• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

اپنی آنکھوں سے محبت؟

’’عُمر نامہ‘‘ پڑھا، اچھا لگا۔ معلومات میں اضافہ، خصوصاً اُس وقت ہوا، جب محمّد احمد غزالی نے چونکادیا کہ شیخ شہاب الدّین عُمر سہروردی اور شیخ شہاب الدین سہروردی دو الگ الگ شخصیات ہیں، بھئی واہ۔ لیکن یہ نہیں لکھا کہ وہ کس قبیلے سے اور کس زمانے میں گزرے ہیں یا کہ ہم عصر تھے۔ ڈاکٹر مسعود ’’عُمر‘‘ کے احوال ’’آرتھرائٹس سے تحفّظ‘‘ میں عالیہ کاشف نے خُوب بات چیت کی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹس‘‘ میں ’’اپنی آنکھوں سے محبّت کریں‘‘ کی صُورت تو ڈاکٹر مصباح العزیز ایک افسانہ ہی لے آئے، بھلا اپنی آنکھوں سے بھی کہیں محبّت کی جاتی ہے۔ ’’گفتگو‘‘ میں پاکستانی سائنس دان، ڈاکٹر محمّد اقبال چوہدری کو سُنا، بہت سُرور آیا۔ اشاعتِ خصوصی میں ڈاکٹر سیّد محمّد غفران سعید 2050ء تک کا تجزیہ لائے۔ ’’نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے‘‘ میں ماروی میمن جیسی مخلص، فعال اور تعلیم یافتہ خاتون پر عُمدہ تحریر لکھی گئی۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور راجپوت کی طرح منور مرزا بھی اس دفعہ دُہری کاوش منظرِ عام پر لائے۔ ایک مضمون میں دو اہم موضوعات اجاگر کیے گئے۔ ناول ’’دُھندلے عکس‘‘ کی چوتھی قسط پڑھنے کو ملی۔ اب تک ’’دُھندلے عکس‘‘ ملٹی پولر کے طور پر ہی سامنے آرہا ہے۔ کرن عباس کا قلم اسراء کی طرف زور کررہا ہے، البتہ نایاب، رسیم کی طرف راغب ہو رہی ہے۔ دیکھیے، اُمید کی کرن کس کو کس طرف لےجاتی ہے۔’’پیارا گھر‘‘ میں’’بچّیاں، کم عُمر، خوش نُما کلیاں‘‘جن کی چہک مہک سےگھربارونق ہو جاتا ہے،’’عالمی یوم برائے بچّیاں‘‘ پر روبینہ فرید خُوب صُورت تحریر لائیں۔ اگلے شمارے کا سرِورق قابلِ زیارت تھا۔ دیکھتے ہی پلکیں جُھک گئیں۔ اے کاش! ہر دفعہ ایسا ہی ہو۔ ربیع الاول کی بابرکت ساعات سے ہم بھی مستفید ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اقصیٰ اور طہورہ نے اچھی کوشش کی۔ اس بار ’’پیارا گھر‘‘ بھی رحمتوں، برکتوں سے مرصّع تھا،جیسے بہار کی اوّلین ہوائیں چل رہی ہوں۔ ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی نے ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی شان و شوکت بڑھادی۔ ناول، حسبِ معمول، لاجواب رہا۔ دیکھیے آنے والی اقساط میں مصنّفہ کیاکیا منظرِعام پرلاتی ہیں۔’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا قلم آکوس کے گرد گھوم رہا تھا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں تین کہانیاں پڑھنے کو ملیں۔ کیا واقعی، ایسی ساسیں بھی ہوتی ہیں۔ (ڈاکٹر محمد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)

ج: ’’اپنی آنکھوں سے محبّت کریں‘‘ میں بھلا کون سا افسانہ ہے، اس سے اچھی بات یا نصیحت تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی اور آپ ڈاکٹر ہو کے بھی اگر اِسے افسانہ کہہ رہے ہیں، تو سلام ہے، آپ کی دانش مندی کو۔

