2021ء بھی حسبِ سابق عدالتی فعالیت کا سال رہا کہ عدالتِ عظمیٰ، اسلام آباد ہائی کورٹ اور دیگر عدالتوں کی جانب سے کئی ایک ایسے فیصلے سامنے آئے، جن سے مُلکی سیاسی اور سماجی منظر نامے پر گہرے اثرات مرتّب ہوئے۔ سانحہ اے پی ایس کیس میں وزیرِ اعظم، عمران خان نے مختصر نوٹس پر سپریم کورٹ میں پیش ہو کر واقعے کے ذمّے داروں اور غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کروائی۔ اس موقعے پر وزیرِ اعظم کو ججز کے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔
جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے،’’ کیا آپ مجرموں کے سامنے پھر ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دست خط کرنے جا رہے ہیں؟‘‘ چیف جسٹس نے کہا،’’شہید بچّوں کے والدین سوال کرتے ہیں کہ سیکوریٹی سسٹم کہاں تھا؟ ذمّے داروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟‘‘ وزیرِ اعظم نے کہا،’’ کوئی مقدّس گائے نہیں، عدالت حکم دے، عمل کروں گا۔‘‘سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ایکٹ کے تحت 16ہزار ملازمین کی بحالی کے قانون کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ غلط قانون بنا کر ریگولر ملازمین کی حق تلفی کی گئی۔
جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ حکومتیں سرکاری خزانے سے خیرات نہیں کر سکتیں، یہ 16ہزار ملازمین کا نہیں، 22کروڑ لوگوں کا مُلک ہے۔ نظرثانی درخواست بھی خارج کر دی گئی، تاہم عدالت نے ملازمین کی بحالی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ یکم نومبر 1996 ء سے12 اکتوبر 1999 ء تک برطرف کیے گئے ایسے ملازمین کو، جن کی تعیّناتی کے لیے کسی استعداد، تعلیمی قابلیت یا مہارت کا امتحان درکار نہیں تھا، نظرثانی فیصلے کے دن سے اُن پوسٹس پر بحال کیا جاتا ہے، جس پر وہ ابتدائی برطرفی کے وقت تعیّنات تھے، جب کہ ایسے ملازمین کو، جن کی تعیّناتی کے لیے امتحان درکار تھا، تعیّناتی کی شرائط ہی پر بحال ہوں گے۔
عدالت نے کہا کہ صرف مس کنڈکٹ اور کرپشن پر برطرف کیے گئے ملازمین بحال نہیں ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے کراچی کے نسلہ ٹاور کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے پہلے بارود اور پھر زیادہ مزدور لگا کر منہدم کرنے کے احکامات جاری کیے۔اسی طرح کئی مزید عمارتیں بھی گرانے کا حکم دیا گیا۔ عدالت نے ریلوے زمین پر تجاوزات گرانے کے خلاف درخواستیں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی قبضہ 100سال بعد بھی جائز نہیں ہوتا۔
سپریم کورٹ نے ڈینئل پرل قتل کیس میں عُمر شیخ سمیت تمام ملزمان کی رہائی کا فیصلہ سُنایا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا،’’ عُمر شیخ کے کالعدم تنظیموں سے روابط کے شواہد موجود ہیں، لیکن ایسے نہیں کہ عدالت میں ثابت کر سکیں۔ انٹیلی جینس ایجنسیز ڈیٹا اکٹھا کر رہی ہیں۔‘‘
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا، 18سال سے عُمر شیخ قید ہے۔کالز کے 12سال بعد آپ کو یاد آ رہا ہے کہ ابھی تک ڈیٹا ہی اکٹھا نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ نے نیب ریفرنس میں دو سال سے گرفتار پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما، خورشید شاہ کی 1کروڑ روپے کے مچلکوں پر ضمانت منظور کرتے ہوئے کہا کہ نیب ثبوت نہ دے سکا۔ نیب کے پاس حساب کتاب نہیں، کیا ملزم خود تفصیل دے گا؟ ایک اور کیس میں جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ نیب ملزمان کو گرفتار کر لیتا ہے، ریفرنس سال، ڈیڑھ سال بعد دائر کیا جاتا ہے۔ ایک کیس میں جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ نیب لوگوں کی آزادی سے نہ کھیلے، اپنے تشخص کا خیال رکھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب ریفرنس میں احسن اقبال کی گرفتاری کو اختیار سے تجاوز قرار دیتے ہوئے کہا کہ نیب ان کی کرپشن کا کوئی ثبوت دینے میں ناکام رہا۔ لاہور ہائی کورٹ نے خواجہ آصف کی ضمانت منظور کرنے کے فیصلے میں لکھا کہ ان پر عاید الزامات تفتیش طلب ہیں۔ نیب کے موقف میں تضاد ہے، ملزم کو غیر معیّنہ مدّت کے لیے جیل میں نہیں رکھا جا سکتا۔ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے فیصلہ دیا کہ از خود نوٹس کا اختیار صرف چیف جسٹس کا ہے۔ کوئی دوسرا بینچ بنیادی حقوق کی پامالی کے معاملے پر از خود نوٹس کے لیے سفارشات کے ساتھ غور کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا سکتا ہے۔
