• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کسی ’’مرجانے‘‘ دی نظر

’’لو آگئے ہیں آج وہ خود کو سنوار کے…‘‘ سرِورق پر غلافی آنکھوں والی ماڈل خُوب صُورت پیراہن میں ملبوس، ٹھوڑی تلے ہاتھ رکھے، جانے کیا سوچ رہی تھی۔ رُک کرآگےبڑھے، تو فاروق اقدس احوالِ سیاست میں عائلہ ملک، سمیرا ملک اور اپنی انصاف والی گلالئی پر رقم طراز تھے۔ گلالئی بے چاری دھوکے میں ماری گئی، خود کو تیس مار خان سمجھ رہی تھی، مگر اپنا خان بھی پکّا کھلاڑی ہے۔ اور عائلہ اور سمیرا ملک… ’’ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے، اصلی کیا اور جعلی کیا؟‘‘ رئوف ظفر دل کے عالمی دن پر ڈاکٹر گوہر سے سوال و جواب لے بیٹھے اور ڈاکٹر صاحب نے بھی معلومات میں بے بہا اضافہ فرمایا۔ ویسے بھی ہر معاملے میں ہم دل ہی کی سُنتے ہیں۔ اختر سعیدی نے مولانا مودودی کی 42ویں برسی پر عمدہ قلم آرائی کی۔ سینٹر اسپریڈ‘‘ پر سفید ٹرائوزر اور ایمبرائیڈرڈ کُرتی بہت پیاری لگ رہی تھی، بالوں کا اسٹائل بھی بھلا تھا۔ اُس پر سلور سینڈلزاوربائیں پائوں شریف میں کالا دھاگا، ہمہمم… نظر ہی نہ لگ جائے کسے مرجانے دی۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں سردار عطاء اللہ مینگل پر لکھا گیا، اللہ اُن کی مغفرت فرمائے۔ آج کل تو ایسے قدآور سیاست دان ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ منور مرزا ملٹی پولر دنیا کی داستان لیے آئے۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ’’تیرے عشق کا جوگ لیا‘‘، پرتبصرہ بےحد پسند آیا۔ کسی نے میرے آبائی علاقے کا پوچھا تھا، تو مَیں تخت محل، بہاول نگر سے ہوں۔ (پیر جنید علی چشتی، ملتان)

ج: مرجانیاں دی اینّی ہی نظر لگدی ہوندی ناں، تو ہُن تک کوئی کُڑی سلامت نہ ہوندی۔ (مرجانوں کی اتنی ہی نظر لگتی ہوتی ناں تو اب تک کوئی لڑکی سلامت نہ ہوتی)۔

بہت ہی پیارا گھر

خداوند تعالیٰ کی ذات سے اُمید کرتی ہوں کہ آپ اور آپ کی ٹیم خیریت سے ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ خوش و خرم رکھے۔ بہت عرصے بعد بزم میں شریک ہو رہی ہوں، لیکن میگزین کا مطالعہ تسلسل سے جاری ہے۔ آج جس بات نے قلم اٹھانے کی ہمّت دی، وہ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا مضمون ’’عالمی منہگائی کی لہر کے پاکستان پر اثرات‘‘ تھا۔ ’’باقی دنیا پہلے ہی سے تیار تھی، ہم صرف نعرے لگاتے رہے۔‘‘ سو فی صد بجا فرمایا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ثروت جمال اصمعی کو پڑھا، شان دار تحریر تھی۔ منور راجپوت کی تحریر ’’نوبل ایوارڈ سے محروم اردو ادب‘‘ میں مختلف لوگوں کی مستند آراء نظر سے گزریں۔ فاروق اقدس اسلام آباد سے ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ کی صُورت چھائے ہوئے ہیں۔ عبدالمجید ساجد نے لاہور سے معاشرے پر سوشل میڈیا کے منفی و مثبت اثرات بیان کیے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر شکیل احمد کاذیابطیس سے متعلق معلوماتی مضمون پڑھ کے جلدی سے اپنی شوگر چیک کی۔ ’’پیارا گھر‘‘ تو واقعی بہت پیارا گھر ہے۔ بہت اچھے مضامین پڑھنے کو ملے۔ ’’جیل عقوبت خانہ نہیں، اصلاح کا مرکز ہونا چاہیے‘‘ آئی جی جیل خانہ جات، بلوچستان نے کیا عمدہ بات کی۔ کرن عباس کا ’’دُھندلے عکس‘‘ اچھا جارہا ہے۔ اور ’’کچھ توجّہ اِدھر بھی‘‘ میں کراچی کی سڑکوں کا احوال پڑھ کر ایک اُمید سی جاگی کہ شاید کسی بے حِس کی کوئی حِس بیدار ہوجائے۔ ناقابلِ فراموش کےدونوں واقعات دل چُھو لینے والے تھے۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ توہماری جان ہے، خاص طور پر آپ کا جواب دینے کا انداز بہت شان دار ہے۔ (خالدہ سمیع، گلستانِ جوہر، کراچی)

ج: کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے بزم کا پھیرا لگا لیا کریں۔ ہمیں خوشی ہوگی، آپ کو بھی اچھا لگے گا۔

شعر کا مطلب؟

حسبِ روایت منور مرزا عالمی اُفق پرچھائے ہوئے تھے۔ ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ میں منیر نیازی کا شعر ’’کج شہر دے لوگ وی ظالم سَن… کج سانوں مرن دا شوق وی سی‘‘ پڑھا۔ ممکن ہو تو ذرا اس کا مطلب بھی سمجھادیں۔ عائلہ ملک اور سمیرا ملک سے متعلق عمدہ تفصیلات فراہم کی گئیں۔ اشاعتِ خصوصی میں مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی برسی کے موقعے پر جو مضمون شایع ہوا، اُس میں لفظ انشاپرداز استعمال ہوا، اس کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ ناول ’’دُھندلے عکس‘‘مجھے تو بالکل سمجھ نہیں آرہا۔ ناقابلِ فراموش کے ساتھ ’’ناقابلِ اشاعت‘‘ کی فہرست شایع کی گئی، جس میں میرا نام بھی شامل تھا۔ حالاں کہ واقعہ بالکل سچّا تھا۔ آپ لوگوں کا خود ہی تو کہنا ہے کہ ’’تحریر پختہ ہونا ضروری نہیں، واقعے کا سچّا ہونا لازم ہے‘‘ تو پھر میرا نام ناقابلِ اشاعت میں کیوں؟ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: منیر نیازی کے شعر کا مطلب ہے کہ ’’کچھ تو شہر کے لوگ بھی ظالم تھے اور کچھ ہمیں خود بھی مرنے کا شوق تھا۔‘‘ یعنی ظالم کا تو قصور ہے ہی، لیکن مظلوم خود بھی مرنےکی خواہش ہی رکھتا تھا۔ انشاء پرداز، مضمون نگار یا نثر لکھنے والے کو کہا جاتا ہے اور ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں آپ کا نام یوں شامل تھا کہ واقعہ بے شک سچّا ہوگا، لیکن اندازِ تحریر اس قدر بوگس تھا کہ نوک پلک سنوارنا تو دُور، نئے سرے سے تخلیق بھی کیا جاتا، تو بات نہ بنتی۔ آپ کی کوششیں اپنی جگہ، لیکن آپ کو سخت محنت کی ضرورت ہے۔ ممکن ہو تو اپنا تعلیمی سلسلہ بحال کریں کہ حصولِ تعلیم کے لیے عُمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔

بہت اچھی اچھی باتیں

زیرِنظر ماہِ اکتوبر کا آخری شمارہ ہے۔ حالات و واقعات میں عالمی منہگائی پر منور مرزا نے اچھا تبصرہ کیا۔ ثروت جمال اصمعی نے ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ہندوئوں کی مقدّس کتب کی روشنی میں جو بشارتیں بیان کیں، پڑھ کے رُوح شانت ہوگئی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں منور راجپوت کا مضمون بھی اچھا تھا۔ افسوس ہوا کہ اردو ادب نوبل ایوارڈ سے محروم ہے۔ فاروق اقدس کا ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ بھی محنت سے لکھا جارہا ہے۔ پیارا گھر کی تینوں تحریریں بھی ٹھیک لگیں۔ سرِورق کی ماڈل کا انتخاب زبردست تھا۔ آئی جی جیل خانہ جات، بلوچستان عثمان غنی صدیقی کا انٹرویو بہت پسند آیا، جناب نے بہت اچھی اچھی باتیں کیں۔ ناول کا جواب نہیں، کرن عباس کرن کا شکریہ۔ ’’کچھ توجّہ اِدھر بھی‘‘ میں رستم علی خان اور شجاعت حمیدی نے کراچی کے لیے ہمارے دل کی بات لکھ دی۔ ناقابلِ فراموش میں ایم آر شائق اور پروفیسر سیّد حیدر قلی کے واقعات سبق آموز تھے۔ محمّد سلیم خان، لال کرتی والے کو تو آپ کا جواب پسند آیا۔ ہمیں بھی بتا دیں کہ ہم آپ کی شرائط پر کسی حد تک عمل کر رہے ہیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: شرائط پر تو ٹھیک ہی عمل کر رہے ہیں۔ بس، ذرا ’’سب اچھا ہے‘‘ سے آگے بھی کوئی بات ہونی چاہیے۔

کچھ خطوط جیسے گُل و گُل زار…

گھڑی نے جب ایک بجے کا الارم بجایا، تو سنڈے میگزین ہنستا مُسکراتا آیا۔ سرِورق پر ریحام خان کو مُسکراتا اور ماڈل کو سنجیدہ پایا۔ منور مرزا کا تائیوان سےمتعلق مضمون پڑھا،خطّے میں کشیدگی کا پڑھ کرخُوب جی کڑھا۔ اگلا عنوان تھا بائبل میں آپؐ کی آمد کی واضح بشارتیں، سچ پوچھیے تو انہی کی بدولت ہیں زندگی کی مہارتیں۔ ثروت جمال اصمعی نے جب قلم اٹھایا، تو لفظوں کو پھربہت باادب پایا۔ اشاعتِ خصوصی میں عنوان تھا، محسنِ پاکستان، ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ ہم سب کی آن بان اور شان۔ شفق رفیع کے طرزِ تحریر کا کیا کہنا،جیسے خُوش نُما پھولوں کا گہنا۔ منفردلکھاری رئوف ظفر کی زبانی، پولیو کے عالمی یوم پر سُنی اندر کی کہانی۔ سجّی، کاک، شنے، کھڈی کباب، بلوچستان کے روایتی کھانے۔ جس کے معترف مشرق، مغرب اور طرفین کے زمانے۔ نیا دَور، نئی وارداتیں، سنڈے اسپیشل کا ٹاپک، خبردار، ہوشیارکہ چور کےہاتھ میں ہے چابک۔ آرتھرائٹس پرکی لفظوں سےچھیڑ خانی، پروفیسر ہیں یہ غلام مصطفیٰ قائم خانی۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے فالج پہ کی قلم کشائی، ان کے لفظوں میں شہد، خلوص اور سچّائی۔ ناقابلِ فراموش میں مسز خالدہ خان کا واقعہ بدایوں سے میامی تک، پڑھ کرآنکھوں میں ستارےچمکے دیرتک۔ نئی کتابیں ہوں اور تبصرہ ہو اختر سعیدی کا، تو بندہ چاہے گا بھاگ کر کتاب خرید لا۔ اب آگیا ’’آپ کا صفحہ‘‘ جس کا تھا بہت انتظار، اورجس کی چٹھیاں پڑھ کر ملتا ہے دل کو قرار۔ کچھ لکھنے والے کرتے ہیں لفظوں سے گولیوں کی بوچھاڑ، اور کچھ خطوط جیسے گُل و گُل زار۔(ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میر پور خاص)

ج:ہوگیا، شعر و شاعری کا شوق پورا…چلیں، آپ خوش رہیں، شعرا کے ڈنڈے سوٹے ہم کھا لیں گے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر کے آباؤ اجداد

شفق رفیع نے اپنے مضمون میں محسنِ پاکستان، ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے متعلق تحریر کیا کہ ان کے آباء و اجداد کا تعلق اورک زئی قبیلے سے تھا، جو کہ سراسر غلط ہے، اُن کا تعلق ریاست الور سے تھا، بعدازاں اُن کے آبائو اجداد ریاست الورچھوڑ کر بھوپال آگئے تھے، جس کا ذکر راج گان میوات، جادو بنسی خان زادہ راجپوت کی تاریخی کتاب میں بھی موجود ہے۔ (محمّد مُقبل خان، خانزادہ راجپوت، سکرنڈ، محمّدی کالونی، بے نظیر آباد، نواب شاہ)

ج: ڈاکٹر صاحب کے آبائو اجداد سے متعلق مختلف جگہوں پرمختلف روایات ملتی ہیں۔ شفق رفیع نے متعدد ذرائع سے کراس چیک کرنے کے بعد ہی مضمون قلم بند کیا۔ لیکن اگر آپ اس قدر یقین سے یہ بات کہہ رہے ہیں (خط کے ساتھ آپ نے کتاب کی فوٹو کاپی بھی ارسال کی) تو آپ کی بات درست ماننے میں ہمیں ہرگز کوئی عار نہیں بلکہ ہم اس اصلاح و رہنمائی پر آپ کے ممنون ہیں۔

                         فی امان اللہ

2021ء کی بہترین چٹھی

افتخار عارف نے کہا تھا ؎ ’’میانِ عرصۂ موت و حیات رقص میں ہے… اکیلا مَیں نہیں، کُل کائنات رقص میں ہے… ہر ایک ذرّہ، ہر اِک پارئہ زمین و زماں… کسی کے حُکم پہ دن ہو کہ رات، رقص میں ہے۔ تو ازل سے زمین کے پیر میں جو چکّر ہے، وہ تو کہیں روزِحشر ہی جاکے تھمے گا، یہ سال بہ سال بدلتے ہندسے تو محض سنگِ میل، ہم جیسے زود فراموشوں کے لیے اِک ذریعۂ یاددہانی ہیں کہ ؎ ایک پتّا شجرِ عُمر سے لو اور گرا۔ جی ہاں، شجرِ عمر سے 2021ء بھی جھڑ گیا اور یہ 2021ء بھی 2020ء سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا۔ کم ازکم عام میڈیا ورکر کے لیے تو سالِ رفتہ بھی کوئی ایک ایسی پیش رفت ہوئی، نہ کوئی کوشش و کاوش رُوبہ عمل آئی کہ جو قابلِ ذکر ہو، البتہ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود روزنامہ ’’جنگ‘‘ کی بلاناغہ اور ’’سنڈے میگزین‘‘ کی ہفتہ وار اشاعت میں کوئی تعطّل نہ آیا۔ یہاں تک کہ سال بھر کے 12؍مہینوں کی کُل 52؍ اتواروں کو نہ صرف سنڈے میگزین مارکیٹ میں آیا بلکہ ’’کورونائی ایّام‘‘ میں ڈاک کی ترسیل خاصی حد تک متاثرہونے کے باوجود ’’آپ کا صفحہ‘‘ بھی ہر ایک جریدےکاحصّہ بنا۔ سو، حسبِ روایت و حسبِ سابق اِمسال بھی ہم 2021ء کے بہترین خطوط کے ایک سرسری جائزے اور ’’چٹّھی آف دی ایئر2021ء‘‘ کے ساتھ آپ کے سامنے حاضر ہیں۔

2021ء کا پہلا شمارہ ٭3؍جنوری کو سال نامے کی صُورت آیا، جس میں سالِ گزشتہ کی چٹّھیوں کا تجزیہ کیا گیا۔ دوسرا شمارہ ٭10؍جنوری کا تھا، جس میں لاہور کی رانی خاور میو کی چٹّھی، ہفتے کی بہترین چٹّھی قرار پائی۔ ٭17؍جنوری سے لال کوٹھی، فیصل آباد کے محمّد سلیم راجا کی مسند نشینی کے سفر کا آغاز ہوا۔ ٭24؍جنوری کے جریدے کی کرسیٔ صدارت، صادق آباد کی عیشاء نیاز رانا کے حصّے آئی، تو ٭31؍جنوری کو یہ کرسی طارق آباد، فیصل آباد کے ڈاکٹر اطہر رانا نے سنبھالی۔ ٭7؍فروری کو محمّد سلیم راجا دوسری بار تخت نشیں ہوئے۔ ٭14؍فروری، ملیر،کراچی کی عفّت زرّیں کا دن تھا۔ ٭21؍فروری کو گلشنِ اقبال، کراچی کے چاچا چھکّن بھی میدان میں آگئے۔ مگر ٭28؍فروری کو راجا جی نے ایک بار پھر میدان مار لیا۔ ٭7؍مارچ کے’’عالمی یومِ خواتین ایڈیشن‘‘ کی ونر، لاہور کی عشرت جہاں ٹھہریں۔ ٭14؍مارچ، محمّد سلیم راجا کے چوتھی بار مسندِ صدارت سنبھالنے کا دن تھا۔ ٭21؍مارچ کو ڈیفینس، لاہور کی نازلی فیصل گیم میں اِن ہوئیں۔ ٭28؍مارچ کا دن، عیشاء نیاز رانا کی دوسری فتح کی نوید لایا۔ ٭4 ؍اپریل سے اسماء خان دمڑ (سنجاوی، بلوچستان) نے اینٹری دی۔ ٭11؍اپریل کو، شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی نے میرپورخاص کو کچھ اور بھی خاص کردیا۔ ٭18؍اپریل نازلی فیصل کو دوسری اور ٭25؍اپریل تیسری بار فتح یاب کرگیا۔ (مطلب ہیٹ ٹِرک ہوگئی)۔ ٭2؍مئی، عشرت جہاں کی دوسری، تو ٭9؍مئی (مدرز ڈے ایڈیشن) سلیم راجا کی پانچویں کام یابی کا دن تھا۔ عیدالفطر ایڈیشن 16؍ کے بجائے ٭13؍مئی کو آیا، اور اس کے مہمانِ خصوصی ٹھہرے، کراچی کے ہردل عزیز پروفیسر سیّد منصور علی خان۔ ٭23؍مئی کی بزمِ دوستاں، چھٹی بار محمّد سلیم راجا کے نام رہی۔ ٭30؍مئی کو جھڈو، میرپورخاص کے ضیاء الحق قائم خانی نے قدم رنجہ فرمائے۔ ٭6؍جون، احسن آباد، کراچی سے عرفان حسین خان نے جھلک دکھلائی۔ ٭13؍جون کو عشرت جہاں نے بھی ہیٹ ٹِرک کی ٹھانی۔ ٭20؍جون ’’مدرز ڈے ایڈیشن‘‘ ہی کی طرح ’’فادرز ڈے ایڈیشن‘‘ کی خصوصی اشاعت بھی راجا صاحب نے اپنے نام کی۔ ٭27؍جون، لاہور روڈ، شیخوپورہ کی وجیہہ تبسّم کے لبوں پر تبسّم بکھیرنے کا دن تھا، تو ٭4؍جولائی سلیم راجا کی آٹھویں بار مسند نشینی کا۔ ٭11؍جولائی کو شہزادہ بشیر کی دوسری بار تاج پوشی ہوئی، تو ٭18؍جولائی کے ایک اور خاص الخاص ایڈیشن (عیدالاضحیٰ ایڈیشن) کے مہمانِ خاص کا اعزاز، محمّد سلیم راجا ہی کے حصّے آیا۔ ٭25؍جولائی کو عیشاء نے ایک اور جست لگائی۔ ٭یکم اگست کو نارتھ ناظم آباد، کراچی کی ناز جعفری بھی میدان میں آگئیں۔ ٭8؍اگست (یومِ آزادی ایڈیشن) میں اسماء خان دمڑ کی برق رفتار زبان نے سب کو مات دے دی تو، ٭15؍اگست وجیہہ کی دوسری فتح کا یوم ٹھہرا۔ ٭22؍اگست کو اسماء دمڑ تیسری سیڑھی پھلانگ گئیں، تو ٭29؍اگست کو ضیاء الحق نے بھی دوسری جست لگائی۔ ٭5؍ستمبر کا خاص یومِ دفاع ایڈیشن، محمّد سلیم راجا کو 10؍ویں بار کرسیٔ خاص کا حق دار بنا گیا۔ ٭12؍ستمبر شہزادہ صاحب تیسری بار سُرخ رُو ہوئے، تو ٭19؍ستمبر کو راجا صاحب 11؍ویں بار۔ پھر ٭26؍ستمبر کو نارتھ کراچی کے ظفر احسان نویں پرونے (نئے مہمان) کی صُورت آن وارد ہوئے۔ ٭3؍اکتوبر کو عفّت زرّیں کی آمد، آمدِ بہار کے مثل ہوئی۔ ٭10؍اکتوبر، ایک بار پھر شہزادہ نقش بندی کا نقش ثبت کرگیا۔ ٭17؍اکتوبر کو کورنگی کراسنگ، کراچی کی صبیحہ عمّاد ؎ بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے کی مثل آئیں اور چھا گئیں، تو ٭24؍اکتوبر کو یہ مصرع صادق آباد کی اقصیٰ منوّر ملک پر صادق آیا۔ ٭31؍اکتوبر چشتیاں، بہاول نگر سے جاوید اقبال نے بزم کو چار چاند لگائے۔ ٭7؍نومبر کو اسماء خان دمڑ کی برق رفتاری ایک بار پھر سب کو مات دے گئی۔ ٭14؍نومبر کو ہمارے اسیر بھائی، ملتان کے پیر جنید علی چشتی، ’’اس ہفتے کی چٹّھی‘‘ کے چوکھٹے میں آئے، تو ٭21؍نومبر کو عدنان حسین نے بھی دوسری جست لگا ہی لی۔ ٭28؍نومبر، نازلی فیصل کی چوتھی اور ٭5؍دسمبر راجا صاحب کی 12؍ویں کام یابی کا یوم قرار پایا اور ٭12؍دسمبر، عشرت جہاں کو چوتھی بار، تو ٭19؍دسمبر، محمد سلیم راجہ کو تیرہویں اور سال 2021ء کا آخری شمارہ ٭26؍دسمبر کا ایڈیشن چودھویں بار بخت آور کرگیا۔