جواب آف دی سینچری

عالمی سیاست پر گہری نظر اور قلم کی حُرمت برقرار رکھنے والے نام وَر قلم کار، منور مرزا خبردار کر رہے تھے کہ دنیا ’’ملٹی پولزبننے جا رہی ہے؟‘‘ لہٰذا جذباتی فیصلوں کی قطعی ضرورت نہیں۔ ’’نیرنگیٔ سیاست ِدوراں تو دیکھیے‘‘ میں فاروق اقدس نے عائشہ گلالئی کی حماقتوں اور عائلہ ملک، سمیرا ملک کی جعلی تعلیمی اسناد کا ذکر کچھ اس انداز سے کیا کہ پڑھ کےمزہ آگیا۔ معروف کارڈیالوجسٹ، ڈاکٹر گوہر سعید کےمضمون کا سَت یہی تھا کہ ’’پرہیز علاج سے بہتر ہے‘‘ اختر سعیدی جب بھی قلم اٹھاتے ہیں، پھول، گلشن بنتے چلے جاتے ہیں، ’’مولانا سیّد ابولاعلیٰ مودودی بحیثیت انشا پرداز‘‘ منفرد انداز کی تحریرتھی۔ کرن عباس کرن کے ناول ’’دُھندلے عکس‘‘ کا ایک لفظ پڑھے بغیر آگے بڑھ گئے۔ یادداشتیں میں وحید زہیر، کوئٹہ سے سردار عطا مینگل کے اوراقِ زندگی پلٹ رہے تھے۔ پیرزادہ شریف الحسن عثمانی ’’محبتوں کی وہ پہلی سی نزاکتیں، لطافتیں کافور ہوگئیں‘‘ کا نوحہ بیان کر رہے تھے اور ڈاکٹر عزیزہ انجم کے قلمی نسخے ’’بُرا وقت بتا کر نہیں آتا‘‘ کا جواب نہ تھا۔ اگلے ایڈیشن کا آغاز ہوا، دنیا کے سب سے میٹھے، مُسکراتے عنوان ’’نہیں ہے جہاں میں مثالِ محمدﷺ‘‘ سے۔ اقصیٰ ملک نے لفظ چُن چُن کر کیا خُوب صُورت گل دستہ تشکیل دیا کہ میگزین کو مزید مہکا دیا۔ اگلا صفحہ بھی ’’رحمت کے پیکر مجسّم‘‘ کا عنوان لیے خُوب مہکا۔ منور مرزا جب لکھنے پر آتےہیں، تو چمن ہنستے، پھول مُسکرا اٹھتےہیں۔ ڈاکٹر عبدالباسط عارضہ آسٹیوپوروسس‘‘ پر معلوماتی تحریر لائے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ڈاکٹر حافظ محمد ثانی نے اپنے قلم کو دنیا کے خُوب صُورت ترین موضوع ’’آپؐ کی عظمت و رفعت‘‘ پر رواں کیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں شہلا خضر ’’منافق‘‘ کے ٹائٹل تلے بہت کچھ سوچنے سمجھنے کا شعور دے گئیں۔ سلمیٰ اعوان کی رُوداد بڑی پُرلُطف تھی۔ اور میرے خط کے جواب میں آپ نے لکھا ’’آپ کے خط کا بھی اپنا ایک الگ ہی ذائقہ ہے‘‘ تو میرے لیے تو یہ ’’جواب آف دی سینچری‘‘ ہے۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)