از خود نوٹس کیس بھجوانے سے قبل متعلقہ بینچ معاملے کی انکوائری کے لیے کسی کو نوٹس جاری نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی سے رپورٹ طلب کر سکتا ہے۔سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے میپکو میں بھرتیوں سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی جائزے کا مطلب انتظامی اختیارات کا استعمال نہیں۔ ججز کے آئین سے تجاوز کا رجحان روکنا ہوگا۔ریاست کا کوئی ستون دوسرے کی حدود میں مداخلت نہیں کر سکتا۔سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے فیصلے پر نظرثانی درخواستوں پر حکم جاری کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، اُن کی اہلیہ اور بچّوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کاؤنسل سمیت کسی فورم پر کارروائی نہیں کی جا سکتی۔
نظر ثانی درخواست پر فیصلے کے خلاف نئی حکومتی نظرثانی درخواست میں تمام ججز پر مشتمل فل بینچ بنانے کی استدعا کی اور کہا کہ ایف بی آر کا موقف درست طور پر نہیں سُنا گیا۔ اس پر رجسٹرار آفس نے اعتراض لگایا کہ ایک کیس میں دو مرتبہ نظرثانی نہیں ہو سکتی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف درخواست پر سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی کہ جج نے عدلیہ کو بدنام کر کے حلف کی خلاف ورزی کی۔ جس ریفرنس میں شوکت صدیقی برطرف ہوئے، اُس کے حقائق تسلیم شدہ ہیں۔ تقریر اور اس کے نکات سے انکار نہیں کیا۔
جوڈیشل کاؤنسل نے انکوائری کو مناسب نہیں سمجھا۔بینچ نے سوال اٹھایا کہ اگر خفیہ اداروں کے افسران شوکت صدیقی کے گھر آتے تھے، تو ان کے بھی یقیناً اُن سے تعلقات ہوں گے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی خود پر اٹھنے والے سوالات پر جذباتی ہو کر روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ان کے فوج سے تعلقات نہیں، بلکہ تقریر میں ان کا مقصد اپنے ادارے کا دفاع اور عدلیہ میں موجود کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرنا تھا۔ شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا،’’ تقریر قابلِ اعتراض تھی، تو سپریم جوڈیشل کاؤنسل انکوائری کرتی، مگر کاؤنسل نے انکوائری کے بغیر فیصلہ دے دیا۔آئین کسی جج کو فارغ کرنے سے پہلے اس پر عاید الزامات کی انکوائری لازمی قرار دیتا ہے۔
اگر بغیر انکوائری کسی جج کو نکالنے کی مثال بن گئی، تو کسی بھی جج کو کبھی بھی برطرف کر دیا جائے گا۔‘‘سپریم کورٹ نے ضلع رحیم یار خان کے نواحی علاقے میں مندر پر حملے کے ذمّے داروں کو فوری گرفتار کرنے اور ضلع کرک میں ایک پرانے مندر(سمادھی) کو جلانے والوں سے سوا تین کروڑ روپے وصول کرنے کا حکم دیا۔
سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کیے جانے سے متعلق کیس میں ڈی جی ایف آئی اے سے ایک سال میں صحافیوں پر ہونے والے مقدمات جب کہ آئی جی اسلام آباد سے ایک سال میں صحافیوں پر ہونے والے حملوں کی تفصیلی رپورٹ طلب کی۔ پیمرا سے چینلز کے خلاف کارروائی کے اختیار سے متعلق جواب طلب کیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف ایٹ کچہری میں وکلا کے چیمبرز سمیت غیر قانونی تعمیرات گرانے کا حکم دیا اور فُٹ بال گراونڈ سے وکلا کے چیمبرز گرائے گئے۔ اسلام آباد بار نے سپریم کورٹ میں اپیل کی، تو پہلے حکمِ امتناع ملا اور پھر غیر قانونی طور پر بنے وکلا کے دفاتر اور عدالتیں گرانے کا حکم آ گیا۔
