اسلام آباد( فاروق اقدس /نامہ نگار خصوصی ) قومی اسمبلی کا رواں اجلاس جو پہلے دن کورم کی نشاندہی کے باعث ختم کر دیا گیا تھا آج(جمعہ) کو دوبارہ ہوگا۔
2021 کے رخصت ہوتے ہوئے سال کا یہ آخری اجلاس ہے جس میں حکومت کی جانب سے منی بجٹ کی منظوری اور اپوزیشن کی جانب سے منظوری میں بھرپور پارلیمانی طاقت سے مزاحم ہونے کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں جبکہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ اپوزیشن اس اجلاس میں قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے خلاف حالات کا جائزہ لیتے ہوئے عدم اعتماد کی تحریک بھی پیش کر سکتی ہے کیونکہ قومی اسمبلی کا یہ اجلاس ایک ایسی صورتحال میں ہورہا ہے جب اپوزیشن بادی النظر میں اعتماد اور’’ اخلاقی فتح‘‘ کی خاصی بلندی پر ہے جس کی بنیادی محرک جمعیت علمائے اسلام ہے جس نے کے پی کے میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں حکومتی امیدواروں پر و اضح برتری حاصل کر کے جہاں لوگوں کوحیران کردیا ہے وہیں اب شکست سے حکومتی جماعت خاصی دفاعی پوزیشن میں آگئی ہے اورشکست اتنی شفاف تھی کہ ہارنے والے حکومتی امیدوار کسی دھاندلی کا الزام بھی نہیں لگا سکے اور انہیں اپوزیشن کی فتح کو کسی حیل و حجت کے بغیر تسلیم کرنا پڑا البتہ مولانا فضل الرحمان کی اس غیر متوقع کامیابی کو ان کے مخالفین الزامات کی سرگوشیوں میں طرح طرح کے معنی و مفاہیم پہنارہے ہیں اور ان سے یہ بھی استفسار کیا جارہا ہے کہ اس فتح کے بعد مولانا یہ بتائیں کہ وہ الیکٹڈ ہیں سلیکٹڈ بہر حال زمین حقیقت تو یہی ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے تقریباً تنہا ہی معرکہ مار لیا ہے حالانکہ اس سے قبل ایسی اطلاعات موجود تھیں کہ جمعیت علمائے اسلام عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کر بلدیاتی انتخاب لڑے گی بہر حال پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اورقیادت کیخلاف کم و بیش چار سال تک مستقل مزاجی کے ساتھ اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والے مولانا فضل الرحمان نے ملکی سیاسی صورتحال میں ایک ہلچل پیدا کر دی ہے اورپھر مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف کی جانب سے انہیں مبارکباد کا پیغام، سوشل میڈیا پر ہونے والے رابطے اورحکومت کو گھر بھیجنے تک مشترکہ جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں رہنمائوں کے درمیان مستقل قریب کی حکمت عملی پر بھی بات چیت ہوئی جس کی محتاط تفصیلات نے ہی جلتی پر تیل کا کام کیا۔؎
پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف، مریم نواز اور دیگر سیاسی زعما نے بھی مولانا فضل الرحمان کو پرجوش انداز میں مبارکبادیں دیں۔ خیبرپختونخواہ میں حکومت کی شکست کے سیاسی ثمرات سے کون کون استفادہ کرتا ہے اور فتح کی اس صورتحال کانتیجہ کیا نکلتا ہے وہ اپنی جگہ لیکن امر واقعہ ہے کہ جے یو آئی کی اس کامیابی نے اپوزیشن کے رہنمائوں بالخصوص مسلم لیگ(ن) ور جے یو آئی کی قیادت میں آئندہ کے اقدامات کی ہم آہنگی کو مضبوط کرلیا ہے اور اس صورتحال میں ایک مرتبہ پھر ملک میں سیاسی تبدیلیوں کےبارے میں قیاس آرائیاں اور تجزئیے شروع ہوئے ہیں کیونکہ ’’دانندگان سیاست‘‘ سمجھتے ہیں کہ جے یو آئی کی اس کامیابی کا اثر صرف پنجاب میں ہونیوالے بلدیاتی انتخاب تک ہی نہیں بلکہ اس کے اثرات آنے والے قومی انتخابات پر مرتب ہو سکتے ہیں۔