ج: ایسے ہی خوش رہیے۔

جیولری، میک اَپ اچھا تھا

شمارہ ملا، سرِورق پر گلابی ربن، کہی اَن کہی اور سیاست کی چکا چوند نمایاں تھے۔ سیاہ لباس میں نازک اندام غلافی آنکھوں والی ماڈل بھی پیاری لگ رہی تھی۔ ’’عالمی افق‘‘ پر پہنچے، تو معلوم ہوا کہ منور مرزا عالمی طاقت کے توازن کے محور، انڈوپیسیفک پر گفتگو فرما رہے ہیں۔ حافظ محمّد ثانی نے حضرت مجدّد الف ثانی پر عُمدہ لکھا۔ فاروق اقدس نے مہتاب اکبر راشدی کے تعارف اور سیاسی عروج و زوال سے آگاہ فرمایا۔ شفق رفیع نے بہترین مضمون، تو ڈاکٹر روفینہ سومرو نے بریسٹ کینسر سے متعلق معلومات سے بھرپور مضمون لکھا اور اپنے فیصل آبادی، رانا اطہر کابھی مختصر، مگر معلومات سے بھرپور مضمون تھا۔ اُن سےجلد ملنا ہے کہ ہم بھی دانتوں کے مریض جو ٹھہرے۔ ناول بہترین جارہا ہے۔ علی عباس کا کہی اَن کہی میں تعارف ہوا، اچھا رہا۔ سینٹر اسپریڈ میں فون رنگ ایمبوزڈ ٹرائوزر اور شمری میسوری فیبرک میں کام دار قمیص نہایت خُوب صُورت تھی، تو جیولری اور میک اپ بھی اچھا تھا۔ متفرق میں بلوچستان کا ’’موسمِ خزاں‘‘ پسند آیا۔ اگلے شمارے میں ڈاکٹر اقبال چوہدری سے بات چیت مفید رہی، ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ میں ماروی میمن سے اچھی طرح روشناس ہوئے۔ متفرق اور پیارا گھر خُوب تھے،تو کتابوں میں ڈاکٹر عادل خان کی تاریخ اسلامی جمہوریہ پاکستان پر تبصرہ پسند آیا۔ (پیر جنید علی چشتی، ملتان)

ج:گرچہ آپ بتاچُکے ہیں کہ آپ فیشن ڈیزائننگ میں سندیافتہ ہیں، پھربھی ماڈل اورماڈلنگ سے متعلق آپ کی گفتگو، ایک بار تو ’’ساڑ‘‘ کے ہی رکھ دیتی ہے کہ کوئی فیلڈ تو صرف خواتین کے لیے چھوڑ دیں۔

ہر بار کوئی منفرد تحریر

منورمرزا نے ’’حالات و واقعات‘‘ میں تائیوان تنازعے پر بہت اعلیٰ مضمون لکھا، جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ثروت جمال اصمعی کے قلم سے بائبل میں حضور اکرمؓ کی بشارتیں پڑھ کر دل خوش ہوگیا۔ شفق رفیع بھی ہمیشہ کوئی منفرد تحریر ہی لےکر آتی ہیں۔ محسنِ پاکستان، ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر کیا خُوب صُورت تحریر عنایت کی، پڑھ کر دل کو سُکون ملا۔ اس مرتبہ پیارا گھر موجود نہیں تھا،تو نور خان محمّد حسنی نے بلوچستان کے روایتی کھانے عنایت کر کے دل خوش کردیا، شکریہ۔ رائو محمّد شاہد اقبال نے ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں نئی وارداتوں پر لکھ کر سب کو ہوشیار کیا، ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ کا قسط وار سلسلہ پسند آرہا ہے۔ اور ناقابلِ فراموش پر ہمایوں ظفر واقعی محنت کررہے ہیں، دونوں واقعات پسند آئے۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

’’ناقابلِ فراموش‘‘ کا نام دے دیا ہے

مودبانہ گزارش یہ ہےکہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کا صفحہ ہم کئی مہینوں سے پڑھ رہے ہیں، لیکن اس میں وہ بات نہیں، جو رعنا فاروقی کے دَور میں ہوتی تھی۔ یہ صفحہ تو ہر گھر کی کہانی تھا۔ ہر گھر کے معاشرتی حالات کی ترجمانی کرتا تھا۔ پچھلے ایڈیشن آپ کے پاس ہوں گے، چیک کرلیں، فرق محسوس ہوجائے گا۔ اب تو بس، عام سی تحریروں کو آپ لوگوں نے ناقابلِ فراموش کا نام دے دیا ہے۔ (محمد انور ولد احمد الدین، اولڈایج ہوم (عافیت) سوشل ویلفیئر کمپلیکس، ٹائون شپ چوک، لاہور)

ج: ہم نے کسی عام تحریر کو ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کا نام نہیں دیا۔ اس عنوان کے تحت جو واقعات وصول پارہے ہیں، ہم اُن ہی کی نوک پلک سنوار کے شایع کر رہے ہیں۔ اب خود سے فرضی یا بھوت پریت کی کہانیاں لکھ لکھ کے تو شایع کرنے سے رہے۔ آپ کے پاس اگر کچھ اَن ہونے، مافوق الفطرت واقعات موجود ہیں، تو آپ لکھ بھیجیں۔