چیف جسٹس نے کہا،’’ غیر قانونی کام کو جواز فراہم نہیں کریں گے۔ بار فُٹ بال گراونڈ پر ملکیت کا دعویٰ کیسے کر سکتی ہے؟‘‘ اسلام آباد ہائی کورٹ نے معلومات تک رسائی قانون کے تحت تفصیلات جاری کیں اور بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور دیگر ججز نے کسی بھی حکومتی یا کسی اور اسکیم میں پلاٹ کے لیے اپلائی کیا اور نہ ہی کوئی پلاٹ الاٹ ہوا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایڈہاک ججز جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار کو مستقل کرنے کی منظوری دی گئی۔ عدلیہ کی تاریخ کا سیاہ دن ثابت ہوا، جب وکلا کے چیمبرز گرانے کے معاملے پر وکلا کے ایک گروہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ پر دھاوا بول دیا۔ چیف جسٹس کے چیمبر پر حملہ کیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ اور دیگر ججز کو یرغمال بنائے رکھا۔ جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر اور سیکرٹری سمیت دیگر ملوّث وکلا کے لائسینس معطّل اور توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کی گئی۔ بعدازاں ان کے کیسز کارروائی کے لیے بار کاؤنسل بھجوا دیے گئے۔ کابینہ ڈویژن نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست جمع کروائی کہ پاکستان انفارمیشن کمیشن کے آرڈر کے تحت شہری کو یہ معلومات فراہم نہیں کر سکتے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کو غیر مُلکی سربراہان مملکت کی جانب سے کون سے تحائف ملے، کیوں کہ یہ معلومات کلاسیفائیڈ ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے کہا،’’ حکومت تحائف کی معلومات نہ دے کر کیوں شرمندہ ہو رہی ہے؟ حکم رانوں کو ملے تحائف کی معلومات عام کرنے سے کسی مُلک کے ساتھ تعلقات کیسے خراب ہوں گے؟ دفاعی یا قومی سلامتی سے متعلق تحفے کا بے شک نہ بتائیں۔ ‘‘ لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ توشہ خانہ کے تحائف کی مخصوص افراد کو نیلامی غیر آئینی ہے۔ یہ شخصیات کو نہیں، ریاست کا ریاست کو گفٹ ہوتا ہے۔تحائف کی فروخت اور نیلامی کے لیے نئے رولز بنائے جائیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی عدم حاضری پر ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیلز خارج کرتے ہوئے کہا کہ فیئر ٹرائل کے بعد سزا ملی، ضمانت پر لندن جا کر مفرور ہو گئے، بغیر کسی جواز غیر حاضر رہے،حق سماعت کھو چُکے، کسی ریلیف کے مستحق نہیں۔ گرفتاری دیں یا پکڑے جائیں، تو اپیل دوبارہ دائر کر سکتے ہیں۔ مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی اپیلیں زیر سماعت رہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے فیصل واوڈا کو دُہری شہریت چُھپانے کے لیے جھوٹا بیان حلفی جمع کروانے پر بطور رکن قومی اسمبلی نااہل قرار دینے کی درخواست پر فیصلہ سنانے سے قبل آخری سماعت کی تو فیصل واوڈا کا استعفا عدالت میں پیش کر دیا گیا۔
سوا سال زیر سماعت مقدمے میں فیصل واوڈا نے متعدّد عدالتی نوٹسز کے باوجود نااہلی درخواست کا تحریری جواب داخل نہیں کیا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا،’’ مستعفی ہونے کے باعث فیصل واوڈا کو نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا، تاہم بیانِ حلفی بظاہر جھوٹا ہے، الیکشن کمیشن اس پر فیصلہ کرے۔‘‘ اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین سینیٹ الیکشن کے خلاف یوسف رضا گیلانی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا،’’ متبادل فورم موجود ہے، عدالتوں کو سیاسی معاملات میں لانا ٹھیک نہیں۔‘‘اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیوی اور ایئرفورس کی جانب سے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں تجاوزات پر کارروائی کا حکم دیا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ججز، بیوروکریٹس سمیت دیگر سرکاری ملازمین کو قرعہ اندازی سے سیکٹر ایف14، 15 میں پلاٹس کی الاٹمنٹ معطّل کر دی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے گریڈ 22کے افسران، ججز اور بیوروکریٹس کو ایک سے زاید پلاٹس کی الاٹمنٹ غیر قانونی قرار دیتے ہوئے معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کی ہدایت کی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹک ٹاک پر پابندی کا معاملہ کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم دیا، جس کے بعد پابندی ہٹا لی گئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ وزیراعظم اپنے زیر کنٹرول ایجنسیز کو لاپتا صحافی و بلاگر مدثر نارو کو عدالت میں پیش کرنے یا ٹھکانے کا پتا لگانے کی ہدایت کریں۔
