• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گھر... خوشیوں، مسرتوں کا گہوارہ بن سکتا ہے

مصباح طیب، سرگودھا

اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے یہ کائنات تخلیق کی، جو روزِ اوّل سے ایک طے شدہ اصول کے تحت چل رہی ہے اور ایک مخصوص مدّت کے بعد ختم بھی ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کا نظام توازن پر قائم کیا ہے۔ چاند، سورج، ستارے، سیارے، زمین، آسمان سب اُسی مدار میں سفر کرتے ہیں، جو کہ رب نے مقرر کردیا ہے۔ انسانوں کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے ایک راستہ مقرر کیا، جو فلاح و کام یابی کا راستہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس دُنیا میں بھیجے، جنہوں نے اُس راستے کی جانب رہنمائی فرمائی، جسے صراطِ مستقیم قرار دیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہر چیز جوڑا جوڑا کرکے تخلیق کی۔جیسے زمین، آسمان، چاند، سورج اور نر، مادہ وغیرہ۔ انسانوں میں اللہ تعالیٰ نے مَرد و عورت کو تخلیق کیا اور نسلِ انسانی کے لیے نکاح جیسا مقدس رشتہ مقرر فرمایا۔ مَرد و عورت جب اس خُوب صُورت بندھن میں بندھتے ہیں، تو ایک خاندان وجود میں آتا ہے اور خاندانوں سے مل کر معاشرہ قائم ہوتا ہے، لیکن شیطان جو روزِازل سے انسان کا کُھلا دشمن ہے اور انسان کو فلاح کے مقررہ راستے سے گم راہ کر دینا چاہتا ہے، اُسے میاں بیوی کی باہمی محبّت اور اتفاق قطعی پسند نہیں۔ 

میاں بیوی میں نفاق ڈالنے اور اختلافات پیدا کرنے کے لیے وہ طرح طرح کے حربے آزماتا ہے، تاکہ ان کے دِل مکدر ہوجائیں اور ان کا رشتہ کم زور پڑجائے ۔ ان شیطانی حیلوں سے بچنے اور باہمی محبت قائم رکھنے کے لیے دونوں میں صبرو تحمل کا ہونابہت ضروری ہے کہ اگر میاں بیوی چھوٹی چھوٹی باتوں پر برداشت سے کام نہیں لیتے ، سمجھ داری کا مظاہرہ نہیں کرتے،تو گھر جو اکائی کی حیثیت رکھتا ہے، بکھر کر رہ جاتا ہے۔ ذیل میں چند ایسی ہی بنیادی باتیں درج کی جارہی ہیں، جن پرعمل سےمیاں بیوی کا تعلق مزیدمضبوط ہوسکتا ہے۔

٭زوجین ایک دوسرے کو دیکھ کر مُسکرائیں۔ روکھا سا منہ بنا کر بات نہ کریں۔ نبی کریم ﷺ نے محض مُسکرانے کو صدقہ قرار دیا ہے کہ اس سے ایک دوسرے کے لیے دِل میں خوش گوار جذبات پروان چڑھتے ہیں۔

٭ فریقین ایک دوسرے کے لیے زیبایش اختیار کریں۔ اکثر خواتین یا مَرد جب گھر سے باہر نکلتے ہیں، تو خُوب سجتے سنورتے ہیں، مگر گھر میں ایک دوسرے کے لیے اس کا اہتمام نہیں کرتے، خاص طور پر خواتین کو چاہیے کہ گھر میں اپنے شوہر کی دِل جوئی کے لیے صاف ستھرے لباس اور بناؤ سنگھار کو اپنا معمول بنا لیں۔

٭زوجین ایک دوسرے کو اچھے ناموں سے پکاریں کہ اس سے بھی محبّت بڑھتی ہے ۔

٭ انسان خطا کا پتلا ہے۔میاں یا بیوی سے بھی غلطی سر زد ہو سکتی ہے۔اس صُورت میں درگزر سے کام لیں یا پھر ہلکے پھلکے انداز میں سرزنش کریں۔ بعض شوہر، بیوی کی کسی غلطی کو پکڑ کر بار بار باتیں سُناتے رہتے ہیں، تو بعض بَھری محفل میں انّا کی تسکین کی خاطر بیوی کی خامیاں بیان کرنے سے نہیں چوکتے۔ اسی طرح بعض بیویاں بھی شوہروں سے بلاوجہ لڑائی جھگڑا کرتی ہیں اور ان کی زبان پر بس گلے شکوے ہی رہتے ہیں۔ دونوں ہی کا طرزِ عمل غلط ہے۔ ایک دوسرے کی خامیاں نہیں، خُوبیاں دیکھیں، گلے شکوے، جھگڑے رشتوں کے قاتل ہیں، ان سے حتی الامکان دُور رہیں۔

٭ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کا شکریہ ادا کریں۔ اس سے دِلوں میں ایک دوسرے کے لیے قدر بڑھتی ہے اور پھر اولاد بھی یہی سیکھتی ہیں ۔

٭ کہتے ہیں تحفے کی قیمت نہیں، دینے والے کی نیت دیکھی جاتی ہے، لہٰذا وقتاً فوقتاً ایک دوسرے کو حسبِ استطاعت تحائف دیتے رہیں۔نبی اکرمﷺ نے اس عمل کو پسند فرمایا ہے۔

٭ ایک دوسرے کے آرام کا خیال رکھیں۔ شوہر جب تھکا ماندہ گھر آئے، تو بیوی خوش دِلی سے اس کا استقبال کرے، جب کہ شوہر کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ بیوی بھی اُسی کی طرح انسان ہے، جو گھر کے کام کرکر کے تھک جاتی ہے۔

٭ ایک دوسرے کو خوش رکھنے کی کوشش کریں۔ اختلافی امور پر طویل گفتگو سے گریز کریں اور ایک دوسرے کی پسند، نا پسند کا بھی خیال کریں۔

٭شوہر جو کما کر لائے، بیوی کے لیے ضروری ہے کہ شکوے شکایات کیے بغیر اس میں گزارہ کرے۔ اسی طرح شوہر کا بھی فرض بنتا ہے کہ گھر والوں کی کفالت میں ہرگز کنجوسی سے کام نہ لے۔ نبی پاکﷺکا فرمان ہے، ’’تم میں سے بہترین وہ ہے، جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہترین ہو۔‘‘

آیئے…ہم بھی اپنے اس معاشرے کو بچانے کی کوشش کریں ،جو شیطان کے فریب میں آکر مغرب کی نقّالی میں لگا ہواہے، وگرنہ درحقیقت زوجین کا گھر میں قائم کردہ نظام ہی نسلوں کی بہتری کا ضامن ہے۔

تازہ ترین