائیکل سواروں نے ہمارا راستہ روک کر ہم پرفائرنگ کی، :پہلی گولی مجھے لگی اور میں گرگیا، پھر دوسری گولی چلی جوکسی کو نہیں لگی، جس کے بعد تیسری گولی ارسلان کو لگی اور وہ زمین پر گر پڑا۔
یاسر کا کہنا تھا کہ ہے کہ پینٹ شرٹ پہنے ہوئے شخص نے دوبارہ پستول لوڈ کی جس پر میں ڈر کروہاں سے بھاگا، پھر مجھے نہیں پتا چلا کیا ہوااور ہمارے پاس کوئی اسلحہ بھی نہیں تھا۔ اطلاع ملنے پر مقتول ارسلان کے ورثا اورعلا قہ مکین بڑی تعداد میں عباسی اسپتال پہنچ گئے اور شدید احتجاج کیا ۔
بعدازاں ڈی آئی جی آفتاب ناصربھی اسپتال پہنچ گئے اور یقین دہانی کرائی کہ واقعہ کی شفاف تحقیقات کرائی جائے گی ،ان کی ہدایت پر دونوں پولیس اہل کاروں کوگرفتار کر لیا گیا ، جب کہ ڈی آ ئی جی نے فوری تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ۔ تفتیش پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے، ورثا کا کہنا ہے کہ پولیس نے پہلے توایس ایچ او گوپانگ کو لاک اپ میں ظاہر کیا تھا۔ تاہم جیسے ہی میڈیا پہنچا، ایس ایچ او کو وہاں سے نکال دیا گیا ہے اور اسے بچانے کی کوشش کی جاری ہے، ملنے والے پستول کے حوالے سے پولیس نےنئے رُخ سے تفیتش شروع کی ۔
اس سلسلے میں تفتیشی حکام کا کہنا تھا کہ برآمد پستول پولیس اہل کار توحید کے ساتھی عمیر کا بھی ہوسکتا ہے، اور پستول کا نمبر بھی مٹا ہوا، تفتیشی ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ گرفتار اہل کار توحید اور ملزم عمیرنے اپنے بیاں میں پستول مقتول کا بتایا تھا، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انٹیلجنس ڈیوٹی پر سادہ لباس پہننے کے باوجود طالب علموں کو روکنے کی کوشش کا کوئی جواز نہیں تھا ۔
مقتول ارسلان کے ورثا نے خاتون ایس پی انویسٹی گیشن شہلا قریشی اور خاتون ایس ایس پی ویسٹ سہائے عزیز پر اپنے تحفظ اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس افسران قاتلوں کو تحفظ دے کر انھیں بچانا چاہتے ہیں اور مبنیہ طور ان ہی کی پشت پناہی سے ہی ملزم اعظم گوپانگ فرار ہوا ہے ۔
پہلے تو ہمیں سابق ایس ایچ او اعظم گوپانگ کو لاک اپ میں ظاہر کیا تھا۔ تاہم میڈیا اور ہمارے جاتے ہی ایس ایچ او کو وہاں سے فرار کرادیا گیا ۔ ڈی آئی جی ویسٹ کی ہدایت پر گزشتہ دنوں سابق ایس ایچ اواعظم گوپانگ کو نوکری سے بر طرف کردیا گیا اور 14دسمبر کو اعظم گوپانگ کو غیر قانونی اسلحہ بر آمد ہو نے پر گرفتار کر لیا گیا۔
جس کی تصدیق کرتے ہوئے ڈی آئی جی ویسٹ ناصر آفتاب نے جنگ کو بتایا کہ ملزم اعظم گوپانگ کے قبضے وہ غیر قانونی پستول برآمد کر کے گر فتار کیا گیا ہے، جو اس نے اورنگی ٹاون میں ہونے والے مبینہ پولیس مقابلے میں مقتول ارسلان محسود سے مبینہ طور بر آمد کر نے کا دعوی کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اعظم گوپانگ ارسلان محسود کے قتل میں نامزد ملزم ہے، جس میں اس کی ضمانت ہو ئی ہے، جب کہ اسے غیرقانونی اسلحے کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔
دوسری جانب صدرکی رہائشی عمارت کے فلیٹ میں قتل کی لرزہ خیز اور سفاکانہ واردات میں نشے کی عادی بیوی رباب نے 70سالہ اپنے ڈاکٹر شوہر شیخ محمد سہیل ولد شیخ محمد لطیف کوبےدردی سے قتل کرنے کے بعد جسم کے اعضا الگ الگ کردیے۔ پولیس نے خاتون کو گرفتار کر کے آلہ قتل برآمد کرلیے ۔ آئس کے نشے کی عادی خاتون قتل کرنے کے بعد نشے کی حالت میں ہی آرام سے سو گئی ۔
بلڈنگ کے چوکیدار نے جب فلیٹ کے دروازے پر کٹے ہوئے انسانی ہاتھ دیکھے تو فوری پولیس کو دی ،پولیس جب فلیٹ میں داخل ہو ئی، تو اندر ایک لاش موجود تھی، جس کے سر ، ہاتھ اور جسم کے مختلف اعضا جسم سے الگ تھے اور وہیں ایک خاتون سو رہی تھی، جو اس وقت بھی نشے میں تھی ، اس نے پولیس کو اپنا نام رباب بتایا اور ابتدائی طورپر قتل سے انکاری رہی بعد ازاں کہا کہ مقتول اس کا شوہر تھا اور اس کا اور شوہر کا ساتھ ہی نشہ کر تے ہوئے رات کو جھگڑاہوا تھا اور اس نے مجھ پر تشدد کیا تھا، جس کے بعد میں نے اسے قتل کردیا ۔
ملزمہ خاتون رباب نشے کی حالت میں بار بار اپنے بیان کو بدلتی رہی، خاتون نے پہلے کہا کہ مقتول نے میرے والد کو دھمکیاں دی تھیں، میں7برسوں سے اس کے ساتھ رہ رہی تھی ، سہیل میرے والد کو اور مجھے دھمکیاں دیتا رہتا تھا اور جھوٹے الزامات میں پھنسانے کا کہتا تھا ۔ سہیل اس سے قبل کسی کا قتل بھی کرچکا ہے۔ پولیس کے مطابق خاتون کے کپڑوں پر بھی خون کے نشانات موجود تھے ۔
ملزمہ رباب نے اپنے بیان میں پولیس کو پہلے بیان دیا کہ اس کی بہن بھی ساتھ تھی، بعد میں کہا کہ وہ نہیں تھی، پھر کہا اس کے بچے بھی ساتھ تھے، بعد میں کہا کہ ساتھ نہیں تھے اور ملزمہ نے مقتول پر غلط اور نازایاب حرکات اور نشے کی لت لگانے اور بچوں کے ساتھ بھی غلط حرکا ت کر نے کا الزام لگا یا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمہ خاتون رباب قبل ازیں ایک دفعہ تھانے میں بھی اس کی شکایت لےکر آئی تھی، لیکن بعد میں تھانے سے اٹھ کر چلی گئی تھی ۔ پولیس نے خاتون کا میڈیکل ٹیسٹ بھی کرا لیا ہے، کیوں کہ وہ نشے میں تھی اور پولیس کو شبہ ہے کہ واردات میں خاتون کے ساتھ کوئی اور بھی ملوث ہو سکتاہے، کیوں کہ جس طرح انسانی اعضا کاٹے گئے ہیں، وہ ایک خاتون کا کم نہیں لگتا ہے ۔ ملزمہ ر باب دوران تفتیش اپنا نام کبھی رباب ، کبھی عاصمہ اور کبھی سونیا بتاتی رہی ، مقتول شیخ سہیل کے4 بیٹے اور 4بیٹیاں ہیں ۔
مقتول شیخ سہیل اور گرفتار ملزمہ رباب عرف عاصمہ نے 2013 ء میں شادی کی تھی، ملزمہ اور اس کا مقتول شوہر 7سال سے آئس کا نشہ کر رہے تھے، ملزمہ نے مقتول کے سر پر لوہےکی راڈ ماری، پھر گردن الگ کی اور اس کے بعد میں ہاتھ کاٹ کر کھڑکی سے باہر پھینک دیے، ملزمہ وقوعہ کی رات اس قدر نشہ کر چکی تھی کہ گرفتاری کے2 روز بعد تک اس کا نشہ نہیں اترا تھا۔
ملزمہ رباب اور مقتول سہیل شیخ کی شادی کے شواہد مل گئے ہیں، تفتیشی پولیس کے مطابق دونوں کی شادی 2013 میں ہوئی تھی، شوہر کو بے دردی سے قتل کرنے والی خاتون آئس کے نشے کے عادی ہے، خاتون اوراس کا شوہر دونوں گزشتہ 7 سال سے آئس کا نشہ کررہے تھے ، اور نشے میں ہی میاں بیوی ایک دوسرے سے لڑتے تھے ، رات کو دونوں مل کر آئس کا نشہ کررہے تھے، ملزمہ خاتون حد سے زیادہ نشہ کرچکی تھی ،مقتول نشہ کر نے کے دوران باہر آتا جاتا رہا ، اس دوران سکون سے بیٹھ کرنشہ نہ کرنے پر دونوں کاجھگڑا شروع ہوا ، نشے میں خاتون نے شوہر کو تھپڑ مارا، جس پر جھگڑا شروع ہوگیا۔
ادہر ابراہیم حیدری میں پولیس مقابلے میں ملزمان کی فائرنگ سے پولیس اہل کار صلاح الدین شہید ہوگیا۔ گلستان جوہر پرفیوم چوک کے قریب مسلح ملزمان نے نے ڈکیتی کے دوران مزاحمت کرنے پر کوفائرنگ کرکے ڈی ایس پی کو زخمی کردیا گیا ، جب کہ مسلح ملزمان نقدی اور بیوی کے طلائی زیورات اتروانے کے بعد لے کر فرار ہوگئے ، واردات شارع فیصل تھانے کی حدود گلستان جوہر بلاک 18 پرفیوم چوک کے قریب رونما ہوئی ،جس میں کار سوار افراد سے نامعلوم مسلح ملزمان نے مزاحمت کرنے پر فائرنگ کردی اور فرار ہو گئے، فائرنگ کے نتیجے میں گاڑی میں سوارسیکیورٹی زون ٹو میں تعینات اور ڈی ایس پی 50 سالہ غلام مرتضیٰ زخمی ہو گئے ۔
ڈی ایس پی اور ان کی اہلیہ ڈرائیور کے ساتھ نواب شاہ میں شادی کی تقریب میں شرکت کرنے کے بعد واپس اپنی رہاش گاہ آرہے تھے ،جسے ہی ان کی گاڑی پارکنگ میں رُکی، تو موٹر سائیکل سوار نامعلوم مسلح ملزمان نے اسلحہ کے زور پر لوٹ مار شروع کردی ،مسلح ملزمان نے نقدی اور ڈی ایس پی سی کی اہلیہ سے طلائی زیورات اتر والیے ، اس دوران ڈی ایس پی نے مزاحمت کی تو مسلح ملزمان نے فائرنگ کردی اور فرار ہو گئے،ڈی ایس پی پاؤں میں گولی لگنے سے زخمی ہو گئے۔
جمشید کوارٹرز تھانے کی حدود پٹیل پاڑہ سنہری مسجد کے قریب مسلح ملزمان نے گھر میں گھس کر فائرنگ کر کے بہن بھائی قتل اور ایک بھائی کو زخمی ہوگیا ، واردات میں مقتولہ کا شوہر اور اس کا بھائی ملوث ہیں، فائرنگ کے نتیجے میں 50 سالہ زیب النساء زوجہ بخت بیاں اور اس کا بھائی 35سالہ محمد ہارون ولد ظاہر شاہ اور30سالہ انور شدید زخمی ہوگئے ، ابتدائی تحقیقات واردات میں مقتولہ کا شوہر بخت بیاں اور اس کا بھائی یوسف رحمان ملوث ہے۔
ڈیڑھ سال قبل بخت بیاں نے دوسری شادی کی تھی، جس پر اس کی پہلی بیوی زیب النساء نے عدالت سے اپنے بچوں کی کسٹڈی حاصل کر لی تھی اور وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ رہائش پذیر تھی، مقتولہ اور ملزمان کا آبائی تعلق مانسہرہ کالا ڈھاکہ سے ہے، ملزم بخت بیاں چند روز قبل کراچی آکر رشتہ داروں کے ہاں مقیم تھا ، ملزم بخت بیاں اور بھائی یوسف نے زیب النساء کے گھر میں گھس کر ان پر حملہ کیا اور فرار ہوگئے ،پولیس کو جائے وقوع سے 4 گولیوں کے خول اور ایک نائن ایم ایم پستول ملا ہے۔
گلستان جوہر میں ہدف بنا کر قتل کیے جانے والے سندھ بار کونسل کے آفس سیکریٹری عرفان علی مہر کو قتل میں مرکزی ملزمہ اس کی اہلیہ نکلی، ملزمہ پستول خریدنے کے پیسے بھی خود دیے، واردات کی منصوبہ بندی میں سالی بھی ملوث ہے،قتل کی واردات میں ملوث مقتول کے برادر نسبتی اورہم زلف کو سی ٹی ڈی نے گرفتار کر لیا، گلستان جوہر میں رواں ماہ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے سندھ بار کونسل کے آفس سیکریٹری عرفان علی مہر کے قتل میں ملوث میں ملزمان مقتول کا برادر نسبتی اکبر مہر اور ہم زلف رحیم بخش مہر کو گڑھی یاسین سے گرفتارکرلیا گیا، اب تک مذکورہ قتل میں شامل 6 ملزمان کوسی ٹی ڈی او رپولیس نے کراچی ، شکارپور ، گڑھی یاسین اور لاڑکانہ سے گرفتارکیا۔
گرفتار ملزمان نے اعتراف جرم کرتے ہوئے بتایا کہ ، مقتول نے مبینہ طور پر پہلی بیوی کو بتائے بغیر دوسری شادی کر رکھی تھی، جس کا ملزمان کو رنج تھا،گرفتارملزم کا کہنا ہے کہ بہن پر مقتول تشدد کرتا تھا۔ مقتول کی بیوی نے ملزم بھائی کو اسلحہ اورموٹرسائیکل کے لیے 2 لاکھ 20 ہزار روپے بھی دیے تھے، گھریلوناچاقی ہی قتل کی وجہ بنی، مقتول کی اہلیہ شوہر سے تنگ تھی ، قتل کی واردات سے قبل ملزم سالے نے مقتول بہونی کی ریکی بھی کی تھی، قتل والے روز مقتول کی اہلیہ نے ملزم بھائی کو فون کرکے اپنے مقتول شوہر عرفان کے گھر سے نکلنے کی اطلاع دی ، ملزم غلام اکبر نے اپنے دوست واجد جاکھرو کو قتل میں شامل کرنےکے لیے 40 ہزار روپے بھی دیے تھے ۔