جبری گم شدگیوں کا رجحان پاکستان میں اجنبی نہیں۔ وفاقی حکومت کی ذمّے داری ہے کہ وہ متاثرہ فیملی کو مطمئن کرے کہ ریاست یا ایجنسیز لاپتا شخص کے اغوا میں ملوّث نہیں۔ اگر لاپتا شخص کا پتا نہیں چلتا تو وفاقی کابینہ ناکامی کے ذمّے دار اداروں کا پتا لگا کر ان کے خلاف کارروائی سے آگاہ کرے۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو وکیل فراہم کرنے کی حکومتی درخواست پر متعدّد سماعتیں ہوئیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بھارت اس کیس کی پیروی میں سنجیدہ نہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافیوں کو ایف آئی اے نوٹسز سے ہراساں کرنے کے خلاف درخواستوں کو یک جا کر کے سماعت کی اور ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ وہ پیکا ایکٹ کے تحت نوٹس جاری کرنے کے ایس او پیز بنائے۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ شادی کے تحائف دلہن کی جائیداد ہیں۔ شرعی قانون کے مطابق شادی کے وقت دیے گئے تحائف بیوی سے واپس نہیں لیے جا سکتے۔ عدالت نے جائیداد کی تقسیم سے متعلق ایک مقدمے میں کہا کہ کوئی عدالت یا جرگہ شرعی وراثتی قانون کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ ایک اور کیس میں فیصلہ دیا کہ خواتین اپنی زندگی میں وراثت میں حصّہ نہ لیں، تو اولاد دعویٰ نہیں کر سکتی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدّم قتل کیس اور عثمان مرزا وڈیو وائرل کیس کے ٹرائل دو ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایات جاری کیں۔
گلگت بلتستان کی سپریم اپیلیٹ کورٹ کے سابق چیف جج، رانا شمیم کے لندن میں بیان حلفی کی دی نیوز میں اسٹوری شایع ہوئی کہ سابق چیف جسٹس پاکستان، ثاقب نثار نے ان کے سامنے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کو نواز شریف اور مریم نواز کی ایون فیلڈ ریفرنس میں الیکشن 2018ء سے پہلے ضمانت نہ دینے کی ہدایات جاری کیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رجسٹرار کے نوٹ پر توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کی۔دی نیوز کے ایڈیٹر انچیف، ایڈیٹر عامر غوری اور اسٹوری دینے والے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی نے عدالت میں پیش ہوکر بتایا کہ اُنہوں نے پیشہ وارانہ اور صحافتی ذمّے داریاں پوری کرتے ہوئے رانا شمیم سے بیان حلفی کی تصدیق اور ثاقب نثار کا موقف لینے کے بعد ہی خبر شایع کی۔
جب کہ رانا شمیم نے عدالت میں پیش ہو کر بیانِ حلفی کی تصدیق کی اور کہا کہ وہ بیان کردہ حقائق پر ثاقب نثار کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔اسی پس منظر میں سابق چیف جسٹس پاکستان کی ایک آڈیو بھی لیک ہوئی، جس پر تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کے لیے سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر صلاح الدّین ایڈووکیٹ نے عدالت سے رجوع کیا کہ آڈیو ٹیپ سے عدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچا۔ تاہم،چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ آڈیو کال ریکارڈ کرنے کی صلاحیت کس کے پاس ہے اور اصل آڈیو کہاں ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک زیر التوا اپیل کے لیے پوری عدلیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ یہ عدلیہ کو ہراساں اور دبائو ڈالنے کا سیزن ہے۔
کبھی کوئی آڈیو کبھی کوئی ڈاکیومنٹ ریلیز کر دیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جن کے کیسز ہیں وہ عدالت نہیں آئے، تحقیقات کے لیے کس کو ہدایات جاری کریں؟انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج ارشد حسین بھٹہ نے موٹر وے زیادتی کیس کے دونوں ملزمان کو سزائے موت، جب کہ اغوا و ڈکیتی کی دفعات کے تحت عُمر قید اور جرمانوں کی سزا سنائی۔ متاثرہ خاتون سمیت 40گواہان کے بیانات قلم بند کیے گئے۔
لاہور ہائی کورٹ نے وکلا ہڑتالوں کے خلاف درخواست پر فیصلہ سُنایا کہ وکیل ہڑتال کو جواز بنا کر عدالت سے غیر حاضر نہیں ہو سکتے۔ وزیرِ اعظم، عمران خان نے ویڈیو لنک کے ذریعے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، اسلام آباد کی عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا کہ شوکت خانم ٹرسٹ پر الزامات لگا کر عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کی گئی۔