پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی 14ویں برسی 27دسمبر 2021کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں جہاں جیالے رہتے ہیں منائی جارہی ہے۔انہیں 27 دسمبر 2007کے ایک خون آشام دن راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے سے واپسی کے دوران ایک خودکش حملے میں شہید کر دیا گیا تھا۔ پاکستان اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور حکومت میں طویل جلاوطنی کاٹنے کے بعد دبئی سے جب کراچی پہنچیں تو لاکھوں افراد کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کے استقبال کے لیے موجود تھا۔ وہ اپنے استقبالیہ جلوس کے ساتھ ایئرپورٹ سے اپنے گھر جا رہی تھیں کہ ان کے قافلے پر خودکش حملہ کردیا گیا جس کے نتیجے میں سو سے زائد جیالےشہید اور بیسیوں معذور ہوگئے،تاہم بےنظیر بھٹو حملے میں محفوظ رھیں،انہیں وطن واپسی سے روکنے کے لئے جان سے مارنے کی دھمکیوں سمیت تمام حربے آزمائے گئے مگر وطن کی محبت میں انہوں نے تمام خطرات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان واپسی کو ترجیح دی،وہ کہتی تھی کہ جن کارکنوں نے میری خاطر قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں کوڑے کھائے، میں انہیں کیسےاکیلا چھوڑ سکتی ہوں،بے نظیر بھٹو 2008 کے انتخابات میں حصہ لینے کے ارادے سے پاکستان لوٹی تھیں اور انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں 27 دسمبر 2007کے روز جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا،وہ جلسے سے خطاب کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھ کر واپس جا رہی تھیںکہ راستے میں استقبال کے لیے کھڑے جیالوں کے نعروں کا جواب دینے کے لیے گاڑی کی چھت کھول کر باہر نکلیں اور ہاتھ ہلا کر انکے نعروں کا جواب دے رہی تھیں کہ قافلے میں موجود بے چہرہ قاتل نے ان پر فائرنگ کر کے انہیں شہید کر دیا جس کے فورا بعد ایک خود کش دھماکہ بھی ہوا۔بے نظیر بھٹو کی شہادت پر ملک بھر بالخصوص سندھ میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تاہم اس مشکل وقت میں مردِ حر آصف علی زرداری نے وفاق کو بچانے کے لئے بھرپور کردار ادا کیا اور غم و غصے میں بھرے جیالوں کو پاکستان کھپے کا نعرہ بلند کرنے کا حوصلہ دیا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی تحقیقات اقوام متحدہ کے ٹریبونل سمیت متعدد اداروں نے نے کیں، آج بی بی شہید ہم میں موجود نہیں مگر ان کا وژن، یادیں اور باتیں لے کر ان کا نوجوان بیٹا بلاول بھٹو زرداری پاکستانی سیاست میں کامیابی سے قدم رکھ چکا ہے۔ بے نظیر بھٹو ہارورڈ اور آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد میدانِ سیاست میں اپنے عظیم والد ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے داخل ہوئیں،بے نظیر بھٹو کو ان کے سیاسی تدبر اوربہادری کی وجہ سے دخترِ مشرق، دخترِ اسلام اور آئرن لیڈی کے ناموں سے پکارا جاتا تھا وہ وفاق پاکستان کی علامت اور عوامی امنگوں کی ترجمان تھیں، وہ عالمی سطح کی رہنما تھیں جو مفاہمت کے ذریعے تمام معاملات چلانے پر یقین رکھتی تھیں،بے نظیر بھٹو عالم اسلام سے غربت و افلاس اور پسماندگی کا خاتمہ کر کے اسے روشن خیالی کا مرکز بنانا چاہتی تھیں۔انسانی حقوق ہوں یا اقلیتیں، مسئلہ کشمیر ہو یافلسطین، انہوں نے ہر فورم پر آواز سر بلند کی۔محترمہ شہید آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتی تھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 2002میں حاصل ہونیوالے تجربے کی بنیاد پر تمام تر خطرات کے باوجود ملک واپسی کو ترجیح دی،بی بی شہید نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شہادت کی منزل پائی مگر بھٹو کے سیاسی وارث ہونے کا حق ادا کر گئیں۔بقول تنویر ظہور:
اس نے اندھیاروں میں سورج بوئے
مرنے سے وہ کب ڈرتی تھی
وہ تو موت سے آنکھ ملا کر ہنستی تھی