عجیب سا سلسلہ

سنڈے میگزین آپ اور آپ کی ٹیم کی محنت کی بدولت سُپر ڈپر، زبردست، لاجواب، بے مثال ہوتا جا رہا ہے۔ تقریباً تمام ہی سلسلے اچھے ہیں، بس ایک صفحہ ’’جنگ پزل‘‘ عجیب سا ہے کہ ایک ہی طرح کے سوالات ہر اتوار نظر سے گزرتے ہیں۔ اپنی ایک چھوٹی سی کاوش ارسال کررہا ہوں، اس اُمید کے ساتھ کہ عنقریب آپ کے میگزین میں پڑھ سکوں گا۔ (عدنان حسین خان، اللہ بخش ویلیج، گڈاپ ٹائون، کراچی)

ج:اس عجیب سے سلسلے کا ادارتی صفحات سے کچھ لینادینانہیں۔ اسےآپ شعبہ اشتہارات کے کھاتے میں رکھا کریں اور یہ تیار بھی وہیں ہوتا ہے، ہمارے یہاں نہیں۔

دنیا کی ہنس مُکھ ترین قوم

آپ فرماتی ہیں کہ قوم کا اصل مسئلہ ذہنی آلودگی ہے، تو براہِ مہربانی خطوط کا جواب دیتے ہوئے ذرا مزاج درست رکھا کریں۔ ہماری قوم تو دنیا کی ہنس مُکھ ترین قوم ہے۔ کراچی دنیا کا سستا ترین شہر ہے، یہاں کوئی بھوکا نہیں سوتا۔ آپ لوگ پاکستان کی روشن تصویریں بھی تو اُجاگر کیا کریں، ہر وقت رونے دھونے سے کیا ہوگا۔ کیا ہم مرتے دَم تک شکوے شکایتیں ہی کرتے رہیں گے اور دوسری بات غالباً آپ کے پاس بہت سارے کُوزے ہیں، جو آپ کے جوابات اس قدر مختصر ہوتے ہیں۔ ارے بھئی، جوابات ذراتفصیلی دیاکریں۔ اتنے مختصر جوابات پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ جوابات دینے پر بھی ٹیکس لگ گیا ہے۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)

ج: ہاہاہا… آپ کا یہ نامۂ ’’سال کا بہترین لطیفہ‘‘ ہے۔ پاکستانی… اور ہنس مُکھ؟ ہمارے تو صاحبانِ اقتدار میں سارا دن جوتم پیزار ہوتی رہتی ہے۔ مجال ہے، جو صبح سے شام تک کوئی ایک صُورت مُسکراتی نظر آ جائے۔ ہر شخص آدم بے زار یا پھر گرتا پڑتا، سُستی کا مارا۔ جسے دیکھو، رو ہی رہا ہوتاہےاور آپ فرما رہے ہیں، ہنس مُکھ قوم۔ ہاں، آپ کی دوسری فرمایش کسی حد تک پوری ہوگئی ہے کہ آج آپ کے خط سے لمبا ہمارا جواب ہے۔

ڈھارس بندھ جاتی ہے

سنڈے میگزین سے ہمارا رشتہ اگرچہ زیادہ پرانا نہیں، تین سال قبل جب بچّوں کی تعلیم کے سلسلے میں گائوں چھوڑ کر شہر آئے، تو میاں جی سے فرمایش کی کہ ہمیں کوئی اخبار لادیں، کیوں کہ بچّوں کے اسکول جانے کے بعد ذرا بوریت ہوتی ہے، تو انہوں نے جنگ اخبار کے ساتھ، سنڈے میگزین لاکردیا، تب سےاب تک ہم اس کے قاری ہیں۔ بلاشبہ آپ کی پوری ٹیم کی اَن تھک محنت کی وجہ سے میگزین شان دار ہے اور اس کے تمام ہی سلسلے بہترین ہیں۔ خصوصاً ہم تو اسے شروع سے آخر تک حرف بہ حرف پڑھتے ہیں،لیکن مزے کی بات سُنیں، شروع الٹا کرتے ہیں، یعنی ’’آپ کا صفحہ‘‘ سے۔ کبھی کبھی تو آپ کے جوابات پڑھ کے ڈر جاتے ہیں کہ کہیں ناراض نہ ہوجائیں کہ ہم اناڑی لوگ، جو زیادہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے، وہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں کیا لینے آگئے۔ لیکن کبھی کبھی آپ کے جوابات پڑھ کر ڈھارس بھی بندھ جاتی ہے۔ اسماء خان کے خط پڑھ کے تو ہر ایک ہی کا مُوڈ ٹھیک ہو جاتا ہوگا۔ بڑی خوش مزاج سی بچّی ہے، ماشاء اللہ۔ آخر میں ایک سوال کے ساتھ اجازت دیں کہ ’’آپ کے آنگن میں کتنے پھول ہیں؟‘‘ (والدہ محمّد خبیب، تونسہ شریف)

ج: خوش آمدید! محمّد خبیب کی والدہ کی اپنی بھی تو کوئی شناخت ہوگی۔ سو، اگلا خط اپنے نام کے ساتھ لکھیں۔ یوں تو ہمیں ذاتی باتیں ڈسکس کرنا بالکل پسند نہیں، لیکن اب آپ ’’نویں پرونی‘‘ (نئی مہمان) ہیں، تو آپ کو منع کرنا اچھا بھی نہیں لگ رہا۔ ہمارے آنگن میں دو پھول ہیں۔ ایک صاحب زادی اور ایک صاحب زادہ۔

                                    فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

بقول شخصے ’’جب زیادہ بارش آتا ہے، تو زیادہ پانی بھی آتا ہے‘‘ اسی طرح جب Sunday کو فیصل آباد میں Sun آتا ہے، تو اپنے ساتھ Sunday میگزین بھی لاتا ہے۔ ’’پُرکیف ہیں فضائیں، ہرشے دمک رہی ہے…‘‘ کی پُرفضا شہ سُرخی سے مرصّع پیشِ نظر شمارہ تبدیلی کے ایّامِ پُرآشوب میں دلِ پُر اَلَم کو پُربہار بنا گیا۔ عِشوہ پرداز ماڈل کی ساعدِ سیمیں پر سنہری گھڑی کے ساتھ اِک ٹہنی گلاب کی کمی محسوس ہوئی۔ سحرِ سرِورق سے نکل کر منور مرزا کے شہر ’’حالات و واقعات‘‘ کی فصیل سے اندرجھانکا، تو جناب امریکا اور چین کے آمنے سامنے آنے پر پریشان تھے (مبادا سانڈوں کی لڑائی میں علاقائی ڈَڈّو نہ کچلے جائیں) ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ثروت جمال اصمعی نے اوراقِ تاریخ پلٹتے ہوئے بشارت ہائے آمد رسولؐ (بحوالہ بائبل) بااندازِ نفیس پیش کیں۔ محسنِ پاکستان، ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے متعلق مدیرہ صاحبہ نے ذیلی سُرخی لگائی ’’آہ…!!ہم اُن کی محبتّوں،عنایتوں اور احسانات کا بدلہ نہ چُکا سکے۔‘‘ عرض ہے کہ قدیر خان کا مجرم صرف ایک ہی شخص ہے، وہ ہے حالیہ لندن نشین، سابق مکّےباز، ڈکٹیٹر مشرف۔سوشل سائنس دان رئوف ظفر نے ’’ورلڈ پولیو ڈے‘‘ کے موقعے پر اربابِ اختیار کو عالمِ مدہوشی سے نکال کر اُن کی آنکھیں کھول دیں۔ مقامِ افسوس ہے کہ زمانہ چال قیامت کی چل گیا، مگر ہمارے رجعت پسند پولیو ویکسین کے جائز و ناجائز کے مخمصے میں اٹکے ہوئے ہیں۔ نور خان محمّد حسنی کو بجا طور پر ترجمانِ بلوچستان کہا جاسکتا ہے۔ بلوچی مرچ مسالے والے کھانے چکھ کر خان صاحب نے قارئین کا دل بوکاٹا کردیا۔ سنڈے اسپیشل میں ہمارے رائو شاہد اس بار نک ویلوٹ کا رُوپ دھار کر حیران کُن، رُوح فرسا اور چشم کُشا عالمی چوریوں کی کہانیاں سُنا گئے۔ ہمارے ہاں جو بادشاہ گر الیکشن چوری کرکے جی حضوری کےلیےمَن پسند موتی چُور لڈّو گھڑتے ہیں، کبھی وہ بھی قارئین سے شیئر کریں۔ فاروق اقدس کے کوچۂ سیاست کی رنگلی مسہری ’’اِن اینڈ آئوٹ‘‘ پر سابق فرسٹ لیڈی ریحام خان بیٹھی بھلی لگیں۔ ڈاکٹر صاحبان نے آرتھرائٹس اور فالج سے متعلق ڈھیروں نالج دے کرہم قارئین کو گویا فِری ایڈمِشن اِن میڈیکل کالج دلوا دیا۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل کے ’’قومی زبان، اردو کی بے توقیری‘‘ پر لکھے دل گداز مضمون سے یقین جانیے بہت دل گیر و دل گرفتہ ہوئے۔ مگر اختر سعیدی کے نو لکھا ہار (بُک شیلف) کے ٹاپ ڈائمنڈ ’’ہجرناتمام (غزلیات) کا برگِ گُل سا خُوب صُورت ٹائٹل دلِ شیدائےفطرت کوبہت بھایا۔ مدیرہ صاحبہ! سال 2021ء الوداع ہو رہا ہے، دُعا ہے کہ ناگوار عہدِ تبدیلی کے ناسازگار ایّام بندۂ مزدور کے لیے خُوش گوار ہوجائیں اور سالِ نو کے یادگار لمحے اہلِ وطن کے لیے سدا بہار بن جائیں۔ (محمّد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: آمین، ثم آمین۔

گوشہ برقی خُطوط

مَیں اپنی شاعری شایع کروانا چاہتی ہوں۔ (سارہ ثمیر)

ج: تو کیا کریں، ’’شاہ کار‘‘ حاصل کرنے کے لیے خود چل کے آپ کے گھرآئیں۔ ارے بھئی، شایع کروانا چاہتی تھی، تو اسی ای میل کے ساتھ بھیج دیتی۔

ماشااللہ، ماشااللہ سنڈے میگزین بہترین جارہا ہے۔ یہ میری دوسری ای میل ہے، جو صرف آپ لوگوں کی حوصلہ افزائی کی غرض سے تحریر کررہی ہوں۔ (شائستہ عابد)

ج: بہت شکریہ شائستہ!!

اے کاش! آپ لڑکوں کو بھی بطور ماڈل میگزین میں جگہ دیں اور شروعات مجھ ہی سے ہو۔ (شیراز منظور، دائود پور)

ج: زندگی ایسے ہی بہت سے’’ اے کاش!‘‘ کا مجموعہ ہے۔

کیا مَیں’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے لیے سچّا واقعہ بھیج سکتی ہوں۔ اگر ہاں، تو کیا ہاتھ سےلکھ کے بھیجوں یا کمپوزڈ فائل کی صُورت۔ (اقراء شہزادی)

ج: ہاں… اور دونوں صُورتوں میں بھیج سکتی ہو۔

مَیں آپ کو ایک آرٹیکل بھیجنا چاہتا ہوں۔ (سیّد ہنی جعفری)

ج: بھیج دیجیے۔ آرٹیکل بھیجنے کے لیے کسی باقاعدہ اجازت نامے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہر وہ تحریر، جو قابلِ اشاعت ہو، باری آنے پربغیر کہے شایع کردی جاتی ہے۔ طریقہ کار سیکڑوں بلکہ ہزاروں بار بتایا جاچکُا ہے۔ کسی بھی پرانے جریدے سے دیکھ لیں۔

عرفان جاوید کب سے لکھنا شروع کررہے ہیں، اُن کی کمی شدّت سے محسوس ہورہی ہے۔ (محمّد زین العابدین، علی پور)

ج: عرفان جاوید جلد آپ لوگوں کے سامنے ایک نئے سرپرائز کے ساتھ موجود ہوں گے۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ۔

گوہر تاج سے ملاقات کا جواب نہ تھا۔ ’’ اسٹائل‘‘ کے صفحات کے لیے درخواست ہے کہ لباس کی پوری تصویر شایع کیا کریں۔ آسیہ عمران کی اپنے بھائی سے متعلق تحریر بہت دل گداز تھی۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں جمیل احمد کو آپ نے بہترین جواب دیا اور اسماء خان دمڑ کے خط کا تو کوئی جواب ہی نہیں ہوتا۔ (قرا ٔت نقوی، ٹیکساس، یو ایس اے)

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk

تازہ ترین