سال بھر کی بہترین چِٹّھیوں کے جائزے کے بعد، اس بار بھی ’’چِٹّھیوں کی چٹّھی‘‘ کے لیے جو نام سرِفہرست ہے، وہ لال کوٹھی، فیصل آباد کے ’’محمّد سلیم راجا‘‘ ہی کا ہے۔ ایک تو وہ 14؍اعزازی چٹّھیوں کے ساتھ تمام تر نامہ نگاروں پر سبقت لے گئے۔ دوم، اُن کی ہر ایک اعزازی چٹّھی، دوسری سے کچھ بڑھ کر ہی رہی۔ یہاں تک کہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کسے نمبر ون قرار دیا جائے، لہٰذا وہ خود جسے چاہیں، اوّل، دوم و سوم کے اعزازات سے نواز لیں، ہمارے لیے تو سب ہی اوّل ہیں۔ دیگر مستقل یا وقتاً فوقتاً شریک ہونے والے خطوط نگاروں میں ہم سیّد جنید علی چشتی، رونق افروز برقی، پرنس افضل شاہین، ضیاء الحق قائم خانی، نازلی فیصل، اسماء خان دمڑ، عشرت جہاں، عفّت زرّیں، ڈاکٹر اطہر رانا، ڈاکٹر محمّد حمزہ خان ڈاھا، خادم ملک، سیّد زاہد علی، آصف احمد، شاہدہ ناصر، جاوید اقبال، شری مرلی چند، شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، چاچا چھکّن، عیشا نیاز رانا، سمیع عادلوف، پروفیسر سیّد منصور علی خان، نیمروز خان مہمند، تجمّل حسین مرزا اور وجیہہ و فریحہ تبسّم کے تہہ دل سے ممنون و شُکرگزار ہیں کہ یہ بزم اگر برس ہا برس سے زندہ و پائندہ، رخشندہ و تابندہ ہے، تو اِن ہی سب بے غرض و بے لوث قارئین/ نامہ نگاروں کی بدولت، وگرنہ وہ جلیل مانک پوری کا شعر ہے ناں ؎ روز جاتے تھے خط اپنے، روز آتے تھے پیام… ایک مدّت ہوگئی، وہ سلسلہ جاتا رہا، تو دورِ حاضر میں بھلا کس کے پاس اتنی فرصت کہ وہ محض اخبارات و جرائد کے مندرجات پر تبصروں کی خاطر اس قدر جوکھم اُٹھائے۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین