• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ روز میری ایک اہم عسکری ذرائع سے بات ہوئی ۔ پوچھا آصف علی زرداری صاحب کیا فرما رہے ہیں؟ کس نے اُن سے رابطہ کر کے پاکستان کو موجودہ بھنور سے نکالنے کے لیے مدد مانگی؟ زرداری صاحب کیا علاج تجویز کر سکتے ہیں؟ کیا اب اسٹیبلشمنٹ واقعی زرداری صاحب پر تکیہ کیے ہوے ہے؟ جواب ملا زرداری صاحب کو کہیں نام بتائیں جس نے اُن سے رابطہ کیا۔

 مجھے جو جواب ملا اُس کے مطابق زرداری صاحب نے خود سے ہی فارمولا بنانے والوں (یعنی ملٹری اسٹیبلشمنٹ) کے رابطہ کرنے کی کہانی بُن لی۔ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو۔ 

اب تو زرداری صاحب کو رابطہ کرنے والے کا نام بتا ہی دینا چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے کہ واقعی اگرایسا کوئی رابطہ ہوا ہے تو اُس فرد کو ڈھونڈے جس نے زرداری صاحب سے مدد مانگی۔ 

ایسے شخص کو تلاش کر کے اُس کا کورٹ مارشل اس لیے کرنا چاہیے کہ اُس نے کس سے امیدیں لگائیں۔ 

زرداری صاحب بڑے سیانے ہوں گے، اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیاست میں پی ایج ڈی ہیں اور اُن کے برابر کوئی سیاستدان نہیں پہنچ سکتا ۔ کوئی یہ بھی بتا دے کہ اپنے سیانے پن کی وجہ سے اُنہوں نے پیپلز پارٹی کا کیا حال کر دیا۔ 

ایک ایسی جماعت جو پورے پاکستان کی سیاسی قوت تھی اُسےمحض سندھ تک محدود کر دیا۔ ایسی چالاکی، ایسے سیانے پن، سیاست میںایسی پی ایچ ڈی کس کام کی کہ بھٹو کی جماعت کو اب ایک علاقے کے علاوہ کوئی ووٹ دینے پر تیار نہیں۔ مرحومہ بے نظیر بھٹو صاحبہ دو بار وزیر اعظم بنیں۔ دونوں مرتبہ اُن کی حکومت پر سب سے بڑے جو

الزامات لگے وہ زرداری صاحب کے حوالے سے ہی تھے۔ پی پی پی کی گزشتہ حکومت پر بھی کرپشن اور خراب طرز حکمرانی کے سنگین الزامات لگے اور اُس وقت بھی زرداری صاحب کا ہی راج تھا۔

اگر زرداری صاحب واقعی سمارٹ اور سیانے ہیں تو وہ اس لحاظ سے کہ اُن کے خلاف کوئی کرپشن کا کیس توڑ نہیں چڑھتا۔ کبھی این آر او آ جاتا ہے تو کبھی دستاویزات اور ثبوت گم ہو جاتے ہیں، کبھی نیب نرم پڑ جاتا ہے تو کبھی احتساب عدالت کے جج ایسے فیصلے لکھتے ہیں جو ایک دوسرے کی نقل ہوتے ہیں جس پر انکوائری ایسے ہوتی ہے کہ متعلقہ جج ریٹائر ہو جاتے ہیں لیکن انکوائری مکمل نہیں ہوتی اور یوں سب کچھ ٹھپ ہو جاتا ہے۔ 

زرداری صاحب کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی تعاون رہا جس کا مقصد سیاسی کھیل اور جوڑ توڑ کی سیاست تھی۔ کبھی بلوچستان حکومت الٹنے میں مدد کی تو کبھی سینٹ میں جادو چلا دیا لیکن اس سب کو بُری نظر سے ہی دیکھا گیا اور بُری نظر سے ہی دیکھا جا رہا ہے۔ 

سیاست کو محلاتی سازشوں سے پاک کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے اگر ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی معاملات سے مکمل طور پر پیچھے ہٹنا چاہیے تو دوسری طرف زرداری صاحب جیسے سیاستدانوں کو ماضی سے سبق سیکھنا چاہیے۔ اب اگربھی فارمولے بنانے والوں کے رابطہ کرنے پر وہ اُن کو یہ کہتے ہیں کہ پہلے عمران خان کی حکومت کو ختم کریں تو پھر اصل سوال تو زرداری صاحب سے بنتا ہے کہ آپ نے ماضی سے کیا سیکھا؟

عمران خان کی حکومت کو ختم کرنا ہے تو جمہوری طریقہ اپنائیں ، فارمولے والوں سے کیوں توقع رکھتے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کی حکومت ختم کریں۔

 شاید زرداری صاحب کو امید ہے کہ خان صاحب کی حکومت کو ختم کر کے فارمولے والے اُن کے لیے سیاسی جوڑ توڑ کریں گے۔ اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو پھر یہ ثابت ہوگا کہ زرداری صاحب کے ساتھ ساتھ فارمولے والوں نے بھی سبق نہیں سیکھا۔ یعنی سفر بد سے بدتر کی طرف جاری رہے گا۔ ایک زرداری سب پے بھاری کا نعرہ لگانے والے پی پی پی کے رہنمائوں کو بھی سوچ بچار کرنی چاہیے کہ زرداری صاحب نے بھٹو کی پارٹی کے ساتھ کیا کیا؟ 

 ہمت کریں اور بلاول بھٹو زرداری کو مشورہ دیں کہ زرداری صاحب کی سیاست میں Legacy کی بجائے صاف ستھری سیاست اور بہترین طرز حکمرانی کو اپنائیں جس کے لیے اُن کے پاس اب بھی سندھ میں موقع ہے۔ جہاںتک اسٹیبلشمنٹ کا تعلق ہے تو دیکھتے ہیں کہ وہ کب اُس شخص کو پکڑ کر کورٹ مارشل کرتی ہے، جو زرداری صاحب سے پاکستان کے موجودہ مرض کا علاج معلوم کرنے، اُن کے پاس پہنچ گیا۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین