انتہا پسندی دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے، آئے روز مختلف ممالک سے انتہا پسندی کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں مگر ایشیائی ممالک بالخصوص پاکستان، افغانستان، انڈیا اور بنگلہ دیش میں انتہا پسندی سے زیادہ جہالت دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً سیالکوٹ واقعہ ہماری معاشرتی جاہلیت اور دینِ اسلام سے لاعلمی کا عکاس ہے۔ آگ کے شعلے انسانیت کے تمام تقاضوں کو جلا کر بھسم کر رہے تھے۔ گلہ کریں بھی تو کس سے؟ کیونکہ سچ سننے کی قوت بھی ہم میں نہیں رہی۔ اگر دیکھا جائے تو ملک کے طول و عرض میں لاکھوں مدارس اور مساجد قائم ہیں جہاں نہ صرف دینِ اسلام کی تعلیم دی جاتی ہے بلکہ نرم مزاجی اور انسان دوستی کا درس بھی دیا جاتا ہے- یہ انتہا پسندی ناجانےکہاں سے ہمارے معاشرے کا حصہ بن گئی ہے؟ موجودہ حکمران پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے کا عزم رکھتے ہیں لیکن انہیں جان لینا چاہیے کہ اِس مقصد کےلیے اُنہیں سب سے پہلے انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ ہجوم نما اِس قوم کو انسانیت کا درس دینا ہوگا۔ سیالکوٹ میں پیش آنے والے واقعہ میں ایک مشتعل ہجوم نے توہینِ مذہب کے الزام میں ایک غیرملکی شہری کو ہلاک کرنے کے بعد اس کی لاش کو آگ لگا دی تھی، جس کی وجہ سے پاکستان ایک دفعہ پھر عالمی سطح پر میڈیا کی شہ سرخیوں میں آگیا۔ سیالکوٹ واقعہ میں ہلاک ہونے والا پریانتھا کمارا ایک سری لنکن شہری تھا، جو کہ سیالکوٹ میں ایک نجی فیکٹری میں بحیثیت جنرل منیجر خدمات انجام دے رہا تھا۔ اِس واقعہ نے عالمی سطح پر پاکستان کے تشخص کو بہت نقصان پہنچایا ہے جس کے اثرات آہستہ آہستہ سامنے آئیں گے۔ پاکستان میں ماضی میں بھی ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں تاہم ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ یوں کسی غیرملکی شہری کو قتل کیا گیا ہو۔ مغربی اور یورپی یونین ممالک میں اِس واقعہ کے حوالے سے انتہائی تشویش کا اظہار کیا گیا۔ دنیا بھر میں پاکستان کے حوالے سے انتہائی منفی تاثر گیا۔ تشدد اور انتہا پسندی پر مبنی واقعات سے نہ صرف پاکستان کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ دنیا بھر میں مقیم اوورسیز پاکستانیوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اُن کو تنقیدی سوالات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس واقعہ کے فوری بعد صدر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف قمرجاوید باجوہ، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ٹھوس اقدامات اور واضح سخت موقف کے علاوہ اپوزیشن رہنماؤں میاں شہباز شریف کی جانب سے مذمتی بیانات سامنے آئے، عالمی سطح پر ان کو بھی غور سے دیکھا اور سنا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ کئی ایک سوالات اٹھتے نظر آئے، عالمی سطح پر ہماری بعض جماعتوں کے متعلق یہ تاثر پایا جاتا ہےکہ ان کے مذہبی شدت پسندوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں شدت پسندی کی اس فضا کو پروان چڑھانے کا ذمہ دار وہ اِنہی سیاسی جماعتوں کو قرار دیتے ہیں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اجلاسوں میں بھی یہی الزامات زیر بحث رہے ہیں جس کے باعث پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ میں ہے کیونکہ اُن عناصر کے خلاف کارروائی میں ہماری حکومتیں ہمیشہ ہی تذبذب کاشکار رہی ہیں۔
پاکستان گزشتہ دو عشروں کے دوران انتہا پسندی اور دہشت گردی کیخلاف 70ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کر چکا ہے اور اربوں ڈالر کا معاشی نقصان اِس کے سوا ہے۔ آج ہم کوڑی کوڑی کے محتاج ہو چکے ہیں، اپنا سب کچھ آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ کر گزاراکیا جا رہا ہے۔ سیالکوٹ کا واقعہ دل خراش اور دل دہلا دینے والا ہے، آج تک پاکستان میں اٹھنے والی ہر شدت پسند تحریک اپنے مقاصد کے لیے مذہب کا نام استعمال کرتی چلی آ رہی ہے تاکہ اکثریت کو اپنی جانب راغب کیا جا سکے۔ یہاں تک کہ بیرونی طاقتیں بھی پاکستان میں اپنے مقاصد اور اہداف کے لیے مذہب ہی کو حربے کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور ریاست و عوام کے خلاف بر سر پیکار قوتوں کی مالی سرپرستی بھی مذہب کے نام پر ہی کی جاتی ہے۔
آج ہمارا ایسا کوئی قومی ادارہ نہیں بچا جہاں شدت پسندی کسی نہ کسی شکل میں موجود نہ ہو۔ اب شدت پسندی کا یہ زہر ہمارے قومی وجود کی رگ رگ میں سرایت کر چکا ہے۔ شدت پسند کم و بیش دنیا کے ہر معاشرے، مذہب اور تہذیب میں پائے جاتے ہیں ، ان کی تعداد مٹھی بھر اور پورے معاشرے کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتی ہے، تشویش ناک صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ شدت پسند عناصر ریاست اور نظام پر اثر انداز ہو کر پورے معاشرے کو یرغمال بنا لیں اور معاشرے میں اپنے وجود سے متعلق خوف اور دہشت پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ پاکستان گزشتہ چند دہائیوں سے اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہے کہ یہاں شدت پسندی نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور وہ ریاست اور اس کے نظام کو چیلنج کر رہی ہے۔ آج ہماری بقا صرف اس میں ہے کہ ہمیں شدت پسندی کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم عالمگیر معاشرے کا حصہ بن سکیں اور جدید دنیا کے شانہ بشانہ چل سکیں۔ بدقسمتی سے اس شدت پسندی کے باعث ہم مسلمان دیگر اقوام سے پیچھے جاتے جا رہے ہیں، اس تنہائی کے سبب ہماری اپنی اصل شناخت گم ہورہی ہے۔ ہم کو بحیثیت قوم اپنی ترجیحات کا درست تعین کرنا پڑے گا۔ ہم اگرچاہتے ہیں کہ دنیا میں ہماری عزت ہو تو ہمیں اپنی ترجیحات کا از سرنو جائزہ لینا پڑے گا۔ مذہبی شدت پسندی کے خاتمے کے لیے بحیثیت قوم ہمیں عملی اقدامات کرکے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت نے ہمیں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ماضی میں بحیثیت قوم ہم نے بار بار اس حوالے سے اپنی پالیسیاں تبدیل کی ہیں۔ ہر نئی حکومت نے اِس حوالے سے قومی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دی جس کی وجہ سے آج ہم اس مقام پر ہیں۔ ماضی میں بعض حکمرانوں نے اپنی پالیسیوں کی وجہ سے انتہا پسندی کو پروان چڑھایا اور بعض نے اعتدال پسندی کی پالیسی اپنائی، اس کے بعد اب موجودہ حکومت کی پالیسیاں اور اقدامات ملک کو مذہبی انتہا پسندی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ ہماری بار بار اس حوالے سے پالیسیاں تبدیل کرنے کی وجہ سے آج ہم اس مقام پر ہیں۔ ہمیں انتہا پسندی یا اعتدال پسندی میں کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا تاکہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں اور آئے روز عالمی سطح پر شرمندگی سے بچا جا سکے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)