بہت سال پہلےکراچی کی ایک معروف شاہراہ پرعلی الصباح ایک پٹرولیم کمپنی کے چار غیر ملکی ملازمین کو نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا اور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ موقع واردات کے قریب ہی حملہ آوروں کی گاڑی کو رک کر دوسرا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ وہاں ایک مسلح باوردی کانسٹیبل ڈیوٹی پر موجود تھا۔ اس نے حملہ کا منظر دیکھا اور جب حملہ آوروں کو راستہ بدلنے کے لیے رکنا پڑا تو وہ کانسٹیبل ایک بلند اور محفوظ جگہ پر کھڑا تھا جہاں سے وہ با آسانی حملہ آوروں کی گاڑی کو نشانہ بنا سکتا تھا۔ مگر کانسٹیبل نے خاموشی سے رفو چکر ہونا ہی مناسب سمجھا۔ بعد ازاں دورانِ انکوائری اس نے اپنی بے عملی کی وضاحت یوں پیش کی کہ اگرچہ حملہ آوروں کی گاڑی کو میں با آسانی اپنی کلاشنکوف سے نشانہ بنا سکتا تھا مگر مجھے اندیشہ تھا کہ اگر گاڑی میں کسی با اثر شخص کا بیٹا ہوا تو نہ صرف میری نوکری جائے گی بلکہ میں قتل یا اقدامِ قتل کے کیس میں پھنس جاؤں گا۔ لہٰذا قاتل بچ کے نکل گئے اور میں بھی بچ گیا۔ یہ تو ایک کانسٹیبل کی سطح کے پولیس اہلکار کی بے عملی اور بزدلی کی کہانی تھی۔
حال ہی میں سیالکوٹ میں اندوہناک واقعہ ہوا تو نہ پولیس وقت پر جائے وقوعہ پر پہنچی نہ ہی ایس ایچ او اوگوکی مظاہرین کو پریانتھا کمارا کی نعش کو نذرِ آتش کرنے سے روکنے کی جرأت کر سکا۔ شاید اُس نے یہ بے عملی کی حکمتِ عملی اپنے سینئرز سے سیکھی ہو گی جنہوں نے گیارہ سال قبل سیالکوٹ میں ہی ایک مجمع کو دو بھائیوں کو بہیمانہ تشدد کر کے ہلاک کرنے سے روکنا مناسب نہ سمجھاتھا، اس وقت کا ڈی پی او سیالکوٹ قاتلوں کے مجمع میں چپ سادھے کھڑا انکی اذیت ناک ہلاکت کا نظارہ کرتا رہا۔ ڈی آئی جی صاحب گوجرانوالہ نے بھی چپ چاپ واقعہ ہونے دیا۔ دو بے گناہ جانوں کی ہولناک ہلاکت کے باوجود دونوں نے اپنی نوکری بنا لی یا بچا لی۔ اس کامیاب بے عملی کے نتیجے میں ایک آئی جی بن کر ریٹائر ہو چکا ہے اور دوسرا سینئر افسر بن چکا ہے۔ ان میں اور کراچی کے کانسٹیبل کی بے عمل حکمتِ عملی میں کوئی فرق نہ تھا۔
نازک و نا مساعد حالات میں عمداً بے عملی، بزدلی اور بے حسی یوں ہی خوبخود پولیس کی حکمتِ عملی کا خاصہ نہیں بنی۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اس کا ذمہ دار حکمران ہیں جو پولیس کو آلہ کار بناتے ہیں، استعمال کرتے ہیں اور حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیتے ہیں۔ سالہا سال سے یہ عمل جاری ہے۔ کیا کانسٹیبل، کیا آئی جی پولیس، سب اس طرزِ عمل پر بد اعتمادی کا شکار ہیں۔ جرأت مندانہ فیصلوں پر مصلحت پسندانہ بزدلی حاوی ہو گئی ہے۔ کیوںکہ یہ ہی سکہ رائج الوقت ہے۔
سینئر افسران زیادہ محتاط ہوتے ہیں کیوںکہ عین ممکن ہے کہ وہ لمبے عرصے تک کھڈے لائن لگا دیے جائیں۔ با اصول افسران تو ویسے ہی حکمرانوں کی اناوں اور اداؤں کی زد میں آ جاتے ہیں۔ راست باز راستے سے ہٹا دیے جاتے ہیں۔ نوکری باز بازی لے جاتے ہیں۔ مگر موقع پہ ایسی حرکت کرتے ہیں کہ حکومت کو ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے اور عوام کا اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے۔
سانحہ سیالکوٹ میں فیکٹری کے پروڈکشن مینیجر نے اپنے ملازمین کو سمجھانے بجھانے اور روکنے کی کوشش کی تو اس پر وزیرِ اعظم نے اسے تمغہ شجاعت سے نواز دیا۔ تحریکِ لبیک کے ہنگاموں میں عوام اور املاک کو بچاتے ہوئے درجن بھر پولیس اہلکار شہید ہوئے تو انکے لیے میڈل تو کیا حرفِ توصیف تک نہ کہا گیا۔ مجھے ایک اعلیٰ ترین انٹیلی جنس افسر نے بتلایا کہ ایک پولیس اہلکار کی لاش برآمد ہوئی تو تشدد سے اسکے جسم کی تمام ہڈیاں چکنا چور تھیں۔ انکی جرأت اور جانوں کے نذرانوں کو نظر انداز کر کے پولیس افسران اور اہلکاروں کو جو پیغام دیا گیا وہ تمام پولیس فورس سمیت ڈی پی او سیالکوٹ اور ایس ایچ او اگوکی کو بخوبی پہنچ گیا تھا۔ تبھی خاموشی اور بے عملی میں ہی عافیت جانی گئی۔
یاد رکھئے حکمران مصلحت و منافقت کا لبادہ اوڑھیں گے تو حکومتی اہلکار وں سے جرأت و جان بازی کی توقع عبث ہے۔ اہلیت کو مصلحت پہ ترجیح دیں گے تو سعادت مند تو مل جائیں گے جرات مند نہیں ملیں گے۔ حکمرانوں اور تمام شعبوں کے رہنماؤں کو یاد رکھنا چاہیے کہ بے عملی کے نتائج بد عملی سے زیادہ نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)